ایک ہی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے مختلف اقوال کی 12 مثالیں
تحریر: محمد زبیر صادق آبادی

اگر کوئی متبع سنت آدمی آل دیو بند کو کوئی ایسی حدیث سنائے جو ان کے تقلیدی مسلک کے خلاف ہو تو آلِ دیو بند کہا کرتے ہیں کہ احادیث میں بہت اختلاف ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایسی احادیث کے مطابق فتوے دیے ہیں جو بعد والے دور کی ہیں۔
حالانکہ امام ابو حنیفہ نے قاضی ابو یوسف سے فرمایا تھا:
ويحك يا يعقوب! لا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الر أى اليوم وأتركه غدا وأرى الر أى غدا وأتركه بعد غد
اے یعقوب (ابو یوسف ) تیری خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔
(تاریخ یحییٰ بن معین ج 6 ص 607 ت 2461 وسندہ صحیح، تاریخ بغداد 424/14، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 38-39)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا تھا، وہ حفظ وضبط کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، مجھے اس بات سے قریش نے منع کیا، انہوں نے کہا کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات لکھ لیتے ہیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غضب و غصہ اور خوشگواری دونوں حالتوں میں بات کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں: میں حدیث لکھنے سے رک گیا، پھر میں نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کر، مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکلتا ہے۔
(مسند الامام احمد 2/162، سنن ابی داود: 3646، سنن الدارمی: 490، المستدرک للحاکم 1/102-105، وسندہ صحیح وأخرجہ احمد 2/207، مسند البزار: 2480، تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 1516، معجم الصحابہ لابی القاسم البغوی: 1472، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر 84/1-85 وسندہ حسن، التقييد للخطیب: 80 وسندہ حسن، ماہنامہ السنہ جہلم شمارہ نمبر 2 ص 6-7)
امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ نے فرمایا: میری ابوحنیفہ سے مجلس تھی وہ ایک ایک مسئلہ میں دس دس فتوے دیتے تھے۔ ہم نہیں جان سکتے تھے کہ ان میں سے کس فتویٰ پر عمل کریں اور وہ خود بھی ان سے رجوع کر لیتے۔ ایک مجلس میں ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک ہی مجلس میں پانچ فتوے دیے، میں نے جب ان کی یہ حالت و کیفیت دیکھی تو ان کو ترک کر دیا اور حدیث کی طرف متوجہ ہو گیا۔
(کتاب السنہ لعبد اللہ بن احمد بن حنبل ص 205، 220 ج 1، تحفہ حنفیہ ص 430-431)
اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے بھی بہت سے مسائل میں ان سے اختلاف کیا بلکہ آل دیوبند اور آلِ بریلی کے علامہ ابن عابدین شامی نے لکھا ہے:
فحصل المخالفة الصاحبين فى نحو ثلث المذهب
(حاشیہ ابن عابدین 67/1)
یعنی صاحبین نے تقریباً ایک تہائی مذہب میں مخالفت کی ہے۔
اب آلِ دیو بند کی معتبر کتابوں سے بطور نمونہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ایک ہی مسئلہ میں مختلف اقوال پیش خدمت ہیں:

1) فرائض کی آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے متعلق مختلف اقوال:

ایک قول یہ ہے کہ آخری دو رکعتوں میں فاتحہ کی جگہ کچھ بھی نہ پڑھے یا سبحان اللہ سبحان ہی کہہ لے تو بھی جائز ہے۔
(موطا ابن فرقد ص 81 مترجم حدیث 136، دوسرا نسخہ ص 101، ہدایہ مع اشرف الہدایہ 2/209 ترجمہ جمیل احمد دیوبندی، ہدایہ مع فتح القدیر /323، حدیث اور اہل حدیث ص 361، تعلیم الاسلام ص 135، دوسرا نسخہ ص 95 حصہ سوم، نماز مسنون ص 287، تجلیات صفدر 253/6، منیۃ المصلی ص 90، چار سو اہم مسائل ص 35، آپ کے مسائل اور ان کا حل 213/2)
مذکورہ آل دیوبند اور ان کے اکابر کے علاوہ بہت سے آل دیو بند کے نزدیک آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے لیکن ان سب کے برعکس آلِ دیو بند کے امام سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
چھٹا اعتراض: مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی حالانکہ احناف کہتے ہیں کہ اگر پچھلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو تو نماز جائز ہے۔ تو حنفیہ کا عمل بھی حدیث جابر پر نہ ہوا۔
(بمعناه تحقيق الكلام جلد 2 ص 214)
جواب: ”مبارکپوری صاحب نے اپنے اس دعوے کے اثبات کے لیے بعض فقہائے کرام کی عبارتیں بھی نقل کی ہیں لیکن کیا مولانا کو یہ معلوم نہیں کہ جتنی حدیثیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، ان میں ہر ہر حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ نہیں ہے۔ اور نہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، بلکہ ان میں بہت حدیثیں جعلی، خانہ ساز، ضعیف، شاذ، منکر اور معلول وغیرہ کبھی کچھ موجود ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نہ تو فقہ حنفی کی ہر ہر جزئی امام ابو حنیفہ کی فرمودہ ہے اور نہ ہر ہر جزئی قابل عمل ہے اور مجتہد کا مصیب اور خطا ہونا اس پر مستزاد ہے۔ پھر بعض فقہاء کی غیر معصوم آرا کو حتمی اور ضروری سمجھ کر تمام احناف کا مسلک بتانا اور پھر اس پر اعتراض کی بنیاد رکھنا محض باطل اور مردود ہے۔ اور اگر بعض نے ایسا لکھا ہے تو اس کو سہو و نسیان پر حمل کرنے کا دروازہ بند نہیں ہو جاتا اور احکام عہد وسہو میں فرق مخفی نہیں ہے۔ (دیکھیے بدور الاہلہ ص 67 وغیرہ) لیکن مسئلہ زیر بحث میں تو حضرت امام ابو حنیفہ سے یہ روایت منقول ہے کہ پچھلی دونوں رکعتوں میں قرآت سورۂ فاتحہ ضروری ہے اور اسی روایت کو حافظ ابن ہمام نے پسند کیا اور ترجیح دی ہے (فصل الخطاب ص 7) اور حضرت شاہ صاحب۔ ۔ ۔ “
(احسن الکلام ج 2 ص 334-335، دوسرا نسخہ 271-272)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ آل تقلید ابھی تک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دو متضاد اقوال کے بارے میں متفقہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ صحیح یا ضعیف یا پھر ناسخ اور منسوخ کون سا قول ہے۔
نیز محمد بن حسن شیبانی کی ابوحنیفہ سے روایت بھی آل دیوبند کے نزدیک شاید مشکوک ہے۔

2)نماز ظہر اور عصر کے وقت کے متعلق مختلف اقوال:

سعید احمد پالنپوری اور امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے:
اور امام اعظم سے اس سلسلہ میں چار روایتیں منقول ہیں۔
(1) ظاہر روایت میں ظہر کا وقت دو مثل پر ختم ہوتا ہے، اور اس کے بعد فوراً عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، یہی مفتی بہ قول ہے، علامہ کاسانی نے ”بدائع الصنائع“ میں لکھا ہے کہ یہ قول ظاہر روایت میں صراحت مذکور نہیں ہے، امام محمد نے صرف یہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عصر کا وقت دو مثل کے بعد (یعنی تیسرے مثل سے) شروع ہوتا ہے، ظہر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اس کی تصریح امام محمد نے نہیں کی ہے۔
(2) امام اعظم کا دوسرا قول وہی ہے جو ائمہ ثلثہ اور صاحبین کا ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے، اور صاحب دُر مختار نے لکھا ہے کہ آج کل لوگوں کا عمل اسی پر ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے، اور سید احمد دحلان شافعی نے خزانة المفتيين اور فتاویٰ ظہیریہ سے امام صاحب کا اس قول کی طرف رجوع نقل کیا ہے، مگر ہماری کتابوں میں یہ رجوع ذکر نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس قول کو حسن بن زیاد لوگویی کی روایت قرار دیا گیا ہے، اور سرخسی نے مبسوط میں اس کو بروایت امام محمد ذکر کیا ہے، اور صاحب دُر مختار نے جو اس قول کو مفتی بہ کہا ہے اس کو علامہ شامی نے رد کیا ہے۔
(3) امام اعظم سے تیسری روایت یہ ہے کہ مثل ثانی مہمل وقت ہے یعنی ظہر کا وقت ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہے، اور عصر کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا ہے اور دوسرا مثل نہ ظہر کا وقت ہے نہ عصر کا، یہ اسد بن عمرو کی روایت ہے امام اعظم سے۔
(4) اور چوتھا قول عمدۃ القاری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل سے کچھ پہلے ختم ہو جاتا ہے، اور عصر کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا ہے، امام کرخی نے اس قول کی تصحیح کی ہے۔
(ادلہ کاملہ ص 92، تجلیات صفدر 86/5)

3)امام کے آمین کہنے کے متعلق مختلف اقوال:

ایک قول یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں آہستہ آمین کہیں۔
(کتاب الآثار ص 22، حدیث اور اہل حدیث ص 380)
دوسرا قول: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی نے کہا:
فأما أبو حنيفة فقال يؤمن من خلف الإمام ولا يؤمن الإمام
یعنی ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے مقتدی آمین کہیں اور امام آمین نہ کہے۔
(موطا ابن فرقد ص 98، دوسرا نسخہ 80-92 مترجم تحت حدیث: 98، خزائن السننع: 332، درس ترمذی 51/3)

4)نماز جنازہ میں امام کے کھڑا ہونے کے متعلق مختلف اقوال:

صاحب ہدایہ نے لکھا ہے ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ مرد کے جنازہ کے سر کے مقابل کھڑا ہو اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو۔ کیونکہ حضرت انس نے اسی طرح کیا تھا اور کہا کہ یہی سنت ہے۔
(ہدایہ مع اشرف الہدایہ 2/428)
جبکہ اس کے برعکس ظہور اللہ باری اعظمی دیوبندی نے لکھا ہے: ”امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دوسرے شواہد کی بنا پر مرد اور عورت دونوں کے لیے سینے کے سامنے امام کے کھڑے ہونے کے لیے کہا ہے۔“
(تفہیم البخاري 621/1)
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے بھی کہا: ”شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ امام مرد کے جنازے میں سر کے مقابل اور عورت کے جنازے میں وسط میں کھڑا ہو گا، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں، ایک شافعیہ کے مطابق، اور امام طحاوی نے اس کو ترجیح دی ہے اور اس کو امام ابو یوسف سے بھی روایت کیا ہے۔“
(درس ترمذی 311/3)

5)گھوڑے کے جوٹھے پانی کے متعلق مختلف اقوال:

آل دیو بند کے مفتی جمیل احمد سکھرودھوی مدرس دارالعلوم دیو بند نے لکھا ہے: اور گھوڑا نر ہو یا مادہ، اس کا جوٹھا صاحبین کے نزدیک پاک ہے کیونکہ اس کا گوشت ماکول ہے اور جس کا گوشت ماکول ہو اس کا جوٹھا پاک ہوتا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ سے چار روایات ہیں:
(1) یہ کہ اس کے علاوہ دوسرے پانی سے وضو کرنا ناپسندیدہ ہے۔
(2) یہ کہ اس کے گوشت کی طرح اس کا جوٹھا بھی مکروہ ہے۔
(3) یہ کہ سور حماں کی طرح مشکوک ہے۔
(4) یہ کہ پاک ہے۔
(اشرف الہدایہ 1/203)
جمیل احمد دیوبندی نے اپنی مرضی سے آخری قول کو مسیح مذہب قرار دیا ہے۔

6)نبیذ سے وضو کے متعلق تین اقوال:

جمیل احمد دیوبندی نے لکھائی ہے:
مسئلہ یہ ہے کہ نبیذ تمر کے علاوہ دوسرا کوئی پانی موجود نہ ہو تو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں تین روایات منقول ہیں:
(1) جامع صغیر اور زیادات میں مذکور ہے کہ نبیذ تمر سے وضو کرے اور تیمم نہ کرے۔
(2) امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک نبیذ تمر سے وضو کرنا اور مٹی سے تیمم کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔
(اشرف الہدایت)
(3) نوح ابن ابی مریم اور حسن بن زیاد نے روایت کیا ہے کہ تیمم کرلے اور نبیذ تمر سے وضو نہ کرے۔
(اشرف الہدایہ 1/574)
نیز تقی عثمانی دیوبندی نے بھی نبیذ کی ایک قسم سے وضو کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تین اقوال نقل کیے ہیں۔ کوئی حنفی کسی قول کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی کسی اور قول کو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے درس ترمذی (320/1)

7)گدھے کے پسینے کے متعلق امام ابوحنیفہ کے مختلف اقوال:

جمیل احمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”گدھے کے پسینے میں حضرت امام اعظم سے تین روایات ہیں:
(1) یہ کہ پاک ہے، گدھے کا پسینہ جواز صلوٰۃ کے لیے مانع نہیں ہے۔
(2) یہ کہ نجاست خفیفہ ہے۔
(3) نجاست غلیظہ ہے۔ لیکن روایت مشہورہ کے مطابق پاک ہے لہٰذا اسی طرح اس کا جوٹھا بھی پاک ہوگا۔“
(اشرف الہدایہ 1/201)
گدھے کے جوٹھے کے متعلق صاحب ہدیہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا صرف ایک قول نقل کیا ہے کہ گدھے کا جوٹھا ناپاک ہے۔
(ہدایہ مع اشرف الہدایہ 1/200، ترجمہ جمیل احمد دیوبندی)

8)قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کے متعلق مختلف اقوال:

سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (ورواية عن أحمد بن حنبل رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں استقبال واستدبار بنیان وصحرا ہر جگہ میں حرام ہے۔“
(خزائن السنن ص 56)
سرفراز صفدر نے ہی دوسرا قول یوں لکھا ہے: ”امام احمد بن حنبل کا مسلک جیسے کہ ترمذی نقل فرما رہے ہیں کہ استقبال بنیان وصحرا ہر جگہ ناجائز اور استدبار ہر جگہ جائز ہے۔ (امام صاحب سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ بذل المجهود ج 2 ص 25، ناقلاً عن العینی)
(خزائن السنن ص 57)
تنبیہ: استقبال سے مراد قبلہ کی طرف منہ کرنا اور استدبار سے مراد پیٹھ کرنا ہے، بنیان سے مراد ہے کسی عمارت یا اوٹ میں اور صحرا سے مراد کھلی جگہ ہے۔

9)نماز جمعہ کے بعد سنت کی تعداد میں مختلف اقوال:

سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
”الحاصل جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت ہیں۔ جمعہ کے بعد کی سنتوں میں اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے چار رکعت اور امام ابو یوسف سے چھ رکعات منقول ہیں۔ فقہ کی عام کتب میں امام صاحب کا یہی مسلک نقل کیا ہے اور مفتی بہ قول امام ابو یوسف کا قرار دیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ امام صاحب بھی چھ رکعت کے قائل تھے۔ امام صدر الائمہ المکی مناقب الامام الاعظم ج 2 ص 341 میں اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں:
قال أبو إسماعيل الفارسي رأيت سفيان ومسهرا وأبا حنيفة ومالك بن مغول وزائدة يصلون بعد الجمعة ستا وثلاثين وأربعا
اور اسی طرح امام کردری نے اپنی کتاب مناقب کردری ج 2 ص 244 میں لکھا ہے: دو پہلے چار بعد میں۔“
(خزائن السنن 422/2)
قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ عام کتب فقہ والوں کے قول کے خلاف سرفراز صفدر دیوبندی نے موفق بن احمد المکی (اخطب خوارزم) (متوفی 568ھ) کی روایت پر اعتماد کیا جو کہ آل دیوبند کے نزدیک انتہائی مجروح راوی ہے۔ محمد نافع دیوبندی نے شاہ عبد العزیز دہلوی سے موفق مکی (اخطب خوارزم) کے بارے میں بطور خلاصہ لکھا ہے: اخطب خوارزم غالی زیدی شیعوں میں سے ہے۔ اہل سنت کے محدثین اس بات پر اجماع رکھتے ہیں کہ اخطب زیدی مذکور کی سب روایات مجہول وضعیف لوگوں سے منقول ہیں اور اس کی بیشتر روایات معتبر لوگوں کے خلاف اور جعلی ہیں، اہل سنت کے فقہاء اس کی مرویات کے ساتھ ہرگز احتجاج واستدلال نہیں کرتے۔
(حدیث ثقلین ص 143)
اور محمود عالم اوکاڑوی دیوبندی نے (فتاویٰ عالمگیری ص 283) کے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام زیدیہ شیعہ کو کافر قرار دینا واجب ہے۔
(قافلہ گمن جلد 4 ص 29)
اگر زیدی شیعہ آلِ دیو بند کی تکفیر سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل بیان کرنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر امام ابن جریج رحمہ اللہ کو آل کوہ جیل شیابازی وغیرہ نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں لیکن انہوں نے بقول آل دیو بند امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حق میں کوئی بات کی تو آل دیو بند سے محدث جلیل کا لقب پایا۔
(دیکھیے مجذوبانہ واویلا ص 285)

10)تالاب کا پانی چیک کرنے کے لیے کہ قلیل ہے یا کثیر پانی کو حرکت دینے کا کون سا طریقہ معتبر ہے؟ اس میں امام ابو حنیفہ کے مختلف اقوال ہیں:

آل دیوبند کے مفتی جمیل احمد نے ہدایہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
ترجمہ: اور بڑا تالاب وہ ہے کہ اس کا ایک کنارہ متحرک نہ ہو دوسرے کنارے کو حرکت دینے سے، جب کہ اس کی ایک جانب نجاست پڑ جائے تو دوسری جانب سے وضو جائز ہے کیونکہ ظاہر یہ ہی ہے کہ نجاست دوسری جانب نہیں پہنچی کیونکہ حرکت دینے کا اثر پھیل جانے میں بہ نسبت نجاست کے اثر کے بڑھا ہوا ہے۔ پھر ابوحنیفہ سے روایت ہے کہ حرکت دینا وہ معتبر ہے جو نہانے سے ہو، اور یہ ہی ابو یوسف کا قول ہے۔ اور امام صاحب سے یہ بھی روایت ہے کہ ہاتھ سے حرکت دینا معتبر ہے۔ اور امام محمد سے روایت ہے کہ وضو کرنے کے ساتھ حرکت دینا معتبر ہے۔
(ہدایہ مع اشرف الہدایہ 1/152-153، ترجمہ جمیل احمد سکرودھوی دیوبندی)

11)آب مستعمل یعنی وہ پانی جو وضو سے استعمال ہوا ہو پاک یا ناپاک ہونے کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تین مختلف اقوال:

(1) جمیل احمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”امام محمد نے فرمایا ہے اور یہ ہی روایت امام اعظم ابو حنیفہ سے ہے کہ آب مستعمل طاہر غیر مطہر ہے۔“
(اشرف الہدایہ 1/120)
(2) جمیل احمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”پھر حسن بن زیاد کا مذہب یہ ہے کہ آب مستعمل نجس نجاست غلیظہ ہے اور اس کو امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے۔“
(اشرف الہدایہ 1/160)
(3) جمیل احمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”اور ابو یوسف کا مذہب یہ ہے کہ یہ نجس ہے نجاست خفیفہ ہے اور یہ بھی ابو حنیفہ سے ایک روایت ہے۔“
(اشرف الہدایہ 1/160)

12)اگر جنبی کنویں میں غوطہ لگائے جنبی کے پاک ہونے یا نہ ہونے کے متعلق مختلف اقوال:

جمیل احمد دیوبندی نے ہدایہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
ترجمہ: اور جنبی نے جب کنویں کے اندر غوطہ مارا ڈول نکالنے کے لیے تو ابو یوسف کے نزدیک وہ مرد اپنے حال پر جنب ہے کیونکہ پانی کا بدن پر بہانا نہیں پایا گیا۔ حالانکہ فرض ساقط کرنے کے واسطے ابو یوسف کے نزدیک یہ شرط ہے اور پانی بھی اپنے حال پر (پاک) ہے کیونکہ دونوں باتیں نہیں ہیں، اور امام محمد کے نزدیک دونوں پاک ہیں، مرد تو اس لیے کہ بہانا شرط نہیں ہے اور پانی، قربت کی نیت نہ ہونے کی وجہ سے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں ناپاک ہیں۔ پانی تو اول ملاقات میں بعض اعضاء سے فرض ساقط کر دینے کی وجہ سے، اور مرد باقی اعضاء میں حدث کے باقی رہنے کی وجہ سے۔ اور کہا گیا کہ امام صاحب کے نزدیک مرد کی نجاست آب مستعمل کے نجس ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور امام صاحب سے ہی مروی ہے کہ مرد پاک ہو گیا، اس لیے کہ جدا ہونے سے پہلے پانی کو استعمال کا حکم نہیں دیا جاتا ہے۔ امام صاحب سے یہ روایت سب روایتوں میں سے زیادہ موافق ہے۔
(ہدایہ مع اشرف الہدایہ 9/165)
قارئین کرام! یہ ایک درجن اقوال جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں، بطور نمونہ مشت از خروار نقل کیے ہیں لیکن آل دیوبند کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ محمد بن حسن شیبانی ، ابو یوسف اور زفر رحمہ اللہ وغیرہ کے تمام اقوال بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ہی اقوال ہیں۔ امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے: ”چنانچہ شامی میں ہی ہے کہ امام ابو یوسف ، امام محمد، امام حسن، امام زفر سب نے بڑی مضبوط قسموں کے ساتھ بیان کیا کہ ہمارا ہر قول امام صاحب سے ہی منقول ہے۔“
(تجلیات صفدر 16/159، نیز دیکھیے ترجمہ احناف ص 178، تحفہ اہل حدیث 70/1، فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات ص 167)
لیکن ان اقوال میں اتنا زیادہ اختلاف ہے کہ ان کو شمار کرنا میرے لیے بہت ہی مشکل ہے۔ باذوق حضرات ہدیہ کا ترجمہ اور تشریح یعنی اشرف الہدایہ ہی دیکھ لیں۔
بطور نمونہ یہاں صرف ایک مثال نقل کیے دیتا ہوں۔ آل دیو بند کے مفتی جمیل احمد نے ہدایہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
ترجمہ: پھر اگر کنجے میں بکری نے پیشاب کر دیا تو ابوحنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک پورا پانی نکالا جائے۔ اور امام محمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کچھ پانی نہ نکالا جائے مگر جبکہ پیشاب پانی پر غالب آ جائے تو پانی مطہر (پاک کرنے والا) ہونے سے نکل جائے گا۔ اور اس اختلاف کی اصل یہ ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کا پیشاب امام محمد کے نزدیک پاک ہے اور شیخین کے نزدیک ناپاک ہے۔ امام محمد کی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیون کو اونٹ کے پیشاب اور دودھ پینے کا حکم کیا۔ اور شیخین کی دلیل یہ حدیث ہے کہ پاکیزگی رکھو پیشاب سے کیونکہ اکثر عذاب قبر اسی سے ہے۔ بغیر تفصیل کے اور اس لیے کہ ماكول اللحم جانور کا پیشاب بدبو اور فساد کی جانب مستحیل ہو جاتا ہے پس وہ غیر ماکول اللحم کے پیشاب کے مانند ہو گیا۔ اور تاویل اس حدیث کی جو امام محمدنے روایت کی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیون کی شفاء بذریعہ وحی معلوم کی، پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ماکول اللحم جانور کا پیشاب بطور دواء پینا بھی حلال نہیں ہے کیونکہ اس پیشاب میں شفا یقینی نہیں ہے، لہذا حرمت سے اعراض نہیں کیا جائے گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک دوا کے واسطے پینا حلال ہے۔ عرنیین کے قصہ کی وجہ سے۔ اور امام محمد رضی اللہ عنہ کے نزدیک دوا اور غیر دوا دونوں کے واسطے پینا حلال ہے کیونکہ وہ امام محمد رضی اللہ عنہ کے نزدیک پاک ہے۔
(ہدایہ مع اشرف الہدایہ 1/179)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1