ایک وقت میں دو جماعتوں کے ساتھ نماز پڑھانے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، ص 214-215

سوال

کیا ایک مولوی نے ایک وقت میں دو جماعتوں کے ساتھ امامت کرائی، کیا دوسری جماعت کی نماز خلف اس کے صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

ایک وقت میں دو جماعتوں کے ساتھ امامت کرانے کا عمل شرعی طور پر درست ہے اور دوسری جماعت کی نماز بھی صحیح ہے۔ اس کی دلیل ان احادیث سے ملتی ہے جو بخاری و مسلم میں مذکور ہیں۔

مشکوٰۃ شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

"حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم کے پاس جا کر انہیں نماز پڑھاتے۔”
(متفق علیہ)

اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز فرضیت کے طور پر پڑھتے اور پھر اپنی قوم کے ساتھ دوبارہ وہی نماز نفل کے طور پر پڑھاتے، جبکہ قوم کے لیے وہ نماز فرض ہوتی۔ یہ حدیث بخاری اور بیہقی میں مذکور ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا شخص نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، اور اس پر شریعت میں کوئی ممانعت نہیں۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خوف میں مختلف گروہوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی، اور ہر گروہ کے ساتھ الگ الگ نماز پڑھائی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ نفل نماز تھی جبکہ مقتدیوں کے لیے فرض۔

نتیجہ:

امام کا ایک وقت میں دو جماعتوں کے ساتھ نماز پڑھانا شرعی طور پر جائز ہے، اور دوسری جماعت کی نماز بھی صحیح ہے، جیسا کہ مذکورہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔

حوالہ: (فتاویٰ نذیریہ، جلد نمبر ۱، ص ۳۲۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1