اگر اس نے کوئی مدت مقرر نہ کی ہو یا چار ماہ سے زائد مقرر کی ہو تو چار ماہ گزرنے کے بعد اسے رجوع کر لینے یا طلاق دینے کے درمیان اختیار دیا جائے گا
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 226 وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [البقرة: 226 – 227]
”جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کر لیں ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے پھر اگر وہ لوٹ آئیں (یعنی اگر وقت کا تعین نہیں کیا تھا تو قسم کا کفارہ ادا کر کے دوبارہ تعلقات قائم کر لیں ) تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے اور اگر طلاق کا ہی ارادہ کر لیں (معلوم ہوا کہ از خود طلاق نہیں ہو گی) تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔ “
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایلاء کرنے والے کو حاکمِ وقت کے پاس لا کھڑا کیا جائے اور اس وقت تک اسے چھوڑا نہ جائے:
حتى يطلق ولا يقع عليه الطلاق حتى يطلق
”حتی کہ وہ طلاق دے دے اور طلاق دیے بغیر اس پر طلاق واقع نہیں ہو گی۔“
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابو درداء ، حضرت عائشہ اور بارہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ایسا ہی منقول ہے ۔
[بخاري: 5291 ، كتاب الطلاق: باب حكم المفقود فى أهله وماله]
➌ حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سے زائد صحابہ کو دیکھا کہ وہ ایلاء کرنے والے کو روک کر پوچھتے تھے (کہ وہ رجوع کرے یا طلاق دے)۔
[صحيح: إرواء الغليل: 2086 ، ترتيب المسند للشافعي: 42/2 ، دارقطني: 61/4 ، اس كي سند شيخين كي شرط پر صحیح هے۔ التعليق على سبل السلام للشيخ صبحي حلاق: 243/6]
➍ ابن ابی ملیکہؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا:
يوقف المولي
”ایلاء کرنے والے کو کھڑا کیا جائے گا۔“
[حسن: إرواء الغليل: 171/7]
➎ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ثابت بن عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیان کرتے ہیں کہ
الإيلاء لا يكون طلاقا حتي يوقف
”ایلاء اس وقت تک طلاق نہیں ہوتا جب تک کہ اس شخص کو ٹھہرایا نہ جائے (یعنی یہ دریافت نہ کیا جائے کہ تم اس سے رجوع کرو گے یا طلاق دو گے ) ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: تحت الحديث/ 2085 ، 172/7 ، بيهقي: 376/7]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ چار ماہ گزرنے کے بعد از خود طلاق واقع نہیں ہو گی بلکہ شوہر سے مطالبہ کیا جائے گا کہ یا وہ حقوقِ زوجیت ادا کرے یا طلاق دے۔
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ ) مجرو مدتِ ایلاء گزرنے سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 354/4 ، الأم: 256/5 ، الكافي لابن عبدالبر: ص/ 279 ، المغني: 30/11 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 100/4]
(راجح) آیتِ ایلاء اور گذشتہ آثار سے جمہور کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ والله اعلم
(ابن قیمؒ) انہوں نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اسے ترجیح دینے کی دس وجوہ بھی بیان کی ہیں ۔
[زاد المعاد: 129/4 – 131]
(البانیؒ) یہی قول ظاہر ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 281/2]