سوال
سائل مسمی محمد ایوب ولد شامد قوم کھرل موضع ٹوری قاسم تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ نے اپنی زوجہ مسمات زبیدہ بی بی دختر محمد منشاء قوم کھرل موضع ٹوری قاسم تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ کو تقریباً ڈیڑھ سال قبل والدین کی رنجش اور دیگر تنازعات کی وجہ سے غصے میں آکر ایک مجلس میں سہ بار طلاق دے دی۔
اب جبکہ میاں بیوی کے تمام مسائل طے پا چکے ہیں اور دونوں خاندان اس بات پر راضی ہیں کہ دوبارہ ان کا رشتہ ازدواج قائم ہو جائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
◄ کیا اب میاں بیوی پہلے کی طرح اسی نکاح پر دوبارہ اکٹھے رہ سکتے ہیں؟
◄ کیا نیا نکاح کرنا ہوگا یا پہلا نکاح برقرار ہے؟
◄ کیا حلالہ ضروری ہے؟
◄ یا پھر بغیر نئے نکاح اور حلالہ کے پہلے نکاح پر گھر آباد ہوسکتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحتِ سوال، صورتِ مسئولہ میں قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع ہو کر مؤثر ہوچکی ہے اور نکاح ٹوٹ چکا ہے۔
قرآن مجید کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ … ٢٢٩﴾
[البقرة]
ترجمہ: رجعی طلاق دو دفعہ ہے، اس کے بعد یا تو عورت کو بھلے طریقے سے روکنا ہے یا پھر اچھے طریقے سے رخصت کر دینا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ "مرتان” کا مطلب "دو دفعہ یا دو مجلسیں” ہے، جیسا کہ قرآن میں دیگر مقامات پر الفاظ کے استعمال سے واضح ہوتا ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ… ثَلَاثَ مَرَّاتٍ …﴾ [النور: ٥٨]
یہاں "ثلاث مرات” سے مراد "تین اوقات” ہیں، نہ کہ تین الفاظ۔ پس واضح ہوا کہ "الطلاق مرتان” کا مطلب طلاق کی دو مجالس ہیں، نہ کہ دو الفاظ۔
احادیث کی روشنی میں:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة”
(صحیح مسلم: ج1 ص477، مسند احمد: ص314)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے دور، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
➋ حضرت رکانہ بن یزید رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر سخت پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: "کیسے طلاق دی؟”
انہوں نے عرض کیا: "تینوں طلاق ایک ساتھ دی ہیں۔”
آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ تو ایک رجعی طلاق ہے، اگر چاہو تو رجوع کر لو۔” (اخرجہ احمد و ابو یعلیٰ، فتح الباری ج9 ص310، نیل الاوطار ج2 ص261)
صحابہ کرام و ائمہ کا موقف:
◈ حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم اور ہزار سے زائد صحابہ کرام کا یہی فتویٰ تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی رجعی طلاق شمار ہوں گی۔
(التعلیق المغنی: ج4 ص47)
◈ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ایک قول اسی کے مطابق ہے۔ (التعلیق المغنی: ج4 ص48)
◈ امام مالک، بعض حنابلہ، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
◈ برصغیر کے مشہور علماء مثلاً: مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عبدالحلیم قاسمی، علامہ کرم شاہ بریلوی رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
نتیجہ:
◉ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں، ایک رجعی طلاق شمار ہوں گی۔
◉ چونکہ اس طلاق کو ڈیڑھ سال گزر چکا ہے، اس لیے عدت ختم ہو چکی ہے اور پہلا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔
◉ تاہم، چونکہ یہ ایک رجعی طلاق شمار ہوئی ہے، اس لیے اب دوبارہ نکاح ثانی کی اجازت ہے۔
قرآن کا حکم ہے: ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ …﴾ [البقرۃ: 232]
ترجمہ: جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے سابقہ شوہروں سے دوبارہ نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔
صحیح بخاری میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ طلاق کے بعد عدت ختم ہو جانے پر میاں بیوی دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
فیصلہ:
◈ صورت مسئولہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے اور عدت ختم ہونے کی وجہ سے پہلا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔
◈ البتہ شریعت نے دوبارہ نکاح کی اجازت دی ہے۔
◈ اس کے لیے حلالہ کی ضرورت نہیں ہے۔
◈ میاں بیوی دوبارہ نکاح کر کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ پہلی طلاق ہی دی گئی ہو، اس کے علاوہ نہ ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب