ایمان سے متعلق 10صحیح احادیث
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (پی ڈی ایف کا لنک)

اللہ تعالیٰ پر ایمان

کسی بات پر پکے یقین ، دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور جسم سے اس کے دلول پر عمل کو ایمان کہا جاتا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابوعثمان اسماعیل بن عبد الرحمٰن الصابونی رحمہ اللہ (متوفی ۴۴۹ھ) نے فرمایا:

’’ ومن مذهب أهل الحديث : أن الإيمان قول وعمل و معرفة ، يزيد بالطاعة و ينقص بالمعصية

اور اہل حدیث کے مذہب میں سے ہے کہ ایمان قول عمل اور معرفت ہے ، اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔

( عقيدة السلف و اصحاب الحدیث ص ۲۶۴، دوسر انسخه تحقیق بدر البدر ص ۶۷ فقره :۱۰۴، تیسر انسخ ص ۴۰)

امام ابو عثمان الصابونی سے پہلے امام ابو بکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی ۳۶۰ھ) نے فرمایا :
ایمان دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور جسمانی اعضاء کے ساتھ عمل ہے اور جب تک یہ تین چیزیں جمع نہ ہوں مومن نہیں بن سکتا۔

( کتاب الشریعہ ص ۱۱۹، دوسرا نسخہ ص ۱۲۰، تیسر انسخہ ج ۲ ص ۶۱۱)

امام مالک بن انس‘ معمر بن راشد ، سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ وغیر ہم نے کہا:
ایمان قول اور عمل ہے، زیادہ اور کم ہوتا ہے۔

(کتاب الشریعة للآجری ص ۱۳۲ ح ۲۶۱ وسندہ حسن )

امام شافعی بھی اس کے قائل تھے کہ ایمان قول و عمل ہے، زیادہ اور کم ہوتا ہے۔

(دیکھئے آداب الشافعی و مناقب لا بن ابی حاتم ص ۱۴۷، وسندہ صحیح، الاعتقاد للبیہقی نسخہ محققہ ص ۲۳۳ وسنده حسن، فیہ ابوالحسن یوسف بن عبد الاحد بن سفیان اتمنى المصرى، قال الذهبي: ولا أعلم به بأسا تاریخ الاسلام ۵۰۶/۲۳)

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

ایمان قول و عمل ہے، زیادہ اور کم ہوتا ہے۔

( مسائل الامام احمد روایۃ ابی داود ص ۲۷۲ ، الشریعة لآ جری ص ۱۳۲ ح ۲۶۲ وسنده صحیح )

یہی قول عام علمائے اہل سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف علمائے اہل سنت سے کچھ بھی ثابت نہیں، بلکہ امام وکیع بن الجراح بن ملیح ( متوفی ۱۹۷ھ ) رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’أهل السنة يقولون : الإيمان قول وعمل، والمرجئة يقولون: الإيمان قول، والجهمية يقولون : الإيمان المعرفة

اہل سنت کہتے ہیں :

ایمان قول و عمل ہے،

مرجیہ کہتے ہیں:

ایمان قول ہے،

اور جہمیہ کہتے ہیں:

ایمان معرفت ہے۔

(الشریعہ ص ۱۳۱ ح ۲۵۹ وسندہ صحیح)

امام محمد بن یحییٰ بن ابی عمر العدنی رحمہ اللہ ( متوفی ۲۴۳ھ ) نے اپنے استاذ امام وکیع بن الجراح سے نقل کیا:

اہل سنت کہتے ہیں :

ایمان قول و عمل ہے ،

مرجیہ کہتے ہیں:

ایمان قول بلا عمل ہے اور

جہمیہ کہتے ہیں:

ایمان ( دل کی ) معرفت ہے۔

(کتاب الایمان لا بن ابی عمر العدنی: ۲۹ وسندہ صحیح )

امام حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی ۱۱۰ھ) نے فرمایا:

ایمان قول ہے اور عمل کے بغیر قول نہیں ہوتا اور نہ قول و عمل نیت کے بغیر ہوتے ہیں ، قول‘ عمل اور نیت ( تینوں ) سنت کے بغیر نہیں ہوتے ۔

(الشریعہ ص ۱۳۱ ح ۲۵۸ وسنده حسن لذاته )

سید نا عمیر بن حبیب الانصاریؓ ( صحابی ) نے فرمایا:

الإيمان يزيد وينقص ‘‘

ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۳/۱۱ ح ۳۱۸ ۳۰ وسندہ حسن، نیز دیکھئے مسائل الامام الصدوق محمد بن عثمان ابن ابی شیبہ : ۲۵ بتحقیقی )

سلف صالحین کے بہت سے آثار ہیں جن سے صاف ثابت ہے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، کم ہوتا ہے اور زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں عمر بن محمد بن احمد بن لقمان النسفی الماتریدی (م ۵۳۷ھ) نے کہا:

والإيمان لايزيد ولا ينقص‘‘

اور ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے …

(شرح العقائد النسفيه ص ۹۴، دوسرا نسخہ ص ۲۹۵ ، سراج العقائد ص ۳۰۶، بیان الفوائد حصہ دوم ص ۱۵۶، جواہر الفرائدص ۵۱۴ ، شرح عقائد نسفی ۲۳۴ متن العقائد النسفیہ ص ۴۱۱ ، دوسرا نسخه ص ۳۹)

امام احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں کو مرجیہ میں سے قرار دیا ’’جو ایمان قول و عمل ہے“ کے قائل نہیں ہیں۔

(السنتہ للخلال :۹۶۳ وسندہ صحیح)

امام اوزاعی رحمہ اللہ (متوفی ۱۵۷ھ) نے فرمایا:

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا ، وہ شخص بدعتی ہے،اس سے بچو۔

( جزء رفع الیدین للبخاری : ۱۰۸، وسنده حسن الشریعتہ للآجری ص ۱۱۷ ح ۲۴۴)

امام ابو حاتم الرازی اور امام ابو زرعہ الرازی دونوں نے فرمایا:

ہم نے حجاز ، عراق ، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس مذہب پر پایا کہ ایمان قول و عمل ہے، زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(اصول الدین: ۱، میری کتاب تحقیقی مقالات ۱۸/۲)

آیات مبارکہ:

اس تمہید کے بعد چند آیات مبارکہ پیش خدمت ہیں:

➊ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ ﴾

اور خوش خبری دے دو اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے، بے شک ان کے لئے (جنت کے ) ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔

(البقرہ: ۲۵)

اس آیت کے آخر میں فرمایا:

﴿ وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ﴾

اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

(البقرہ: ۲۵)

➋ اور فرمایا:

(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾

بے شک جو لوگ ایمان لائے ، نیک اعمال کئے ، نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے ، نہ انھیں خوف ہوگا اور نہ غم ہو گا۔

(البقرہ:۲۷۷)

➌ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا )

اور جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم عنقریب انھیں ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔

(النساء: ۵۷)

➍ نیز فرمایا:

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ)

اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ، ان کے لئے مغفرت ( بخشش ) اور اجر عظیم ہے۔

(المائدہ:۹)

➎ اور فرمایا:

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ(8)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(9))

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ، ان کے لئے نعمتوں والے باغات ہیں ،ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ عزیز حکیم ہے۔

(لقمن: ۸-۹)

➏ فرمایا:

(اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(13)اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(14))

بے شک جن لوگوں نے کہا :

ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ ثابت قدم رہے تو انھیں نہ خوف ہوگا اور نہ غم ہو گا۔ یہ لوگ جنت والے ہیں، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اعمال کرتے تھے۔

(الاحقاف:۱۳-۱۴)

➐ اور فرمایا:

﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور محمد (ﷺ) پر جو نازل ہوا ہے اس پر ایمان لائے اور وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، وہ ( اللہ ) ان کی غلطیاں معاف کر دے گا اور ان کی حالت کو بہتر بنا دے گا۔

(محمد :۲)

➑ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)

اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کرے، وہ اس کی خطائیں معاف کر دے گا اور اس جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔

(التغابن : 9)

➒ نیز فرمایا:

﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ)

سن لو! بے شک اللہ کے ولیوں کو نہ خوف ہوگا اور نہ غم ہوگا، جو ایمان لائے اور تقوی پر عمل پیرا تھے ، ان کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت (دونوں میں ) خوش خبری ہے

(یونس : ۶۲ ۶۴)

➓ اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ )

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ، یہی لوگ مخلوقات میں سب سے بہتر جماعت ہے، ان کے رب کے پاس ان کا بدلہ عدن کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اس (جنت) میں ہمیشہ رہیں گے۔

(البینہ: ۷-۸)

احادیث صحیحہ:

ایمان کے بارے میں دس احادیث صحیحہ پیش خدمت ہیں:

➊ عن أبي هريرة قال قال رسول الله ﷺ :

((الإيمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبة، فأفضلها قول لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق والحياء شعبة من الإيمان))

ایمان کے ستر سے یا ساٹھ سے زیادہ درجے ہیں، ان میں سب سے افضل :

لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے کم تر :

راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا ایمان کا ایک درجہ ہے۔

(صحیح مسلم: ۳۵، ترقیم دارالسلام : ۱۵۳)

➋ عن أنس بن مالكؓ قال قال رسول الله ﷺ :

(( لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين .))

تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے والد ، اپنے بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرے۔

(صحیح بخاری: ۱۵،صحیح مسلم:۴۴۰ ، دار السلام : ۱۶۹)

➌ عن أبي هريرة أن رسول الله ﷺ :

أي العمل أفضل ؟

قال :

((إيمان بالله ورسوله))

قيل : ثم ماذا؟ قال :

((الجهاد في سبيل الله .))

قيل:

ثم ماذا ؟ قال :

((حج مبرور )

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ، پوچھا گیا:

پھر کیا ہے؟

آپ نے فرمایا:

اللہ کے راستے میں جہاد۔ پوچھا گیا:

پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:

مقبول حج ۔

(صحیح البخاری: ۲۶ صحیح مسلم : ۸۳، دار السلام: ۲۴۸)

➍ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عبد القیس ( قبیلے) کے وفد سے کہا:

کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ انھوں نے کہا:

اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله وإقام الصلوة وايتاء الزكوة وصيام رمضان وأن تعطوا من المغنم الخمس …))

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اورمحمد رسول (ﷺ ) کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے (رکھنا ) اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ( بیت المال میں ) دے دو…

(صحیح بخاری:۵۳ صحیح مسلم: ۱۷، دار السلام : ۱۱۵)

➎ سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((من رأى منكم منكرًا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان .))

اگر تم میں سے کوئی منکر (برائی ) دیکھے تو اپنے ہاتھ سے اسے بدل دے، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے ( منع کرے) پھر اگر وہ اس کی طاقت بھی نہ رکھے تو دل سے (بُرا سمجھے ) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔

(صحیح مسلم : ۴۹ ، دار السلام : ۱۷۷)

➏ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كان له من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره ، ثم إنها تخلف من بعد هم خلوف، يقولون مالا يفعلون ويفعلون مالا يؤمرون فمن جاهد هم بيده فهو مؤمن ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن وليس وراء ذلك من الإيمان حبة خردل )

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جو بھی نبی جس امت میں بھیجا تو اس کی امت میں اس کے حواری اور صحابہ ہوتے تھے جو اس کی سنت پر عمل کرتے اور اس کے احکامات کی پیروی کرتے ، پھر ان کے بعد ایسے اخلاف ہوئے جو کہتے وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کرتے جس کا انھیں حکم نہیں دیا گیا تھا، پس جس نے ان کے خلاف اپنے ہاتھ سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے اور جس نے اپنی زبان سے جہاد کیا تو وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل کے ساتھ جہاد کیا تو وہ مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے جتنا ایمان بھی نہیں ہے۔

( صحیح مسلم:۵۰ ، دار السلام : ۱۷۹)

➐ سید نا ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( من أحب الله وأبغض الله وأعطى الله ومنع الله فقد استكمل الإيمان .))

جو اللہ کے لئے محبت کرے، اللہ کے لئے بغض رکھے ، اللہ کے لئے ( مال و دولت ) دے اور اللہ کے لئے روک لے تو اس کا ایمان مکمل ہے۔

(سنن ابی داود: ۴۶۸۱ وسندہ حسن )

➑ سیدنا ابو ہریرہﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((والذي نفس محمد بيده الايسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أصحاب النار .))

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ ) کی جان ہے! اس امت ( امت دعوت ) میں سے جو بھی میرے بارے میں سن لے، چاہے یہودی ہو یا نصرانی (عیسائی ) پھر مرنے سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے جو ( دین ) مجھے دے کر بھیجا گیا ہے تو وہ دوزخیوں میں سے ہے۔

( صحیح مسلم:۱۵۳، ترقیم دارالسلام :۳۸۶)

➒ و سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لا يدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان ولا يدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء .))

کوئی شخص جہنم میں ( ہمیشہ کے لئے ) داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہے اور کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہے۔

(صحیح مسلم:۹۱ ، دار السلام : ۲۶۶)

➓ سید نا ابوبکر الصدیقؓ سے روایت ہے کہ میں غار (ثور ) میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا کہ میں نے مشرکین ( کفار مکہ ) کے نشانات دیکھ لئے تو کہا:

یارسول اللہ ! اگر ان میں سے کوئی اپنا قدم اٹھائے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا:

((ما ظنك باثنين الله ثالثهما؟))

تمھارا ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا (ساتھی) اللہ ہے؟

(صحیح بخاری:۴۶۶۳)

پوری کائنات میں ایمان کے سب سے اعلیٰ درجے پر رسول اللہ ﷺ ، پھر انبیاء ورسل اور صحابہ کرام ہیں ۔ ایک دفعہ ایک اعرابی ( غالباً غورث بن الحارث ) نے رسول اللہ ﷺ پر تلوارتان کر پوچھا:

مجھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے ( انتہائی اطمینان سے ) فرمایا:

اللہ ! تو اس اعرابی کے ہاتھ سے تلوار ( زمین ) پر گرگئی۔

(مسند احد ۳۹۰٫۳ ح ۵۱۹۰، صحیح ابن حبان ، الاحسان : ۲۸۷۲ دوسرانسخہ : ۲۸۸۳ وھو حدیث صحیح)

یہ قصہ اختصار کے ساتھ صحیح بخاری ( ۲۹۱۰) اور صحیح مسلم (۸۴۳) میں بھی موجود ہے۔

غورث بن الحارث الاعرابی نے واپس جا کر اپنی قوم سے کہا تھا:

میں اس کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے بہتر ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ غورث بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی نے انھیں صحابہ میں ذکر کیا ہے۔

(دیکھئے تجرید اساء الصحابہ ج۲ص۳)

آثار:

آیات مبارکہ اور احادیث صحیحہ کے بعد چند آثار پیش خدمت ہیں:

➊ سید نا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جاہلیت میں عمرو بن اقیس کا کسی کے ذمہ سود بقایا تھا، لہٰذا انھوں نے سود وصول کرنے سے پہلے اسلام لا نا پسند نہیں کیا، پھر غزوہ احد کا دن آگیا تو عمرو نے کہا:

میرے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ کہا گیا کہ وہ احد میں ہیں۔ اس نے کہا:

فلاں کہاں ہے؟ کہا:

وہ احد میں ہے، تو عمرو بن اقیس نے اپنے ہتھیار پہن لئے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر احد کی طرف چلے، جب مسلمانوں نے انھیں دیکھا تو کہا:

اے عمرو! ہم سے دور رہو ۔ انھوں نے جواب دیا:

میں ایمان لا چکا ہوں ۔ پھر انھوں نے جہاد کیا حتی کہ زخمی ہو کر گھر لائے گئے پھر (سیدنا) سعد بن معاذؓ نے ان کی بہن سے کہا:

ان سے پوچھو، کیا انھوں نے اپنی قوم کی حمایت اور قومی غصے کے لئے جنگ کی ہے یا اللہ کے لئے؟ عمر و بن قیسؓ نے فرمایا:

بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے دفاع کرتے ہوئے جنگ کی ہے، پھر وہ شہید ہوئے اور جنت میں داخل ہو گئے ، حالانکہ انھوں نے کوئی نماز نہیں پڑھی تھی۔

( سنن ابی داود: ۲۵۳۷ وسنده حسن، وصححہ الحاکم علی شرط مسلم ۱۳٫۲ او وافقہ الذہبی وحسنہ الحافظ فی الاصابہ )

➋ عبد اللہ بن فیروز الدیلمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) ابی بن کعبؓ سے ملاقات کی تو کہا:

اے ابوالمنذر! میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کوئی چیز کھٹک گئی ہے، لہٰذا مجھے کوئی حدیث سنائیں ، ہو سکتا ہے کہ میرے دل سے شک وشبہ دور ہو جائے ۔ انھوں (سیدنا ابی بن کعبؓ) نے فرمایا :

اگر اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے اور عذاب دے تو وہ ظالم نہیں ہوگا اور اگر وہ رحم کرے تو اس کی رحمت ان لوگوں کے اعمال سے بہتر ہے۔ اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کے راستے میں خرچ کر دو تو اللہ اس وقت تک قبول نہیں کرے گا جب تک تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ نہ سمجھ لو کہ جو مصیبت تمھیں پہنچی ہے وہ کسی حالت میں بھی رک نہیں سکتی تھی اور جس مصیبت سے بچ گئے ہو وہ کسی حالت میں بھی تمہیں پہنچ نہیں سکتی تھی ، اگر تم اس کے بغیر کسی دوسرے عقیدے پر مر گئے تو جہنم میں داخل ہو گے ۔ عبداللہ بن فیروز الدیلمی نے کہا:

پھر میں نے عبداللہ بن مسعود اور حذیفہ بن الیمانؓ سے پوچھا تو انھوں نے بھی اسی طرح کہا اور زید بن ثابت ( الله ) نے یہی بات مجھے نبی ﷺ کی حدیث سے بیان کی ۔

(سنن ابی داود: ۴۶۹۹، مسند احمد ۱۸۲/۵ ۱۸۳ ح ۲۱۵۸۹ وسنده صحیح ، وصححہ ابن حبان، الموارد : ۱۸۱۷)

➌ سید نا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا سعد بن ابی وقاص لانا نے فرمایا:

الـمـومـن يـطبـع على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب .

مومن کی طبیعت میں ہر عادت ہوسکتی ہے لیکن خیانت اور جھوٹ نہیں ہو سکتا۔

(الایمان لا بن ابی شیبه: ۸۰ ۸۱ وسنده قوی)

➍ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:

اے ابن آدم ! اللہ کی قسم اگر تم قرآن کی تلاوت کرو، پھر اس پر ( کامل ) ایمان لاؤ تو دنیا میں تمہارا غم زیادہ ہو جائے ،شدید خوف میں مبتلا ہو جاؤ اور کثرت سے روتے رہو۔

(کتاب الزہد ، زوائد عبدالله بن احمد : ۶ ۱۴۵، وسندہ حسن )

➎ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:

اس کا ایمان ( کامل ) ہے جو غیب ( تنہائی) میں اللہ سے ڈرے، جسے اللہ پسند کرتا ہے، اسے پسند کرے اور جسے اللہ نا پسند کرتا ہے اسے ناپسند کرے۔ پھر حسن رحمہ اللہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

(كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ )

اسی طرح اللہ سے اس کے صرف وہی بندے ڈرتے ہیں جوعلماء ( علم والے) ہیں۔

[فاطر: ۲۸] (کتاب الزہد، زوائد عبدالله: ۱۵۴۷، وسندہ حسن)

آخر میں ایک نوجوان صحابی کا واقعہ پیش خدمت ہے، جن کی وفات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا:

تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا:

یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! مجھے اللہ سے ( مغفرت کی ) امید ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اس مقام پر جس انسان کے دل میں یہ دو چیز میں جمع ہو جائیں تو وہ جس کی امید رکھتا ہے اللہ اسے دے دیتا ہے اور جس سے خوف رکھتا ہے اللہ اسے اس سے بچالیتا ہے۔

(سنن ترمذی:۹۸۳ وقال: ’’هذ احدیث حسن غریب …‘‘ وسندہ حسن )

اے اللہ ! ہمیں خوف و امید والا سچا ایمان عطا فرما اور اس میں مسلسل اضافہ فرما۔ ہماری دنیا بہتر کر دے اور ہمیں قبر، حشر اور جہنم کے عذاب سے بچا۔ آمین

(۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے