مسئلہ طلاق ثلاثہ اور اس کی نوعیت :۔
گزشتہ تفصیلات سے واضح ہے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر غصے اور اشتعال میں آکر طلاق دے دینا شرعا پسندیدہ امر ہے، نہ مرد کے شایانِ شان ہی۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے بجائے مرد کو طلاق کا حق اسی لیے دیا ہے کہ مرد عورت کے مقابلے میں زیادہ حوصلہ مند اور زیادہ ضبط و تحمل کا مالک ہے لیکن اکثر لوگ اپنے شیوہ مردانگی کو بھول جاتے ہیں اور غصے اور جذبات میں آکر فورا طلاق دے ڈالتے ہیں، پھر جب غصہ اور جذبات ٹھنڈے پڑتے ہیں تو ہوش آتا ہے اور دیکھتے ہیں کہ ان کا تو ہنستا بستا گھر ہی اجڑ گیا ہے، ان کا گلستاں خزاں دیدہ اور ان کے مستقبل کا شیش محل چکنا چور ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ طلاق دینے کا طریقہ بھی غلط اختیار کرتے ہیں، یعنی بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں جو متفقہ طور پر ناجائز طریقہ ہے، حالانکہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں، بغیر صحبت کیے، صرف ایک طلاق دی جائے اور وہ بھی صرف اُس صورت میں کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔
صحیح طریقہ طلاق اختیار کرنے کا فائدہ :۔
اس طرح طلاق دینے کا فائدہ یہ ہے (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت کی گئی ہے) کہ اس کے بعد اگر رجوع اور صلح کی صورت بن جائے تو محدثین اور فقہائے اربعہ سب کے نزدیک تین حیض یا تین مہینے کے اندر رجوع ، اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ اور اگر طلاق دینے کے بعد رجوع نہ ہو اور عدت (تین حیض) گزر جائے تو ان کے مابین تعلق زوجیت ختم ہو جائے گا۔ مطلقہ بیوی اس کے بعد آزاد ہے، جہاں چاہے نکاح کرے حتی کہ پہلے خاوند سے بھی نکاح کر سکتی ہے۔ اس طریقے میں دوسری اور تیسری طلاق دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اور موٹی سی بات ہے کہ جب ایک ہی مرتبہ طلاق دینے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو بیک وقت تین طلاقیں کیوں دی جائیں؟
لیکن ہمارے ملک میں جہالت عام ہے حتی کہ وکلاء اور عرضی نویس حضرات بھی بالکل بے علم ہیں اور جس طرح جاہل لوگ بغیر سوچے سمجھے ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں، اگر کوئی وکیل یا وثیقہ نویس سے طلاق لکھواتا ہے تو وہ بھی تین طلاقیں لکھ کر اس کے حوالے کر دیتے ہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے پر شدید غصے کا اظہار فرمایا ہے اور اسے اللہ کی کتاب کے ساتھ استہزا اور مذاق قرار دیا ہے۔ اور اسی غلط طریقے کی وجہ سے پھر اختلاف بھی واقع ہوتا ہے۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ اس طرح تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور اب حلالے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس کے بغیر دونوں کا دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا ، حالانکہ اسلام میں حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے ، یہ ایک لعنتی فعل ہے جسے کوئی غیرت مند مرد اور عورت برداشت نہیں کر سکتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے۔ جیسے فرمایا :
ألا أخبركم بالتيس المستعار؟ قالوا : بلى يا رسول الله! قال : هو المحلل ، لعن الله المحلل والمحلل له
(سنن ابن ماجه النكاح باب المحلل والمحلل له ، حديث : 1936 والمستدرك للحاكم، الطلاق: 199/2، حديث : 2805 والسنن الكبرى للبيهقي، النكاح باب ما جاء في نكاح المحلل : 208/7)
کیا میں تمھیں کرائے کا سانڈ بتلاؤں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : ہاں ضرور بتلائیے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے ، اللہ حلالہ کرنے والے پر لعنت فرمائے اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کروایا جائے۔
اس کے برعکس دوسرے علماء کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق رجعی شمار ہوں گی ، یعنی اس کے بعد خاوند اگر رجوع کرنا چاہے تو تین مہینے کی عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے ، اس کے لیے اسے نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں! اگر عدت گزرنے کے بعد صلح کرنا چاہیں گے تو پھر نکاح ضروری ہے اور حلالے کے بغیر ان کا باہم نکاح کرنا جائز ہوگا۔ پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق میں یہی حکم ہوگا، البتہ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ نکاح حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ یہاں تک کہ کسی دوسرے مرد سے نکاح
کرے۔
اس موقف کے مختصر دلائل حسب ذیل ہیں :
قرآنی دلیل :۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ(سورۃ البقرہ : 229)
طلاق دو مرتبہ ہے ، پس (اس کے بعد) بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو طلاق دینے کے بعد بیوی سے رجوع کر کے اپنے پاس روک لینے یا طلاق کو مؤثر کر کے احسان کے ساتھ اسے اپنے سے جدا کر دینے کا دو مرتبہ حق حاصل ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق نہیں، تیسری طلاق کے بعد بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، اس سے نہ رجوع ہوسکتا ہے نہ نکاح ، یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے آباد ہونے کی نیت سے با قاعدہ نکاح کرے، پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو پہلے خاوند سے اس کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
قرآن کریم کے اس انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کر کے بیوی کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دینا ، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے لیکن لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی صحیح اور مستحسن نہیں، کیونکہ اس طرح وہ حکمت فوت ہو جاتی ہے جو پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرنے کی گنجائش میں مضمر ہے، اس لیے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق رجعی شمار کرنا ، جس کے بعد عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو ، قرآن کریم کی رُو سے زیادہ صحیح ہے اور ذیل کی احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
احادیث سے استدلال :۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني مطلب امرأته ثلاثا فى مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيف طلقتها؟ قال : طلقتها ثلاثا، قال: فقال: فى مجلس واحد؟ قال : نعم، قال: فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت، قال : فرجعها
(مسند أحمد : 123/4، به تحقیق احمد شاکر۔ اس حدیث کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:هذ الحديث نص في المسئلة لا يقبل التأويل الذي في غيره من الروايات فتح الباري: 362/9)
حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟ انھوں نے کہا : تین مرتبہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ایک ہی مجلس میں طلاقیں دی تھیں؟ انھوں نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے ، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :
كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة
(صحيح مسلم، الطلاق باب طلاق الثلاث : 1472 والمستدرك للحاكم ، الطلاق: 196/2، حدیث : 2793 و سنن الدارقطني ، الطلاق ، حديث : 3961)
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اور عہد ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
ان دونوں حدیثوں سے بھی واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق رجعی شمار ہوں گی۔
متعدد حنفی علماء کا اعتراف :۔
انھی مذکورہ دلائل قرآن وحدیث کی بنیاد پر موجودہ دور کے بہت سے علمائے احناف نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کر کے خاوند عدت کے اندر رجوع کرنے کا اور عدت گزرنے کے بعد بہ نکاح جدید (بغیر حلالہ مروجہ کے) اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے گھر بسانے کا حق حاصل ہے۔ جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، (مدیر ماہنامہ برہان دہلی) مولانا عبد الحلیم قاسمی، (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور ) مولانا پیر کرم شاہ ازہری، (حج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) مولانا حسین علی واں بھچراں اور دیگر حضرات ہیں جس کی تفصیل ”ایک مجلس کی تین طلاق“ نامی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں پیر کرم شاہ ازہری کا ایک مدلل مقالہ بھی شامل ہے جس میں اسی مسلک کی تائید کی گئی ہے۔ (ان کے مقالات وفتاوی کی ضروری تلخیص آگے آئے گی اور ان کے علاوہ دیگر علماء کے فتاوی اور مقالات بھی آگے آپ ملاحظہ فرمائیں گے)
مثال کے طور پر مولا نا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ لیکن زید کو اپنی بیوی سے نہایت الفت ہے اور مفارقت ناقابل برداشت ، لہذا بدرجہ مجبوری مذہب شافعی کی تقلید کرتے ہوئے نکاح جائز ہوگا یا نہیں؟ اس کے جواب میں مولا نا عبدالحی رحمہ اللہ نے فرمایا : ضرورت شدیدہ کے وقت مذہب شافعی کی تقلید کرنا جائز ہے۔ فتاوی مولانا عبد الحی ص : 166
مولانا مرحوم کا مطلب یہ ہے کہ اگر مفاسد کا اندیشہ ہو تو دوسرے مذہب کے فتویٰ کے مطابق نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر لیا جائے۔ یہی اجازت مولانا کفایت اللہ مرحوم مفتی اعظم ہند نے بھی مخصوص حالات کے لیے دی ہے، چنانچہ ان کے مجموعہ فتاوی میں ایک سوال کا جواب درج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک حنفی نے طلاق ثلاثہ کے بعد اہل حدیث عالم سے فتویٰ لے کر اپنی بیوی سے رجوع کر لیا جس پر دوسرے علماء نے اہل حدیث مفتی پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اس کے مقاطعے کا حکم دیا اور مسجد میں آنے سے روک دیا۔ (سوال کیا گیا کہ) کیا یہ فعل جائز ہے؟ اس کا جواب دیا گیا :
ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کے علاوہ بعض علماء اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک طلاق رجعی ہوتی ہے اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور طاؤس رحمہ اللہ و عکرمہ رحمہ اللہ و ابن اسحاق رحمہ اللہ سے منقول ہے، پس کسی اہل حدیث کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں اور نہ وہ قابل مقاطعہ اور نہ مستحق إخراج عن المسجد ہے۔
ہاں ! حنفی کا اہل حدیث سے فتوی حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا تو یہ بہ اعتبار فتوی نا جائز تھا۔ لیکن اگر وہ بھی مجبوری اور اضطراری حالت میں اس کا مرتکب ہوا ہو تو قابل در گزر ہے۔کفایت المفتی : 361/6
اس تفصیل سے واضح ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک ہی شمار کرنے میں اہل حدیث منفرد نہیں ہیں بلکہ عصر صحابہ سے عصر حاضر تک ہر دور میں ایسے علماء وائمہ موجود رہے ہیں جو اسے ایک طلاق رجعی شمار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اس مسئلے میں اہل حدیث کو بلاوجہ مطعون کرتے اور ان کے خلاف گوہر افشانی کرتے ہیں۔