اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی تعریف اور اس میں کمی و بیشی کا بیان
ایمان کی تعریف:
اہل سنت والجماعت کے مطابق ایمان تین بنیادی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
❀ اقرار بالقلب: دل کے ساتھ تصدیق۔
❀ نطق باللسان: زبان سے اقرار و شہادت۔
❀ عمل بالجوارح: اعضاء کے ساتھ عمل۔
کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟
ایمان کی مذکورہ تعریف کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہو سکتی ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
➊ دل سے تصدیق کے درجات مختلف ہوتے ہیں:
انسان جس چیز کو خود دیکھے اس پر اس کا یقین زیادہ ہوتا ہے بنسبت اس کے جسے وہ صرف سن کر تسلیم کرے۔ جیسے:
﴿رَبِّ أَرِنى كَيفَ تُحىِ المَوتى قالَ أَوَلَم تُؤمِن قالَ بَلى وَلـكِن لِيَطمَئِنَّ قَلبى﴾
(سورۃ البقرہ، آیت 260)
’’اے پروردگار! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ نے مردوں کے زندہ ہونے کے عمل کو دیکھنے کی خواہش اس لیے کی تاکہ ان کے دل کو مزید اطمینان حاصل ہو۔
➋ مجالسِ ذکر سے ایمان میں اضافہ:
جب بندہ کسی مجلسِ وعظ و نصیحت میں شامل ہوتا ہے، جہاں جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، تو دل میں یقین بڑھتا ہے اور ایمان میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔
➌ ذکر اور عبادات سے ایمان میں اضافہ:
جو شخص اللہ کا ذکر زیادہ کرتا ہے، اس کا ایمان اس سے بڑھ کر ہوتا ہے جو کم ذکر کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص عبادات کو مکمل اور خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے، اس کا ایمان اس سے بہتر ہوتا ہے جو عبادت کو ناقص طور پر ادا کرتا ہے۔
➍ قرآن سے ایمان میں اضافہ:
﴿وَما جَعَلنا أَصحـبَ النّارِ إِلّا مَلـئِكَةً وَما جَعَلنا عِدَّتَهُم إِلّا فِتنَةً لِلَّذينَ كَفَروا لِيَستَيقِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـبَ وَيَزدادَ الَّذينَ ءامَنوا إيمـنًا﴾
(سورۃ المدثر، آیت 31)
’’اور ان (جہنم کے فرشتوں) کا شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔‘‘
﴿فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـنًا وَهُم يَستَبشِرونَ﴾
(سورۃ التوبہ، آیت 124)
’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافق (استہزا کرتے اور) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے، تو جو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے نزول سے مومنوں کا ایمان بڑھتا ہے۔
➎ حدیث سے بھی کمی بیشی کا ثبوت:
«مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَّ دِيْنٍ اَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ اِحْدَاکُنَّ»
(صحیح البخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث: 304)
نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کو عقل و دین کے لحاظ سے ناقص فرمایا، جس سے ایمان میں کمی و زیادتی کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
ایمان میں اضافہ کے اسباب:
➊ اللہ تعالیٰ کی معرفت:
جتنا زیادہ انسان اللہ کے اسماء و صفات کو جانتا ہے، اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ اہل علم کا ایمان عام لوگوں کی نسبت زیادہ قوی ہوتا ہے۔
➋ اللہ کی کونی و شرعی نشانیوں پر غور و فکر:
﴿وَفِى الأَرضِ ءايـتٌ لِلموقِنينَ﴾ ﴿وَفى أَنفُسِكُم أَفَلا تُبصِرونَ﴾
(سورۃ الذاریات، آیات 20-21)
’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘
کائنات پر تدبر اور غور ایمان کو بڑھاتا ہے۔
➌ کثرت طاعات:
قولی یا فعلی عبادات جیسے ذکر، نماز، روزہ، حج وغیرہ ایمان کی کمیّت و کیفیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
ایمان میں کمی کے اسباب:
➊ جہالت:
اللہ کے اسماء و صفات کی عدم معرفت ایمان میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
➋ غور و فکر نہ کرنا:
کونی و شرعی نشانیوں پر غور نہ کرنے سے ایمان رک جاتا ہے یا کمزور پڑتا ہے۔
➌ گناہ کا ارتکاب:
«لَا يَزْنِی الزَّانِی حِيْنَ يَزْنِی وَهُوَ مُؤْمِنٌ»
(صحیح البخاری، الحدود، باب الزنا و شرب الخمر، حدیث: 6772 / صحیح مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی، حدیث: 57)
زنا جیسے کبیرہ گناہ کے وقت ایمان مکمل حالت میں نہیں رہتا۔
➍ ترک طاعت:
واجب عبادات کا بغیر عذر کے ترک کرنا ایمان میں کمی کا سبب ہے اور اس پر ملامت و سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ترک کسی شرعی عذر کے تحت ہو (مثلاً حیض کی حالت میں عورت کا روزہ و نماز ترک کرنا)، تو یہ کمی قابلِ ملامت نہیں۔
نتیجہ:
ایمان کی حقیقت میں دل کی تصدیق، زبان کا اقرار، اور عمل کی شمولیت کے ساتھ اس میں کمی و زیادتی کا تصور اہل سنت والجماعت کے نزدیک قطعی طور پر ثابت ہے۔ قرآن، حدیث، عقل اور مشاہدہ، سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب