ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم اور رجوع کا جواز
ماخوذ : فتاوی علمیہ (توضیح الاحکام)

ایک مجلس کی تین طاق

سوال:

میرے بھائی، جو کہ تعلیم یافتہ نہیں اور ایک پی سی او (پبلک کال آفس) میں کام کرتا ہے، اس کی علمی حیثیت بھی ایسی نہیں کہ وہ اسلام کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔ ایک دن اس کی اپنی بیوی سے شدید جھگڑا ہو گیا۔ اس موقع پر، اس نے میرے سامنے ایک ہی وقت میں اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے دی۔

الحمدللہ، میں نے طلاق ثلاثہ (تین طلاقیں) کے مسئلے پر کچھ مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے، میں نے فوری طور پر اپنے بھائی کو رجوع (مصالحت) کرنے کا مشورہ دیا، اور اس نے رجوع کرلیا۔ آج ان کے دو بچے ہیں اور وہ دونوں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔

میری نیت یہی تھی کہ قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔ لیکن اب میرے دل میں بار بار یہ سوال اٹھتا ہے کہ چونکہ میں کوئی مفتی نہیں ہوں، تو کیا میرا کیا ہوا فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو رہنمائی اپنے بھائی کو دی، وہ الحمدللہ بالکل درست اور صحیح تھی۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کو صرف ایک طلاق شمار کیا جاتا تھا۔

اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے آپ "فتویٰ نمبر (5248)” کو ملاحظہ فرمائیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے