سوال
ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں تحریری طور پر بھیج دی ہیں۔ اب وہ رجوع کا خواہشمند ہے۔ اگر قرآن و سنت کی روشنی میں رجوع ممکن ہو تو براہ کرم فتویٰ تحریر فرما کر مہربانی فرمائیں اور مہر لگا کر ہمیں ارسال کریں تاکہ ہم عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورتِ حال میں ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور میں اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دیتا تو وہ تینوں طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔
جیسا کہ
صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 477
میں ہے:
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺوَأَبِیْ بَکْرٍ ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَة»
(صحیح مسلم، ج2، ص477)
یعنی:
’’رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک، تین طلاقیں دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی تھی۔‘‘
رجوع کے احکام
✿ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد شوہر عدت کے دوران بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے، بشرطیکہ اصلاح کی نیت رکھتا ہو۔
جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾
(البقرہ: 228)
ترجمہ: "اور ان کے شوہر عدت کے دوران ان کو واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں اگر وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں۔”
✿ عدت ختم ہو جانے کے بعد اسی بیوی سے نیا نکاح کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ دونوں فریق رضامند ہوں۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
(البقرہ: 232)
ترجمہ: "اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں نہ روکو کہ وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے نکاح کریں اگر وہ آپس میں معروف طریقے سے رضامند ہوں۔”
نتیجہ
لہٰذا، اس مخصوص معاملے میں شوہر:
✿ اگر عدت کے اندر ہے اور اصلاح کی نیت رکھتا ہے، تو بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔
✿ اگر عدت ختم ہو چکی ہے، تو نیا نکاح کر کے بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لا سکتا ہے، بشرطیکہ دونوں فریق رضامند ہوں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب