ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک آدمی جب دوسری شادی کرتا ہے تو کیا دونوں بیویوں پر باری تقسیم کرنے میں وظیفہ زوجیت برابر ادا کرتا اس پر لازم ہے؟ اور اگر کسی وقت ایک بیوی سے صحبت کرنے پر طبیعت مائل نہیں ہوتی تو کیا اس پر گناہ لازم آئے گا؟

جواب :

دوسری شادی کے بعد آدمی پر لازم ہے کہ وہ اسباب کی تقسیم میں دونوں بیویوں کے درمیان عدل کرے۔ جیسے رہائش، خوراک، لباس اور باری کی تقسیم وغیرہ۔ اگر عدل سے کام نہیں لے گا تو قیامت کے دن اس کا مواخذہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط
ترمذی، كتاب النكاح، باب ما جاء في التسوية بين الضرائر (1141)، ابو داود (2133)، ابن ماجه (1971)، حاکم (0186/2 ح : 2759)
”جب آدمی کی دو بیویاں ہوں مگر وہ ان کے درمیان عدل سے کام نہ لے تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہو گی۔“
یہ ان معاملات کے بارے عدل کرتا ہے جو آدمی کی قدرت و استطاعت میں ہوں اور جن امور پر آدمی کو طاقت و قدرت نہ ہو ان پر اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ امام خطابی معالم السنن (3/ 218، 219) میں رقمطراز ہیں:
”اس حدیث میں آزاد سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم پر تاکید ہے۔ معاشرت زوجیت میں حقوق کی کمی کرنا مکروہ ہے، اگر دل کا میلان کسی جانب ہو تو وہ مکروہ نہیں ہے، اس لیے کہ دل کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں تقسیم میں برابری کرتے اور کہتے: ”اے اللہ یہ میری وہ تقسیم ہے جس کا میں مالک ہوں اور جس کا میں مالک نہیں ہوں اس پر تو میرا مواخذ نہ کرنا۔“
اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾
(النساء : 129)
”اور تم ہر گز طاقت نہیں رکھتے کہ عورتوں کے درمیان عدل کر سکو، اگر چہ تم حرص بھی رکھو، پس بالکل ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑ دو۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
أى أن تستطيعوا أيها الناس! أن تساووا بين النساء من جميع الوجوه فإنه وإن حصل القسم الصوري ليلة وليلة فلا بد من التفاوت فى المحبة والشهوة والجماع
تفسير ابن كثير (392/2) بتحقيق عبد الرزاق المهدي
”اے لوگو! تم اس بات کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے کہ تمام وجوہ کے لحاظ سے تم عورتوں کے درمیان عدل کر سکو، اگر چہ ایک ایک رات کے لحاظ سے باری کی تقسیم حاصل ہوتی ہے، لیکن محبت، شہوت اور جماع میں اختلاف ایک لازمی امر ہے۔“
یعنی انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ طبعی محبت، دل کے میلان، شہوت اور جماع پر ایک جیسا معاملہ اختیار کر سکے۔ امیر الحدثین، سید الفقہاء امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری، کتاب النکاح میں باب العدل بين النساء کے اندر مذکورہ آیت ہی بیان کی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عورتوں کے درمیان حسب طاقت عدل سے کام لینا چاہیے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا﴾ کی تفسیر محبت اور جماع نقل کی گئی ہے اور عبیدہ بن سمر و السلیمانی سے بھی یہی مروی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ”تم شدید حرص بھی رکھو تو بھی عدل کی طاقت نہیں رکھ سکتے“ اس سے مراد عورت سے قلبی محبت اور جماع ہے۔
ملاحظہ ہو فتح الباری (313/9)، بیہقی (0298/7 : 11712)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر مرد کی طبعی حالت کسی ایک بیوی کی طرف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح جماع بھی فطرتی چیز ہے، یہ بھی بعض اوقات آدمی کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک بیوی کے پاس جا کر اس سے جماع کا داعیہ نہ پیدا ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس کی باری میں قیام اس کے پاس کرے گا۔ اگر بیماری کا آدمی پر غلبہ ہو جائے اور دوسری کی باری میں اس کی طرف نہ جا سکتا ہو تو پھر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اس کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری والے ایام میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کرنے کی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے