اس کے لیے کئی چیزیں ہیں۔ مثلاً:
(1) نماز کے لیے بروقت اہتمام سے مستعد اور تیار ہونا:
اس کے لیے بھی کئی چیزیں ہیں۔ مثلاً اذان کا جواب دینا۔ اس کے بعد مسنون دعا پڑھنا:
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
”اے اللہ! اس کامل دعوت کے رب اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام وسیلہ اور درجہ فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر کھڑا فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔“
صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء ، ح : 234 .
اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں دعا کرنا۔ وضو سنت کے مطابق بنانا اور اس سے پہلے بسم اللہ پڑھنا اور اس کے بعد مسنون دعا اور ذکر کرنا:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
”میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اکیلے اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“
صحيح البخاري، كتاب الاذان، باب الدعاء عند النداء ، ح : 589
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ
”اے اللہ! مجھے بہت زیادہ توبہ کرنے والوں میں سے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں سے کر دے۔“
سنن الترمذی، ابواب الطهارة، باب ما يقال بعد الوضوء، ح: 55
مسواک کا اہتمام:
اور منہ کو صاف کرنا کیونکہ تھوڑی دیر بعد اس سے قرآن پڑھا جائے گا۔ حدیث مبارک میں آیا ہے:
طهروا أفواهكم للقرآن
”قرآن کے لیے اپنے منہ کو پاکیزہ رکھو۔“
کشف الاستار 242/1، اسنادہ جید، الصحيحة (1213)
عمدہ لباس پہننا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ
(7-الأعراف:31)
”اے اولاد آدم! ہر عبادت کے وقت اپنی زینت اختیار کیا کرو۔“
اور اللہ تعالیٰ اس بات کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ بندہ اس کے لیے زینت اپنائے، خوبصورت لباس سے انسان کو نفسیاتی طور پر بھی بڑی راحت حاصل ہوتی ہے، بخلاف سونے کے لباس یا کام کاج کے لباس کے۔
لباس بخوبی ساتر (چھپانے والا) ہونا چاہیے اور ساتھ ہی جگہ کی پاکیزگی کا اہتمام بھی ہو۔ مسجد کی طرف اول وقت میں جایا جائے۔
مسجد جاتے ہوئے بھی سکینت و وقار کا التزام ہو، انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر نہ چلے اور وہاں پہنچ کر نماز کا انتظار کرے۔
صفوں کو برابر رکھے، اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر کھڑا ہو، کیونکہ شیاطین صفوں کے اندر خلا میں گھس آتے ہیں۔
(2) نماز، اطمینان اور سکون سے ادا کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز بڑے اطمینان وسکون سے ادا فرمایا کرتے تھے اور ہر رکن کے بعد اتنی دیر رکتے تھے کہ ہر ہڈی اپنے اپنے مقام پر آجاتی تھی۔
صحيح الاسناد، صفة الصلاة (الالبانی) صفحہ 134- وكذا ابن خزيمة
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ”مسی الصلاة“ (وہ نمازی جو اپنی نماز میں خطا کر رہا تھا) کو بالخصوص تلقین فرمائی تھی کہ:
لا تتم صلاة أحدكم حتى يفعل ذلك
”تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک یہ اعمال (وقار وسکون) نہ کرے گا۔“
سنن ابی داؤد، باب صلاة من لا يقيم صلبه في الركوع والسجود، ح: 858
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسوأ الناس سرقة الذى يسرق من صلاته، قالوا يا رسول الله كيف يسرق صلاته؟ قال لا يتم ركوعها ولا سجودها
”لوگوں میں چوری کے اعتبار سے سب سے برا چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! نماز میں وہ کیسے چوری کرتا ہے؟ فرمایا: ’نماز کے رکوع و سجود مکمل نہیں کرتا۔“
احمد، حاكم 229/1، صحيح الجامع 997
سیدنا ابو عبد اللہ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مثل الذى لا يتم ركوعه، وينقر فى سجوده مثل الجائع يأكل التمرة والتمرتين لا يغنيان عنه شيئا
”جو شخص اپنی نماز میں رکوع مکمل نہیں کرتا اور سجدوں میں ٹھونگے مارتا ہے، اس کی مثال اس بھوکے کی سی ہے جو ایک دو کھجوریں کھائے، جو اسے کوئی فائدہ نہیں دیتیں (یعنی اس کی بھوک دور نہیں ہوتی)۔“
طبراني كبير: 115/4، صحیح الجامع میں امام البانی نے اسے حسن کہا گیا ہے۔
اور جو شخص اپنی نماز میں اطمینان وسکون بجا نہیں لاتا، بلکہ اسے جلدی جلدی اپنے سر سے اتار پھینکنے کی کوشش کرتا ہے، ناممکن ہے کہ وہ نماز میں خاشع ہو۔ کیونکہ جلد بازی خشوع کو ختم کر دیتی ہے اور کوے کی طرح ٹھونگے مارنے سے ثواب بالکل ضائع ہو جاتا ہے۔
(3) نماز میں موت کو یاد کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أذكر الموت فى صلاتك فإن الرجل إذا ذكر الموت فى صلاته لحري أن يحسن صلاته، وصل صلاة رجل لا يظن أنه يصلي غيرها
”اپنی نماز میں موت کو یاد کرو، آدمی جب اپنی نماز میں موت کو یاد کرے گا تو وہ لازماً اپنی نماز خوبصورت بنائے گا، اور تو نماز ایسے آدمی کی سی پڑھ جسے اس کے بعد نماز پڑھنے کا یقین نہ ہو۔“
السلسلة الصحيحة للألباني حدیث: 1421، علامہ سیوطی نے بھی حافظ ابن حجر سے اس کی محسن نقل کی ہے۔
اور اس کے ہم معنی وہ وصیت بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی کہ:
إذا قمت فى صلاتك فصل صلاة مودع
”تم جب نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو ایسی نماز پڑھا کرو گویا یہ تمہاری الوداعی نماز ہے۔“
مسند احمد، 412/5، صحیح الجامع، حدیث 742
ہر بندے نے بالآخر مرنا ہے اور اس نمازی نے بھی مرنا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ یہ اس کی آخری نماز ہو، تو چاہیے کہ دل لگا کر انہماک اور خشوع سے نماز پڑھے، ممکن ہے یہ اس کی آخری نماز ہو۔
(4) نماز میں آیات اور اذکار میں تدبر اور غور کرنا، ان کا جواب دینا:
قرآن کریم تدبر و تفکر اور عمل ہی کے لیے نازل ہوا ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٩﴾
(38-ص:29)
”یہ عظیم کتاب ہے، جسے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کیا ہے، بڑی بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور عقل مند نصیحت پائیں۔“
یہ تدبر اور غور وفکر علم کے بغیر کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ یہ حقائق علم ہی سے ممکن ہے اور اسی صورت میں ہی آنکھوں سے کوئی آنسو ٹپک سکتے ہیں یا دل پسیج سکتا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾
(25-الفرقان:73)
”(رحمن کے بندے تو وہ ہیں کہ) جب انہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے ہیں۔“
یہاں ہمیں علم تفسیر قرآن کی اہمیت کا بھی اندازہ کرنا چاہیے۔ دیکھیے امام ابن جریر طبری کس قدر حیرت و تعجب کا اظہار کرتے ہیں، کہتے ہیں:
إني لأعجب ممن قرأ القرآن ولم يعلم تأويله أى تفسيره كيف يلتذ لقراءته
”مجھے تو قرآن کے اس قاری اور پڑھنے والے سے انتہائی تعجب آتا ہے، جو اس کے معانی سے آگاہ نہیں ہوتا۔ “
مقدمہ تغییر الطبری( محمود شاکر رحمہ اللہ 10/1)
وہ اپنی قراءت سے کیونکر لذت آشنا ہو سکتا ہے۔
تدبر قرآن اور تدبر آیات کے لیے سب سے بڑھ کر معاون ایک تدبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مناسب اور اہم آیات کو بار بار دہرا کر پڑھا جائے اور ان کے معانی میں بار بار توجہ کی جائے۔ اور یہ چیز ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مبارک عمل سے ملتی ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قیام درج ذیل آیت کو دہرا دہرا کر مکمل کیا حتیٰ کہ صبح ہو گئی، وہ آیت یہ تھی:
ابن خزیمه 671/1 ، احمد 149/5 صفة الصلاة، صفحه 102 .
إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾
(5-المائدة:118)
”(اے اللہ!) اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں، اور اگر بخش دے تو بلاشبہ تو سب سے غالب، بے انتہا حکمت والا ہے۔“
اور ایسے ہی تدبر آیات کے لیے چاہیے کہ آدمی حسب مضمون آیات کا جواب بھی دے۔ مناسب موقع پر وہ مانگے، سوال کرے، استغفار کرے، جنت مانگے یا جہنم اور جہنمیوں کے انجام سے پناہ مانگے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو لمبا کر کے پڑھ رہے تھے۔ جب تسبیح والی آیت سے گزر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح کرتے اور جب سوال کے قابل آیت سے گزر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرتے اور جب تعوذ کے قابل آیت سے گزر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے پناہ کی درخواست کرتے۔
صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل، ح: 772
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت بہت ٹھہر ٹھہر کر تھی۔ اس میں جہاں اللہ کی تسبیح کا بیان آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح کرتے، جہاں سوال کا مضمون آتا سوال کرتے، اور جہاں کہیں اللہ سے پناہ کی بات ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعوذ فرماتے۔
صحيح مسلم حدیث 772، نیز تعظیم قدر الصلاة مروزی 327/1
اور یہ رات کے قیام میں ہوتا تھا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم عنہ میں سے جناب قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں آتا ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کا ہی تکرار کرتے رہے، اس کے علاوہ کچھ نہ پڑھا۔
مسند احمد 43/3- صحيح البخاري، كتاب فضائل القرآن، باب فضل قل هو الله احد، ح: 4726
سعید بن عبید الطائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے مشہور تابعی سعید بن جبیر کو دیکھا کہ وہ رمضان میں امامت کرا رہے تھے اور درج ذیل آیت کریمہ کو بار بار دہرا رہے تھے:
الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٧٠﴾ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ ﴿٧١﴾ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ ﴿٧٢﴾
(40-غافر:70تا 72)
”جنہوں نے کتاب اللہ اور رسولوں کو جھٹلایا، عنقریب جان لیں گے، جب طوق ان کی گردنوں میں اور (پاؤں میں) بیڑیاں پڑیں گی (اور) گھسیٹے جائیں گے، (یعنی) کھولتے پانی میں، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔“
امام قاسم بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے سعید بن جبیر کو قیام کرتے ہوئے دیکھا، وہ بار بار یہی پڑھتے جا رہے تھے اور اسے بارہا سے زیادہ دہرایا:
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٢٨١﴾
(2-البقرة:281)
”ڈر جاؤ اس دن سے جس میں تم لوگ اللہ کی طرف لوٹائے جانے والے ہو۔ پھر ہر جان کو جو اس نے کمایا ہوگا، پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔“
قبیلہ قیس کے ابو عبد اللہ کا بیان ہے کہ ہمیں ایک رات جناب حسن بصری کے ہاں قیام کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے انہیں دیکھا کہ وہ رات کو اٹھے اور نماز پڑھنے لگے، ہم نے دیکھا کہ وہ سحر تک اس ایک ہی آیت کریمہ کا تکرار کرتے رہے، یعنی:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا
(14-إبراهيم:34)
”اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو کسی صورت انہیں شمار نہ کر سکو گے۔“
صبح کو ہم نے عرض کیا کہ ابوسعید! آپ ساری رات یہی ایک آیت ہی دہراتے رہے، اس سے آگے بڑھے ہی نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ”مجھے اس میں بڑی عبرت و نصیحت حاصل ہوتی ہے، میں جب بھی نظر اٹھاتا ہوں یا واپس لاتا ہوں تو اپنے اوپر کسی نہ کسی نعمت کو پاتا ہوں اور جن کی مجھے خبر ہی نہیں ان کا تو شمار ہی کیا۔“
التذكار في أفضل الأذكار، قرطبی 125
هارون بن رباب اسیدی کے تذکرہ میں آتا ہے کہ بسا اوقات وہ تہجد کے قیام میں صبح تک یہ آیت ہی پڑھتے رہتے اور روتے رہتے تھے:
فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٧﴾
(6-الأنعام:27)
(کافر جہنم میں پڑے کہیں گے کہ ) اے کاش! ہم پھر دنیا میں لوٹا دیے جائیں، تو اپنے پروردگار کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں گے اور مومن بن کر رہیں گے۔“
نماز میں خشوع کے لیے معاون ایک عمل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم حفظ کیا جائے اور نماز کے ارکان میں مختلف اذکار موقع بموقع بدل بدل کر پڑھے جائیں۔ تا کہ ہر ایک میں تدبر و تفکر کا موقع ملے۔ یہ تدبر وتفکر اور حسب موقع آیات کا جواب دینا، انسان کے خشوع کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے اور اللہ عز وجل کا فرمان بھی ہے:
وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ﴿١٠٩﴾
(17-الإسراء:109)
اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں، (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ:
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر فی القرآن اور نماز میں خشوع کا بیان ہے۔ جناب عطاء بن ابی رباح کا بیان ہے کہ میں اور عبید بن عمیر ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو عبید بن عمیر نے ان سے کہا: اماں جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عجیب واقعہ سنائیں جو آپ نے دیکھا ہو؟ تو اس پر وہ آبدیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے کہا: عائشہ! مجھے چھوڑ دو، میں اپنے رب کی عبادت کروں۔ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگرچہ مجھے آپ کی قربت عزیز ہے تاہم مجھے آپ کی خوشی زیادہ پسند ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، وضو کیا، اور نماز پڑھنے لگے، پھر رونے لگے اور روتے رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تر ہو گیا، پھر مزید روئے اور روتے رہے حتی کہ نیچے کی زمین بھی تر ہو گئی۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کی اطلاع دینے آئے تھے۔ تو جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ روتے کیوں ہیں؟ حالانکہ اللہ عز وجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب تقصیرات معاف فرمادی ہوئی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفلا أكون عبدا شكورا
” تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں! “
پھر فرمایا آج رات مجھ پر کچھ آیات نازل ہوئی ہیں، افسوس ہے اس شخص کے لیے جو انہیں پڑھے مگر ان میں تفکر نہ کرے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾
(3-آل عمران:190)
”بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے اختلاف میں عقل والوں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔“
ابن حبان – السلسلة الصحيحة، حدیث: 68، اور اس کی سند عمدہ (جید) ہے۔ یہ سورہ آل عمران کی آخری آیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو ان کی تلاوت کیا کرتے۔
آیات کا جواب دینا:
ان میں سے ایک فاتحہ کے بعد ”آمین“ کہنا ہے اور اس میں بڑا اجر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إذا أمن الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ بلاشبہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق آگئی تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔“
(صحيح البخاري، كتاب صفة الصلاة، باب جهر الإمام بالتأمين، ح: 747 – صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب التسميع والتحميد والتأمين، ح: 410)
اسی طرح رکوع سے اٹھتے ہوئے جب امامسَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتا ہے تو مقتدی کو چاہیے کہ کہے:
ربنا ولك الحمد
”اے ہمارے رب! اور تیری ہی تعریف ہے۔“
اس میں بھی اجر عظیم کی خوشخبری ہے۔ جناب رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور سمع الله لمن حمده کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے ایک آدمی نے کہا:
ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه
”اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور برکت والی۔“
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو پوچھا، یہ بولنے والا کون تھا؟ اس آدمی نے کہا، جناب میں ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رأيت بضعة وثلاثين ملكا يبتدرونها أيهم يكتبها أول
”میں نے تین سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا جو ان کلمات کی طرف جلدی سے بڑھتے ہیں کہ کون ان میں سے انہیں پہلے لکھ لے۔“
(صحيح البخاري، كتاب صفة الصلاة، باب فضل اللهم ربنا ولك الحمد، ح: 766)
(5) ایک ایک آیت کر کے قراءت کرنا:
اگر قراءت ایک ایک آیت کر کے ٹھہر ٹھہر کر کی جائے تو اس سے فہم وتدبر میں بڑی مدد ملتی ہے اور یہی اسلوب قراءت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے تو وقف فرماتے پھر پڑھتے: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پھر وقف کرتے اور کہتے: الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ پھر وقف کرتے اور کہتے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت میں توقف کر کے پڑھتے تھے۔
سنن النسائی، ابواب القراءات، ح: 3107 – سنن ابی داؤد، كتاب القراءات، ح: 4001، حدیث صحیح ہے
اور ہر آیت کے سرے پر رکنا سنت ہے خواہ معنی کے لحاظ سے اس کا تعلق اپنے مابعد سے بھی ہو۔
(6) ترتیل اور خوبصورت آواز سے قراءت کرنا:
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
(73-المزمل:4)
”اور آپ قرآن ٹھہر ٹھہر کر (ترتیل سے) پڑھا کریں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت بڑی واضح اور جدا جدا حرف ہوا کرتی تھی۔
مسند احمد 294/6 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة ، ح 1466 – سنن النسائي : .1021ح533/2
اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک (درمیانی سی) سورت بھی تلاوت کرتے تو ترتیل کی وجہ سے وہ ایک لمبی سورت کی مانند ہو جاتی تھی۔
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب جواز النافلة قائمًا وقاعداً ، ح : 733 .
یہ ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا انسان کے لیے قرآن کریم میں تدبر اور تفکر کرنے کے لیے از حد ممد و معاون ہوتا ہے اور نماز میں خشوع کا باعث بھی۔ بخلاف اس کے کہ جلدی جلدی پڑھا جائے۔
خوبصورت آواز میں تلاوت سے خشوع میں بہت مدد ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلقین و تاکید بھی فرمایا کرتے تھے:
زينوا القرآن بأصواتكم فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنا
”قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے خوبصورت بناؤ، بلاشبہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔“
المستدرك للحاكم 575/1 – سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب 355 ،1468
مگر خیال رہے کہ تحسین صوت کا یہ معنی و مفہوم ہرگز نہیں کہ اپنی آواز کو اس انداز میں لہرایا جائے کہ وہ گانوں اور گیتوں کے مشابہ ہو جائے۔ قراءة القرآن میں جمال صوت یہ ہے کہ اس میں درد وغم کا اظہار ہو جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إن من أحسن الناس صوتا بالقرآن الذى إذا سمعتموه يقرأ حسبتموه يخشى الله
”قرآن کریم میں خوبصورت آواز والا وہی ہے جسے تم قراءت کرتے سنو تو سمجھو کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔“
سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلاة، باب في حسن الصوت بالقرآن ، ح : 1339
(7) نماز میں اللہ اپنے بندے سے ہم کلام ہوتا اور اسے جواب دیتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ عز وجل فرماتا ہے:
قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل: فإذا قال العبد الحمد لله رب العالمين، قال الله: حمدني عبدي، فإذا قال: الرحمٰن الرحيم، قال الله: أثنى على عبدي، فإذا قال: مالك يوم الدين، قال الله: مجدني عبدي، فإذا قال: إياك نعبد وإياك نستعين، قال: هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل، فإذا قال: اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين، قال الله: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل
”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر لیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ تو جب بندہ کہتا ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے: الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا کی ہے۔ تو جب بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے، تو جب بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ، اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے طلب کیا۔ تو جب بندہ کہتا ہے: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ، اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔“
(صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، ح: 395)
یہ ایک عظیم الشان اور جلیل القدر حدیث ہے، اگر نمازی اس حدیث کو اپنے ذہن میں متحضر رکھے تو اسے بے انتہا خشوع حاصل ہوگا اور اسے فاتحہ الکتاب کے انتہائی عظیم اثرات و برکات کا احساس و وجدان ہوگا۔ اور کیوں نہ ہو، جب اسے یہ شعور بلکہ یقین ہوگا کہ میں اپنے رب سے اور میرا رب مجھ سے مخاطب ہے وہ میری حاجات و ضروریات مجھے عطا فرمانے والا ہے! لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس مکالمہ کی عظمت و قدر کو پہچانے جیسے کہ اس کا حق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحدكم إذا قام يصلي فإنما يناجي ربه، فلينظر كيف يناجيه
”تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی کرتا ہے۔ لہذا اسے خیال کرنا چاہیے کہ وہ اس سے کس طرح اور کیا مناجات کر رہا ہے۔“
مستدرك حاكم: 236/1، صحيح الجامع رقم : 1538 .
(8) نماز کے لیے سترے کا اہتمام:
نماز میں خشوع حاصل کرنے میں ایک مفید و ممد عمل سترے کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ اس سے نمازی کی نظر ادھر ادھر بھٹکنے سے بہت حد تک رک جاتی ہے اور بندہ کافی حد تک شیطان کے عمل دخل سے محفوظ ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے آگے سے گزرنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ اگر سترہ نہ رکھا جائے تو نمازی کو بہت تشویش ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی کم ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا
”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو سترہ رکھ لے، اور اس کے قریب کھڑا ہو!“
(سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، باب الدنو من السترة، ح: 695)
سترہ کے قریب کھڑا ہونا:
سترے کے قریب کھڑے ہونے کے عظیم فوائد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے کہ:
إذا صلى أحدكم إلى سترة فليدن منها، لئلا يقطع الشيطان عليه صلاته
”جب تم میں سے کوئی سترے کی طرف (کھڑے ہو کر) نماز پڑھے تو اس کے قریب کھڑا ہو، کہیں شیطان اس کی نماز نہ توڑ دے۔“
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الدنو من السترة ، ح : 695
اور سنت یہ ہے کہ نمازی اور اس کے سترے کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہو۔ نمازی اور سجدے کی جگہ کے درمیان کم از کم ایک بکری کے گزرنے کی جگہ ضرور ہو۔
صحيح البخاری، کتاب سترة المصلى، باب قدر كم ينبغي ان تكون بين المصلي والسترة ، ح : 474 – فتح الباري 684/1 ، ط: الريان
جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔
اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید ہے کہ نمازی کسی کو ہرگز اجازت نہ دے کہ وہ اس کے اور سترے کے درمیان سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحدا يمر بين يديه، وليدرأه ما استطاع، فإن أبى فليقاتله فإن معه القرين
”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے نہ گزرنے دے اور اسے حتی الامکان روکے، اگر وہ اصرار کرے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔“
صحیح مسلم، كتاب الصلاة، منع المار بين يدى المصلى ، ح : 505
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس سے نمازی کی نظر ایک حد سے آگے جانے سے رک جاتی ہے، اور جو اس حد کے اندر سے گزرنے کی کوشش کرے اسے روکا جا سکے۔
شرح صحیح مسلم : 216/4
اور شیطان کو بھی یہاں سے گزرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اور وہ اس کی نماز میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔“
(9) سینے پر ہاتھ باندھنا:
نماز کے لازمی آداب میں سے ایک ادب ہاتھ باندھنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں قیام فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے۔
صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب وضع اليد اليمنى على اليسرى، ح: 401
اور سینے پر باندھ لیتے تھے۔
سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، باب وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة، ح: 759 حدیث صحیح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے:
إنا معشر الأنبياء أمرنا أن نضع أيماننا على شمائلنا فى الصلاة
”ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں پر رکھا کریں۔“
المعجم الكبير للطبراني 150/11 ، ح : 11485- علامہ الہیثمی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ مجمع الزوائد 155/3 ، ح : 4880.
امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ قیام نماز میں ہاتھ باندھنے کی کیا حکمت ہے؟ فرمایا:
”یہ رب العزت کے سامنے عجز و ذلت کے اظہار کے لیے ہے۔“
امام ابن حجر فرماتے ہیں:
”یہ ایک ذلیل سائل کی شکل وصورت ہوتی ہے۔“
الخشوع في الصلاة لابن رجب، ص : 23 .
اس طرح کھڑے ہونے سے ہاتھ فضول حرکات سے بھی رُکے رہتے ہیں۔
اس میں عجز وخشوع کی کیفیت بھی ہے۔
فتح الباری 262/2 ، ط: الريان .
(10) نظر کو سجدے کی جگہ پر رکھنا:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى طأطأ رأسه ورمى ببصره نحو الأرض
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنا سر جھکا لیتے اور اپنی نظر زمین کی طرف لگائے رکھتے۔“
مستدرك الحاكم 479/1 وقال صحيح على شرط الشيخين و وافقه الالباني في صفة الصلاة.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے (اور نماز پڑھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سجدے کی جگہ سے نہیں ہٹی تھی۔
مستدرك حاكم ،479/1 ، وقال صحيح على شرط الشيخين ووافقه الذهبي ارواء الغليل: 73/2 .
البتہ جب تشہد میں بیٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت پر ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دیتے رہتے تھے۔ جیسے کہ صحیح ابن خزیمہ (553/1، ح: 719) میں ہے۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ:
وأشار بالسبابة ولم يجاوز بصره إشارته
”(آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں) انگشت شہادت سے اشارہ کرتے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر آپ کے اشارے سے آگے نہ بڑھتی تھی۔“
صحيح ابن خزيمة 355/1، ح : 719 – وصفة صلاة النبي للالباني ص : 185 .
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اپ نے شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا اور اپنی نگاہ کو اشارے پر ٹکائی رکھا۔
مسند احمد 3/4 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الارشارة في التشهد ، ح : 990۔ علامہ البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
مسئلہ: نماز میں آنکھیں بند کر لینا؟
یہاں ایک سوال ہے جو بعض نمازیوں کے ذہن میں آتا ہے کہ نماز کے دوران آنکھیں بند کر لینے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ آنکھیں بند کر لینے سے قدرے خشوع زیادہ محسوس ہوتا ہے؟
جواب:
یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ثابت شدہ سنت کے خلاف ہے جیسے کہ ابھی پیچھے گزرا ہے۔ دوسرا اس سے وہ سنت فوت ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نظر سجدے کی جگہ پر رکھتے تھے یا دائیں انگلی پر رکھتے تھے۔ یہاں ہم علامہ حافظ ابن القیم سے استفادہ کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہ تھا کہ نماز کے دوران اپنی آنکھیں بند کریں۔ جبکہ واضح آیا ہے کہ تشہد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انگلی پر ہوتی تھی اور اشارے سے آگے نہ بڑھتی تھی۔
اس کی ایک مزید دلیل یہ بھی ہے کہ صلاۃ کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا تا کہ انگور کا خوشہ پکڑ لیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کے مناظر دیکھے۔ مثلاً بلی والی اس عورت کو دیکھا جس نے اسے قید کر دیا تھا اور لاٹھی والے ایک شخص کو بھی دیکھا۔ ایسی ہی وہ حدیث بھی ہے کہ ایک بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہٹا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے اور بچی کو اپنے سے ہٹایا، اسی طرح دو بچیوں کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ ایسی ہی وہ احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرنے والے کو اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے، اور یہ سب نماز کے دوران کے واقعات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو دیکھا تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حرکت کی یا اشارہ کیا۔
اپنے ہی شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑ لیا اور اس کا گلا دبایا، یہ سب آنکھوں دیکھی چیزیں تھیں۔ تو ان سب احادیث کے مجموعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران اپنی آنکھیں بند نہ کیا کرتے تھے۔“
اس عمل کے مکروہ ہونے پر ائمہ کا اختلاف ہے۔ مثلاً امام احمد اسے مکروہ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ نماز کے دوران آنکھیں بند کر لینا یہودیوں کا کام ہے۔ جب کہ بعض دیگر ائمہ نے اسے مباح بھی کہا ہے، وہ اسے مکروہ نہیں خیال کرتے۔ الغرض صحیح بات یہ ہے کہ نماز کے دوران آنکھیں کھولے رکھنا کسی طرح خشوع کے منافی نہیں۔ البتہ اگر سامنے قبلے کی جانب کوئی نقش و نگار ہوں اور ان پر نظر پڑتی ہو تو یقیناً آنکھیں بند کر لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہو گا۔ بلکہ اس صورت میں بند کر لینا اقرب الی الصواب کہلائے گا اور یہی اصول شریعت اور مقاصد شریعت کی بات ہوگی۔
علامہ ابن القیم کی بات سے یہی معلوم ہوا ہے کہ سنت تو آنکھیں کھولے رکھنا ہی ہے، الا یہ کہ خشوع کے منافی کسی چیز سے بچنا مقصود ہو۔
(11) انگشت شہادت کو حرکت دینا:
اس مسئلہ سے بہت سے نمازی غافل ہیں اور خشوع میں اس کے ممد و معاون ہونے کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لهي أشد على الشيطان من الحديد
”انگشت شہادت کی یہ حرکت شیطان کے لیے لوہے کی چوٹ سے بھی بڑھ کر سخت ہوتی ہے۔“
(مسند احمد، 119/2 – حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الفتح الرباني، 15/4)
کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور توحید کا اشارہ ہوتا ہے، اخلاص عبادت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جو شیطان کے لیے بے انتہا ناپسند اور اذیت و تکلیف کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی لیے اور اس عظیم فائدہ کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سنت کی ایک دوسرے کو وصیت و تلقین کرتے اور اس پر عمل کے حریص بھی ہوتے تھے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس طرح کی تمام سنتوں پر عمل پیرا رکھتے تھے جنہیں آج کے دور میں لوگ معمولی اور ہلکا سمجھتے ہیں اور ان کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس اثر کے الفاظ یوں ہیں:
كان أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم يأخذ بعضهم على بعض، يعني الإشارة بالأصبع فى الدعاء
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (تشہد کی) دعا میں انگلی سے اشارہ کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کیا کرتے تھے۔“
(ابن أبي شيبة، بإسناد حسن، صفة الصلاة، صفحہ: 141)
اور اس اشارے میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں انگلی قبلہ رخ اٹھی رہے اور اسے حرکت دی جائے۔
(12) نماز میں تلاوت اور دعا:
اس عمل سے نمازی کو نئے نئے معانی اور احساسات کی تجدید ہوتی ہے جبکہ وہ آدمی جسے صرف ایک یا چند اذکار ہی یاد ہوں اور وہ بار بار انہی کا تکرار کرتا ہو یا چند ایک مختصر مختصر سورتوں ہی کی تلاوت پر اکتفا کرتا ہو، اسے نماز کا وہ لطف و سرور حاصل نہیں ہوتا جو اس شخص کو ہوتا ہے جو مختلف مقامات سے تلاوت کرتا اور بدل بدل کر اذکار کرتا ہے۔ الغرض اذکار و تلاوت کو مختلف مقامات سے بدل بدل کر پڑھنا سنت ہے اور خشوع میں بہت ہی ممد و معاون عمل ہے۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت مختلف تلاوتوں میں غور کرنا چاہیے۔ اور نماز کے اذکار میں تدبر کرنا چاہیے کہ وہ کیا کیا اور کیسے کیسے ہوتے تھے؟ مثلاً استفتاح نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں پڑھتے تھے:
❀ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
”اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری اور فاصلہ کر دے جیسے کہ تو نے مشرق اور مغرب میں فاصلہ اور دوری کی ہے۔ اے اللہ! مجھے میری خطاؤں سے ایسے صاف کر دے جیسے سفید کپڑے کو میل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! مجھے میری خطاؤں سے پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔“
(صحيح البخاري، كتاب صفة الصلاة، باب ما يقول بعد التكبير، ح: 711 – صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة، ح: 598، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب ما يقال بين تكبيرة الاحرام والقرائة ، ح : 598 . صحیح بخاری حدیث : 344
❀ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
”میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے، اس حال میں کہ میں اس کے لیے یکسو ہوں اور کسی طرح مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی (وعبادت)، میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔“
(صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل، ح: 771 – صحيح ابن حبان: 69/5، ح: 1771, 1772, 1773, 1774 – سنن ابی داؤد، كتاب الدعوات، باب ما تستفتح به الصلاة من، ح: 761)
❀ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَٰهَ غَيْرُكَ
”اے اللہ! تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ، تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری شان بہت بلند و بالا ہے اور تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“
سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، باب من رأى الاستفتاح بسبحانك، ح: 775, 776 – المستدرك للحاكم، 235/1 – سنن الترمذي، ح: 242, 243 – سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة، باب افتتاح الصلاة، ح: 804, 806، حدیث صحیح ہے۔
علاوہ ازیں اور بھی اذکار ہیں۔ نمازی کو چاہیے کہ کبھی یہ پڑھے اور کبھی وہ۔ اور تلاوت میں ہم پاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں کئی مختلف سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے مثلاً طوال مفصل میں سے سوره الواقعه، الطور اور ق، اور قصار مفصل میں سے مثلاً: إذا الشمس كورت، الزلزلة اور معوذتين۔ یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الروم، یسین اور الصافات کی تلاوت فرمائی۔ اور جمعہ کے روز فجر کی نماز میں سورہ السجدہ اور هل أتىٰ على الإنسان تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
قرآن کریم کی آخری منزل کو ”المفصل“ سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ ان سورتوں میں فاصلے اور بسم اللہ کثرت سے آئی ہے۔ ان آیات کو ”المحکم“ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ علماء احناف کے قول کے مطابق سورہ الحجرات سے البروج تک طوال مفصل، الطارق سے لم يكن تک اوساط مفصل اور سورہ الزلزلة سے آخر تک قصار مفصل کہلاتی ہیں۔
نماز ظہر میں تلاوت کے بارے میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پہلی دونوں رکعات میں تین آیات کے برابر قراءت فرماتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الطارق، البروج اور واللیل اذا یغشیٰ بھی تلاوت فرمائی۔
نماز عصر میں تلاوت کے بارے میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پہلی دونوں رکعات میں پندرہ آیات کے برابر تلاوت کرتے تھے۔ اور وہ سورتیں بھی جن کا اوپر ظہر کی نماز میں ذکر ہوا ہے۔
نماز مغرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصار مفصل میں سے تلاوت کرتے تھے مثلاً سورۃ الطور ۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ محمد، الطور اور المرسلات وغیرہ بھی تلاوت فرمائی ہیں۔ نماز عشاء کی تلاوت کے متعلق ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اوساط مفصل سے سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ مثلاً والشمس وضحٰھا، اور اذا السماء انشقت وغیرہ اور جناب معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی تھی کہ سورۃ الاعلیٰ، القلم اور واللیل اذا یغشیٰ وغیرہ پڑھا کریں۔
قیام اللیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمبی سورتیں قراءت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو سو آیات اور کبھی ڈیڑھ سو آیات تک پڑھتے تھے۔ کبھی قراءت مخفی بھی فرما لیتے۔
رکوع کے اذکار:
رکوع کے اذکار بھی کئی طرح کے ہیں کبھی:
❀ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پر اضافہ کرتے ہوئے۔
صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 772، ترمذی: 262
❀ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ
ابو داود مع العون: 66:3، حدیث: 865
❀ اور سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ (بے انتہا پاک، بے انتہا مقدس، رب ہے ملائکہ اور روح کا)۔
❀ اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، أَنْتَ رَبِّي، خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَدَمِي وَلَحْمِي وَعَظْمِي وَعَصَبِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
”اے اللہ! میں نے تیرے سامنے اپنی کمر جھکائی، میں تجھ پر ایمان لایا، تیرا مطیع ہوا، تجھی پر میرا اعتماد ہے، تو ہی میرا پالنہار ہے، میرے کان، میری آنکھیں، میرا خون، میرا گوشت، میری ہڈیاں اور میرے پٹھے سب اللہ کے سامنے دبے ہوئے عاجز ہیں، جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔ “
قومہ کی دعائیں:
رکوع سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ لینے کے بعد فرماتے تھے:
❀ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ (اے ہمارے رب اور تیری ہی تعریف ہے)۔
❀ اور کبھی صرف رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہتے (یعنی واو کا اضافہ نہ ہوتا)
❀ اور کبھی اللَّهُمَّ رَبَّنَا (وَ) لَكَ الْحَمْدُ کہتے۔
❀ اور بعض اوقات اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی ملا لیتے:
مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ
حمد اس قدر کہ آسمانوں کی پرائی جتنی، زمین کی پرائی جتنی اور اس چیز کے بقدر جو ان کے بعد تو چاہے۔
اور کبھی ان کلمات کا اضافہ فرماتے:
أهل الثناء والمجد، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد
”اے تعریف اور بزرگی کے لائق! اے اللہ! جو تو عطا فرمائے اسے کوئی روک نہیں سکتا، اور جو تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی شان یا بزرگی والے کو تیرے ہاں اس کی بزرگی اور شان کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ “
سجدہ کے اذکار:
سجدوں میں مندرجہ ذیل دعاؤں میں سے کوئی ایک پڑھی جا سکتی ہے۔
سجدوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَىٰ میں اضافہ کرتے ہوئے
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَىٰ وَبِحَمْدِهِ بھی کہہ لیتے تھے۔ کبھی سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ پڑھتے (بے انتہا پاکیزہ، بے انتہا مقدس، رب ہے ملائکہ اور روح کا)۔
روح سے مراد: وہ جو ہر ہے جس کے سبب زندگی کی بقا ہے یا سید الملائکہ جبرئیل امین کو بھی الروح، اور الروح الامین کہا جاتا ہے۔
بعض اوقات سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي پڑھتے
(پاک ہے تو اے اللہ! ہمارے رب! اپنی تعریف کے ساتھ، اے اللہ مجھے بخش دے)۔
اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
اے اللہ! میں تیرے لیے سجدہ ریز ہوں، میں تجھ پر ایمان لایا، تیرا مطیع فرمان ہوا، میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا، اسے شکل و صورت دی، اس میں کان بنائے، آنکھیں بنائیں، بڑی برکت والا ہے اللہ، جو سب سے بہترین بنانے والا ہے۔
دو سجدوں کے درمیان جلسہ میں:
رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي کے علاوہ یہ دعا بھی پڑھا کرتے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَارْفَعْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي
اے اللہ! میری پردہ پوشی فرما، مجھ پر رحم کر، میری اصلاح فرما، مجھے بلند کر دے، مجھے ہدایت دے، مجھے آرام و راحت دے اور رزق عنایت فرما.
عافیہ ایک بڑا جامع کلمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کا ہر مشکل، پریشانی، دکھ، تکلیف، بیماری اور الجھن وغیرہ سے دفاع فرمائے۔
تشہد:
تشہد میں بھی کئی طرح کے الفاظ وارد ہیں مثلاً:
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ
تمام تر تحفے اور ہدیے اللہ کے لیے ہیں اور بدنی عبادات اور پاکیزہ مالی عبادات، پاکیزہ کلمات بھی۔ سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اے اللہ کے نبی!
التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ
تمام طرح کے مبارک تحفے، زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں سب ہی اللہ کے لیے ہیں۔
التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ
”تمام پاکیزہ تحفے، زبانی، مالی، بدنی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔ “
الغرض نمازی کبھی یہ پڑھ لے اور کبھی یہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود میں بھی کئی طرح کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً:
① اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے اللہ! اپنی خاص رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر، جیسے کہ تو نے اپنی خاص رحمت نازل فرمائی ہے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر، بلاشبہ تو انتہائی تعریف کے لائق اور بڑی بزرگی والا ہے۔
”اے اللہ! برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر جیسے کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر، بلاشبہ تو بڑا ہی تعریف کیا گیا اور بڑی بزرگی والا ہے۔ “
② اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ بَيْتِهِ وَعَلَىٰ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ بَيْتِهِ وَعَلَىٰ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے اللہ! اپنی خاص رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، اس کے گھر والوں پر، اس کی ازواج پر اور اس کی اولاد پر، جیسے کہ تو نے اپنی خاص رحمت نازل کی ہے آل ابراہیم پر، بلاشبہ تو بڑا ہی تعریف کیا گیا اور بڑی بزرگی والا ہے۔ اور (اے اللہ!) برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، اس کے گھر والوں پر، اس کی بیویوں پر اور اس کی اولاد پر جیسے کہ تو نے برکت نازل کی ہے آل ابراہیم پر، بلاشبہ تو بڑا ہی تعریف کیا گیا ہے اور بڑی شان والا ہے۔
③ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے اللہ! اپنی خاص رحمت نازل فرما اس نبی پر۔ اور آل محمد پر جیسے کہ تو نے اپنی خاص رحمت نازل فرمائی ہے آل ابراہیم پر اور (اے اللہ) برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نبی امی ہے اور آل محمد پر جیسے کہ تو نے برکت نازل کی ہے آل ابراہیم پر دونوں جہانوں میں، بلاشبہ تو بڑا ہی تعریف کیا گیا، بڑی بلند شان والا ہے۔
علاوہ ازیں اور بھی کئی الفاظ منقول ہیں۔ الغرض نماز کے لیے سنت یہی ہے جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ان کلمات طیبات کو ادل بدل کر پڑھا جائے۔
اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی ایک کو کثرت سے پڑھا جائے، اس اعتبار سے کہ ثبوت میں وہ زیادہ قوی اور کتب حدیث میں اس کی شہرت زیادہ ہے۔ یا اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درود کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی الفاظ کی تعلیم فرمائی۔
( 13) سجدہ تلاوت کرنا:
تلاوت قرآن کریم کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب اس میں سجدے کا موقع آئے تو نمازی سجدہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و صالحین کا خاص وصف یہی بیان فرمایا ہے کہ:
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا
(19-مريم:58)
جب ان کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی تھیں تو وہ سجدے میں گر پڑتے اور روتے رہتے تھے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ علماء امت کا اجماع ہے کہ اس مقام پر سجدہ کرنا مشروع ہے تاکہ ان انبیاء و صالحین کی اقتداء ہو اور ان کے طرز عمل کی اتباع ہو۔
نماز کے دوران سجدہ تلاوت ایک عظیم اور بابرکت عمل ہے، اس سے نمازی کے خشوع میں بڑا اضافہ ہوتا ہے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ﴿١٠٩﴾
(17-الإسراء:109)
”وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل (سجدوں میں) گر جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی حاصل ہوتی ہے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ النجم میں سجدہ کیا تو حاضرین نے بھی کیا۔ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر عشاء کی نماز پڑھی تو انہوں نے اس میں سورہ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اس میں ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سجدہ کیا ہے، میں تو اس مقام پر سجدہ کرتا رہوں گا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں۔
بخاری، کتاب الاذان، باب القراءة في السماء بالسجدة ، حديث: 768-766وفي الجمعة 1078 .
الغرض نماز کے دوران بالخصوص سجدہ تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے شیطان کی ناک خاک آلود ہوتی ہے، وہ رسوا ہوتا ہے اور نمازی پر اس کا مکرو فریب کمزور تر ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قرأ ابن آدم السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي، يقول يا ويلي يا ويله، أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة، وأمرت بالسجود فأبيت فلي النار
ابن آدم جب کوئی آیت سجدہ پڑھتا اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان علیحدہ ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے، ہائے افسوس! ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا، اس نے سجدہ کر لیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ مگر مجھے سجدے کا حکم دیا گیا، میں نے انکار کر دیا تو میرے لیے آگ ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بيان اسم الكفر على من ترك السجدة، ح : مسند احمد : 443/2.
(14) تعوذ: اللہ کی پناہ مانگنا:
شیطان ہمارا دشمن ہے۔ اس کی عداوت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ نمازی کو نماز کے دوران مختلف خیالات اور وسوسوں میں الجھاتا رہتا ہے تاکہ اس کی نماز خراب ہو۔ یہ خیالات و وساوس ہر اس شخص کو آتے ہیں جو اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہو یا ذکر کرتا ہو، لازماً اسے خیالات و وساوس آتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بندے کو چاہیے کہ اپنی عبادت اور ذکر وغیرہ میں جاری و ساری رہے اور ان خیالات سے دل برداشتہ نہ ہو۔ اس مشغولیت سے اس کے یہ خیالات بالآخر جاتے رہیں گے اور شیطان کا حملہ ختم ہو جائے گا۔
إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴿٧٦﴾
(4-النساء:76)
بلاشبہ شیطان کا داؤ بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو بندہ اپنے اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دل میں کوئی نہ کوئی خیالات آنے لگتے ہیں۔ دراصل شیطان ایک ڈاکو ہے، بندہ جب اللہ کی طرف رجوع کرنے لگتا ہے تو وہ اس پر ڈاکہ ڈالنے کی تدبیریں کرنے لگتا ہے (اس لیے یہ خیالات آتے ہیں اور یہ اس کا حملہ ہوتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی بزرگ سے کہا گیا کہ یہود و نصاری کہتے ہیں کہ ہمیں وسوسے نہیں آتے، تو انہوں نے کہا: وہ سچ کہتے ہیں، بھلا شیطان کو ایک اجاڑ گھر میں کیا ملے گا؟
اس کی ایک عمدہ مثال یوں بھی دی گئی ہے کہ تین گھر ہوں، ایک بادشاہ کا ہو جو قسماقسم کے خزانے اور جواہرات سے بھرا ہو، دوسرا بادشاہ کے غلام کا ہو جس میں تھوڑا سا خزانہ اور جواہر وغیرہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ دونوں کی کمیت اور قیمت میں یقیناً فرق ہوگا اور تیسرا گھر خالی خولی ہو، جس میں کچھ بھی نہ ہو تو بھلا چور کس گھر میں گھسے گا؟ کہاں نقب لگائے گا؟
الوابل الصيب ، ص : 43 .
بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو شیطان کو اس سے بڑی غیرت آتی ہے، اسے بہت غصہ آتا ہے کہ ہائے یہ اس قدر عظیم عمل، اونچا مقام اور قریب ترین مرتبہ حاصل کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ یہ مراتب اس سے چھین لے۔ وہ اسے طرح طرح کے جھوٹے وعدے دیتا ہے، تمنائیں دلاتا ہے اور اسے بہلانے اور بھلانے کی کوشش کرتا ہے، اور اپنے سب پیدل اور سوار اس پر چڑھا دوڑاتا ہے تاکہ نماز اس کے لیے ایک معمولی سا عمل بنا دے، چنانچہ (کمزور طبیعت کا بندہ) اسے چھوڑ بیٹھتا ہے۔ لیکن اگر بندہ شیطان کی نہ مانے تو وہ اسے طرح طرح کے خیالات میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے، اور اس دوران وہ اسے وہ کچھ یاد دلاتا ہے جو اسے نماز سے پہلے کبھی یاد نہیں آ رہا ہوتا۔ بعض اوقات بندہ اپنی کوئی چیز بھول چکا ہوتا ہے، بلکہ اس سے مایوس ہو چکا ہوتا ہے، تو وہ اسے یاد دلا دیتا ہے تاکہ نماز سے اس کا دل پھر جائے اور اللہ کی طرف متوجہ نہ رہے تو بندہ اس حال میں کھڑا ہونے کو تو نماز میں کھڑا ہوتا ہے مگر بے دلی سے۔ اگر آدمی ان ہی خیالات میں الجھ کر رہ جائے تو ایسا آدمی اللہ عزوجل سے کچھ نہیں پا سکتا۔ پاتا وہی ہے جو کامل توجہ اور یکسوئی سے اس کی طرف دل لگائے ہوئے ہو۔ خیالات میں الجھا آدمی جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو وہ ویسے ہی رہتا ہے جیسے پہلے اپنی خطاؤں اور گناہوں میں تھا، جو اس کی نماز سے کسی طرح کم نہیں ہوئے ہوتے۔ حالانکہ نماز آدمی کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔ مگر اسی نمازی کے لیے جو نماز کا حق ادا کرے، کامل خشوع سے پڑھے اور اپنے اللہ کے سامنے حضور قلب و قالب کے ساتھ حاضر ہو!
الغرض شیطان کے اس مکرو فریب کا مقابلہ اور وساوس کو دور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علاج اور ترکیب ارشاد فرمائی ہے:
جناب ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! شیطان میرے اور میری نماز و قراءت کے مابین حائل ہو جاتا ہے اور مجھے خلط ملط کر دیتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ شیطان ہے اس کا نام خنزب ہے، تم جب اسے محسوس کرو تو أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تین بار تھوک دیا کرو۔ صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا، تو اللہ نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔
شیطانی حملوں میں سے ایک حملہ جس کی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور پھر اس کا علاج بھی ارشاد فرما دیا ہے کہ:
وإن أحدكم إذا قام يصلي جاء الشيطان فلبس عليه حتىٰ لا يدري كم صلىٰ، فإذا وجد ذٰلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالس
تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آکر اس کے لیے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہے، حتیٰ کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ کس قدر نماز پڑھی ہے، فرمایا کہ جب کوئی اس طرح کی کیفیت سے دوچار ہو تو اسے چاہیے کہ (آخر میں) جب بیٹھا ہوا ہو تو دو سجدے کر لے۔
بخاري، كتاب الجمعة ، باب الهو في الغرض والتطوع، حدیث: 1232 ، صحیح مسلم، حدیث: 389 .
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان أحدكم فى الصلاة فوجد حركة فى دبره أحدث أو لم يحدث فأشكل عليه فلا ينصرف حتىٰ يسمع صوتا أو يجد ريحا
جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنی دبر میں کوئی حرکت سی محسوس کرتا ہے (یعنی اسے خیال آتا ہے کہ) شاید بے وضو ہو گیا ہوں یا نہیں ہوا؟ اور وہ شک میں پڑ جاتا ہے تو اس صورت میں نمازی کو نماز نہیں چھوڑنی چاہیے حتیٰ کہ آواز سنے یا بو محسوس کرے۔
صحیح مسلم، کتاب الطهارة باب ،26، ح 362 سنن ابی داؤد، کتاب الطهارة باب اذا شك في الحدث، ح : 177 .
مسئلہ:
بندہ نماز میں ہوتا ہے اور شیطان آجاتا ہے حتیٰ کہ اس کی مقعد (شرمگاہ) کو کھولتا ہے، نمازی کو خیال گزرتا ہے، شاید ہوا خارج ہوئی ہے یا نہیں؟ فرمایا: جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال پیش آ جائے تو ہرگز نماز نہ چھوڑے حتیٰ کہ آواز سن لے یا بو محسوس کرے۔
مصنف عبدالرزاق، الصلاة، حديث: 3463.
یہاں ہم آپ کو ایک اور شیطانی دھوکے سے بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ خنزب شیطان بعض اچھے بھلے نمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کر دیتا ہے وہ اس طرح کہ وہ انہیں نماز کے علاوہ بعض دیگر اعمال خیر میں مشغول کرنے کی صورت میں آتا ہے مثلاً وہ انہیں دعوت و تبلیغ کے کاموں میں یا دیگر علمی مسائل میں مشغول کر دیتا ہے اور وہ اس میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی نماز کی خبر ہی نہیں رہتی۔ اور پھر بعض تو اس صورت حال کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے معاملے سے بھی تشبیہ دینے لگتے ہیں کہ وہ دورانِ نماز میں لشکر تیار کر رہے ہوتے تھے وغیرہ۔
آئیے! اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مراجعت کریں، انہوں نے اس مسئلے کو خوب حل کیا اور اس شبہ کا جواب بھی دیا ہے، فرماتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہتے ہیں کہ وإني لأجهز جيشي وأنا فى الصلاة (بعض اوقات میں اپنا لشکر تیار کرتا ہوں جبکہ میں نماز میں بھی ہوتا ہوں)۔ اس میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہو سکتی، یہ اس لیے تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ امور جہاد کے مسئول و مامور تھے، امیر المؤمنین تھے، امیر الجہاد تھے تو وہ کئی اعتبارات سے اس نمازی کی طرح ہوتے تھے جیسے کوئی دشمن کو دیکھتے ہوئے نماز خوف پڑھتا ہو۔ اس میں قتال کی حالت بھی ہوتی ہے اور غیر قتال کی بھی۔ اور اس کیفیت میں آدمی بہر حال نماز کا مامور ہے اور جہاد کا بھی، تو اسے حکم ہے کہ ایک ہی وقت میں جیسے بھی بن پڑے دونوں واجب ادا کرے، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٤٥﴾
(8-الأنفال:45)
جب تمہارا کسی جماعت (کفار) سے مقابلہ ہو تو ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اور ظاہر ہے کہ بحالت قتال و جہاد انسان کا اطمینان اس طرح کا نہیں ہو سکتا جو حالت امن میں ہوتا ہے۔ اگر بالفرض یہ سمجھ بھی لیا جائے کہ اس سے نماز میں نقص آتا ہے تو یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کے کمال ایمان اور کمال طاعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایامِ امن کے مقابلے میں نماز خوف میں بہت سی تخفیف رکھی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نماز خوف کی تعلیمات کے بعد فرمایا ہے:
فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾
(4-النساء:103)
جب تمہیں اطمینان حاصل ہو جائے تو نماز (معمول و معروف طریقے سے) قائم کرو، بلاشبہ نماز اہل ایمان پر اپنے وقت پر فرض کی گئی ہے۔
حالت امن میں اقامت نماز کی جو کیفیت مطلوب ہے، حالت خوف میں اس کا حکم و مطالبہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے اس معاملے میں مختلف درجات ہیں۔ جب کوئی کامل الایمان ہوگا تو وہ نماز میں دل و جان سے حاضر ہوگا۔ نماز کے تمام امور میں تدبر و تفکر کرتا ہوگا۔ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تو شخصیت ایسی ہے کہ اللہ نے حق کو ان کی زبان اور دل پر جاری فرما دیا تھا اور وہ ایک محدث اور مکہم شخصیت بھی تھے۔
ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں کوئی عیب نہیں ہو سکتیں۔ عین ممکن ہے کہ انہیں نماز کے دوران تدبیر لشکر کے ساتھ ساتھ حضوری نماز کا مقام و مرتبہ بھی حاصل ہو، جو دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان خیالات کے بغیر آپ رضی اللہ عنہ کا حضور یقیناً بہت زیادہ قوی ہوتا تھا۔
اور اس میں بھی شک نہیں کہ حالت امن و اطمینان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز حالت خوف کی نماز کے مقابلے میں ظاہری افعال کے اعتبار سے بہت زیادہ کامل ہوتی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حالت خوف میں بعض ظاہری واجبات معاف فرما دیے ہیں تو باطنی معاملات کا کیا حال ہوگا؟ یقیناً وہ بھی معاف ہی ہوں گے! مختصر یہ کہ نمازی کے وہ تفکرات جن کا تعلق واجبی امور سے ہو پھر ان واجبات کے لیے وقت بھی تنگ ہو تو یہ ایسے (تفکرات) کی مانند نہیں ہو سکتے جو واجب نہیں، یا ان کے لیے وقت کی کوئی تنگی نہ ہو۔ ممکن ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے لشکر کی تدبیر اسی حالت میں ممکن ہوتی ہو، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ امت کے امام تھے اور انہیں بے شمار قسم کے خیالات و تفکرات کا سامنا رہتا تھا۔ اور اسی طرح کی کوئی صورت ہر شخص کو اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے پیش آسکتی ہے۔ اور انسان بسا اوقات نماز میں وہ چیزیں سوچتا ہے (یا اسے یاد آ جاتی ہیں) جو وہ خارج از نماز میں نہیں سوچتا۔ اور ان میں سے بعض وہ بھی ہوتی ہیں جو شیطان کی طرف سے آتی ہیں۔
سلف صالحین میں سے کسی بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ میں اپنا مال کہیں دفن کر کے بھول گیا ہوں، معلوم نہیں کہاں دفن کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اٹھ کر نماز پڑھو۔ چنانچہ اس نے نماز پڑھی تو وہ جگہ اسے یاد آگئی۔ اس بزرگ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اسے یہ تدبیر کیونکر بتائی؟ تو انہوں نے کہا: مجھے علم تھا کہ شیطان اسے نماز میں نہیں چھوڑے گا حتیٰ کہ اسے وہ جگہ یاد آ جائے گی جس سے کہ وہ نماز سے غافل اور مشغول ہو جائے اور اس آدمی کے لیے اس دفن شدہ مال کی جگہ کی یاد سے بڑھ کر اور کوئی بات زیادہ اہم نہ تھی۔ بہر حال ایک دانا آدمی کوشش کرتا ہے کہ اسے نماز میں حضور کامل حاصل رہے اور ساتھ ساتھ باقی مامورات بھی وہ کامل طور پر ادا کرے۔
مجموع الفتاوى 61/22.
(15) اسلاف کی نمازیں:
❀ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تابعین اور بعض دیگر سلف کے احوال کا مطالعہ ہمیں شوق دلاتا ہے کہ ہم بھی ان کی اقتداء کریں اور اپنی نمازوں میں خشوع پیدا کریں۔ ان میں سے بعض کی حالت یہ ہوتی تھی کہ اگر تم اسے دیکھ لیتے کہ وہ نماز کے لیے اٹھا ہے اور اپنی محراب میں کھڑا ہوا ہے اور اپنے رب سے ہم کلام ہونے لگا ہے تو اس کے دل پر یہ خیال غالب آ جاتا تھا کہ یہی وہ عظیم مقام ہے جب لوگ اپنے پالنہار (رب العالمین) کے سامنے کھڑے ہوں گے تو اس سے ان کا دل نکل نکل جاتا اور عقل کھو کھو جاتی تھی۔
❀ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ بزرگ جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو جب تک نماز میں ہوتے الرحمن جل و علا سے ہیبت کھاتے تھے کجا یہ کہ ان کی نظر کسی اور طرف اٹھے، ادھر اُدھر دیکھے یا کنکریوں سے کھیلے یا کوئی فضول حرکت کرے یا اپنے دل میں دنیا کی کوئی بات سوچے الا یہ کہ کوئی بھول ہو جاتی۔
❀ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو معلوم ہوتا تھا کہ کوئی لکڑی گڑی ہوئی ہے۔ مسجد حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، سجدے میں تھے کہ منجنیق کا گولا آیا اور ان کے کپڑوں کو بھی کچھ لگا مگر انہوں نے سجدے سے سر نہیں اٹھایا۔
❀ مسلمہ بن بشار رحمہ اللہ ایک بار مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کا ایک کونہ گر گیا، لوگ اٹھ بھاگے، مگر مسلمہ رحمہ اللہ نماز ہی میں رہے، انہیں اس کی خبر ہی نہ ہوئی۔
❀ بعض کے متعلق یہاں تک آتا ہے کہ وہ ایسے ہوتے تھے جیسے کپڑوں کا کوئی ڈھیر ہو۔
❀ بعض کا رنگ فق ہو جاتا تھا کہ اب ہم رب العالمین کے حضور کھڑے ہونے والے ہیں۔
❀ بعض کو خبر ہی نہ ہوتی تھی کہ ان کے دائیں بائیں کون ہے۔
❀ کچھ کے متعلق یہ آتا ہے کہ وضو کرتے ہوئے ان کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا، اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا رنگ کیوں اڑ جاتا ہے؟ تو جواب دیا کہ، میں سمجھتا ہوں کہ میں اب اپنے اللہ کے سامنے کھڑا ہونے والا ہوں۔
❀ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ جب نماز کا وقت آ جاتا تو ان پر لرزہ سا طاری ہو جاتا تھا، رنگ اڑ جاتا تھا۔ اس کا سبب دریافت کیا گیا؟ تو فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ کی امانت ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے، وہ امانت جو زمین، آسمان اور پہاڑوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا اور ڈر گئے (کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے) مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔
❀ جناب سعید تنوخی رحمہ اللہ کے نماز کے دوران آنسو تھمتے ہی نہ تھے، ان کی داڑھی پر بہتے رہتے۔
❀ تابعین میں سے ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو رنگ فق ہو گیا۔ اور کہا کرتے تھے، کیا معلوم بھی ہے کہ میں کس کے سامنه کھڑا ہوتا اور کسی سے مناجات کرتا ہوں؟ تم میں سے کون ہے جس کے دل میں اس طرح کی ہیبت ہو!
بحوالہ سلاح اليقطان لطرد الشيطان
❀ عامر بن عبدالقیس رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو نماز کے دوران خیالات نہیں آتے؟ تو کہنے لگے: کیا بھلا نماز سے بڑھ کر بھی کوئی شے ہے جس کے متعلق سوچوں؟ ساتھیوں نے کہا: ہمیں تو نماز میں خیالات بہت آتے ہیں۔ پوچھا: کیا جنت کے آتے ہیں یا حور و قصور کے؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ تو نہیں آتے، بلکہ گھر بار اور بال بچوں کے آتے ہیں۔ تو کہا: مجھے تو ان خیالات کی بجائے کوئی تیر گھونپ دے وہ زیادہ پسند ہے۔
❀ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ مجھ میں تین صفتیں ہیں خواہ کسی بھی حال میں ہوں تو میں وہی ہوتا ہوں
(1) جب میں نماز میں ہوتا ہوں تو اپنے جی سے باتیں نہیں کرتا سوائے نماز کے جس میں مشغول ہوتا ہوں
(2) جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنتا ہوں تو مجھے اس کے حق ہونے میں قطعاً کسی قسم کا شک شبہ نہیں ہوتا
(3) اور جب میں کسی جنازے میں ہوتا ہوں تو مجھے صرف ان ہی باتوں کا خیال آتا ہے جو وہ مردہ کہہ رہا ہوتا ہے یا جو اسے کہا جا رہا ہوتا ہے!
فتاوی ابن تیمیه 605/22 .
❀ جناب حاتم رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہتے ہیں کہ میں اللہ کے حکم کے مطابق کھڑا ہوتا ہوں، خوف و خشیت کے ساتھ چلتا ہوں، ایک عزم و نیت کے ساتھ نماز شروع کرتا ہوں، عظمت الٰہی کے احساس سے تکبیر کہتا ہوں، ترتیل و تفکر سے قراءت کرتا ہوں، خشوع سے رکوع اور خضوع سے سجدہ کرتا ہوں، قرار سے بیٹھتا ہوں، نیت سے سلام پھیرتا ہوں، اور اخلاص سے اپنی نماز مکمل کرتا ہوں پھر بھی خوف اور اندیشہ رہتا ہے کہ نامعلوم قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ اور پھر موت تک محنت سے اس کی حفاظت کرتا ہوں۔ (خشوع فی الصلاة)
❀ جناب ابوبکر الصبغی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہتے ہیں: کہ میں نے دو اماموں کو پایا ہے اگرچہ مجھے ان سے سماع کا شرف حاصل نہیں ہو سکا۔ یعنی ابو حاتم رازی رحمہ اللہ اور محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ۔ ابن نصر رحمہ اللہ سے بڑھ کر خوبصورت نماز پڑھنے والا میں نے کوئی نہیں پایا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک بار ایک پھڑان کی پیشانی پر آ بیٹھی اور ڈنک مارا اتنا سخت کہ خون بہنے لگا مگر انہوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ یہی بات ان کے متعلق محمد بن یعقوب اخرم رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ ابن نصر رحمہ اللہ نماز کے دوران اپنے کانوں سے مکھیاں تک نہ اڑاتے تھے، ہمیں ان کے اس خشوع، ہیبت اور حسن نماز پر بڑا تعجب ہوتا تھا۔ ان کی ٹھوڑی ان کے سینے پر ہوتی تھی، لگتا تھا کہ کوئی لکڑی گڑی ہوئی ہو۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نماز میں داخل ہوتے تو ان کے اعضاء پر لرزہ سا طاری ہو جاتا اور دائیں بائیں حرکت کرتے تھے۔ (الکواکب الدریة)
ذرا ان ائمہ و مشائخ اور اپنے احوال کا تقابل کیجے، کوئی اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوتا ہے، کوئی اپنے کپڑے درست کر رہا ہوتا ہے، کوئی ناک کھجا رہا ہوتا ہے، کوئی بیچ رہا ہے، کوئی خرید رہا ہے اور نماز بھی پڑھے جا رہا ہے۔ کبھی پیسے گن رہا ہے تو کوئی جائے نماز کے بیل بوٹوں میں گم ہے تو کوئی چھت کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے ہے اور کوئی ساتھ والے کے ساتھ تعارف میں لگا ہوا ہے!؟
کیا خیال ہے آپ کا اگر ان میں سے کسی کو کسی دنیا دار بادشاہ کے سامنے کھڑا ہونے کا موقع ملے تو کیا اسی طرح کرے گا جیسے اب یہ نماز میں کر رہا ہے؟
(16) نماز میں خشوع کامل کی فضیلت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ما من امرئ مسلم تحضره صلاة مكتوبة فيحسن وضوءها وخشوعها وركوعها، إلا كانت كفارة لما قبلها من الذنوب ما لم يؤت كبيرة وذٰلك الدهر كله
جس کسی مسلمان کے لیے فرض نماز کا وقت آ جائے اور پھر وہ اس کے لیے (سنت کے مطابق) خوبصورت وضو کرے اور اس کے لیے خشوع اور رکوع خوبصورت بنائے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہے جب تک کسی کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ اعزاز اسے ہمیشہ ہی حاصل رہتا ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والصلاة عقبہ، حدیث: 228
نماز کا اجر ہمیشہ خشوع اور حضوری قلب کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
إن العبد ليصلي الصلاة ما يكتب له منها إلا عشرها، تسعها، ثمنها، سبعها، سدسها، خمسها، ربعها، ثلثها، نصفها
بندہ نماز پڑھتا ہے مگر اس میں سے بندے کے لیے اس کا دسواں حصہ ہی لکھا جاتا ہے، یا نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا حصہ یا آدھی نماز لکھی جاتی ہے۔
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب ما جاء في نقصان الصلاة، حدیث: 796 مسند احمد 319/4، 321، 264 صحیح ابن حبان (الاحسان) 210/5، حدیث: 889 اور حدیث حسن ہے۔
اور نماز اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اس نے سوچ سمجھ کر پڑھی ہو، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، ليس لك من صلاتك إلا ما عقلت منها (تمہاری نماز بس اتنی ہی ہے جتنی تم نے عقل و شعور سے پڑھی ہو)۔
گناہ اور خطائیں تبھی ختم ہوتی ہیں جب بندہ نماز کامل پڑھے اور خشوع اور عاجزی سے پڑھے۔ جیسے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ رحمہ اللہ (5/2) مسئلہ (86)
إن العبد إذا قام يصلي أتي بذنوبه كلها فوضعت علىٰ رأسه وعاتقيه فكلما ركع أو سجد تساقطت عنه
بندہ جب نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر اور دونوں کندھوں پر رکھ دیے جاتے ہیں تو جب بھی وہ رکوع کرتا یا سجدہ کرتا ہے تو اس کے گناہ اس سے گرتے اور جھڑتے چلے جاتے ہیں۔
بیهقی سنن الکبریٰ 10/3 حدیث: 4697 سلسلة صحیحہ للالبانی: 387/3، حدیث: 1398
علامہ مناوی رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں: مراد یہ ہے کہ جب بندہ نماز کا ایک رکن پورا کر لیتا ہے تو اس سے گناہوں کا ایک حصہ گر جاتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ نماز کامل طور پر ادا کر لیتا ہے تو گناہ بھی کامل طور پر گر چکے ہوتے ہیں اور یہ خوشخبری اس نماز کے متعلق ہے جو کامل شرطوں سے ادا کی گئی ہو، جب اس کے ارکان اور خشوع کامل ہوں جیسے کہ حدیث کے الفاظ العبد (یعنی وہ بندہ جو بندگی میں کامل ہو) اور القیام (کامل قیام) میں اشارہ ہے کہ وہ بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے عاجز و ذلیل بن کر کھڑا ہو۔
فیض القدیر 368/2
نماز میں کامل خشوع کرنے والا:
نماز میں کامل خشوع کرنے والا جب اپنی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں ایک طرح کا ہلکا پن محسوس کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے گویا کچھ بوجھ تھے جو اس کے کندھوں سے اتر گئے ہیں، چنانچہ وہ بڑی فرحت، راحت اور سکون محسوس کرتا ہے اور اس کی تمنا ہوتی ہے کہ کاش یہ عمل جاری رہتا اور میں اس سے نکلا نہ ہوتا۔ کیونکہ نماز بندے کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کا چین و قرار ہوتی ہے۔ دل کی جنت اور دنیا سے راحت کا عمل ہوتی ہے۔ تو بندہ جب تک دوبارہ اس میں داخل نہیں ہو جاتا محسوس کرتا ہے گویا قید اور تنگی میں ہے تو اسے نماز پڑھنے سے ہی راحت ملتی ہے نہ کہ نماز سے چھٹکارے کی فکر ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والے تو ہمیشہ ایسے ہی کہتے ہیں کاش ہم اور نماز پڑھیں اور اس کے ذریعے ہمیں چین و راحت حاصل ہو۔ جیسے کہ ان کے امام و قائد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے (يا بلال أرحنا بالصلاة) بلال! اذان کہو، نماز پڑھیں اس سے ہمیں سکون پہنچاؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان یوں بھی ہے:
وجعلت قرة عيني فى الصلاة
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔
صحیح البخاری، عشرة النساء، حدیث: 3940
جس کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہو اسے اور کہاں چین و قرار آ سکتا ہے، اسے اس کے علاوہ کہاں صبر مل سکتا ہے؟
(17) حسب مواقع دعا کرنا بالخصوص سجدے میں:
بلاشبہ اللہ عزوجل کے ساتھ مناجات اور اس کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار اور اپنی دعاؤں اور حاجتوں کو اس کے حضور پیش کرنا اور اس کے سامنے زاری، ایسے اعمال ہیں جن سے بندے کا اپنے رب سے تعلق بہت مضبوط ہو جاتا ہے بلکہ اس سے خشوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور دعا تو اصل عبادت ہے اور بندہ اپنے رب سے دعا کرنے کا پابند بھی ہے، فرمایا:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً
(7-الأعراف:55)
لوگو! اپنے پروردگار سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں کیا کرو۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
من لم يسأل الله يغضب عليه
جبکہ بندوں سے مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔
سنن الترمذی، کتاب الدعوات باب، 126، حدیث: 3566
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے دوران کئی مقامات پر دعائیں کرنا ثابت ہے۔ مثلاً سجدوں میں، دونوں سجدوں کے درمیان، تشہد کے بعد وغیرہ۔ اور ان سب مقامات میں سے سجدہ سب سے افضل مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد فأكثروا الدعاء
بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس میں بہت زیادہ دعا کیا کرو۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب ما یقال فی الرکوع والسجود، حدیث: 482 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب فی الدعاء فی الرکوع والسجود، حدیث: 875 سنن النسائی، کتاب الصلاة، باب اقرب ما یکون العبد من الله عزوجل، حدیث: 1136
ایک اور حدیث میں ہے:
أما السجود فاجتهدوا فى الدعاء فقمن أن يستجاب لكم
سجدے کی حالت میں بہت زیادہ دعا کی کوشش کیا کرو، یہ قبولیت کے زیادہ لائق ہوتی ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب النهی عن قراءة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث: 479 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب فی الدعاء فی الرکوع والسجود، حدیث: 876
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کی دعاؤں میں سے کچھ یہ ہیں:
اللهم اغفر لي ذنبي دقه وجله وأوله وآخره وعلانيته وسره
اے اللہ! میرے چھوٹے گناہ معاف فرما دے، بڑے نمایاں گناہ معاف فرما دے، پہلے والے اور بعد والے، ظاہر اور پوشیدہ بھی۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب ما یقال فی الرکوع والسجود، حدیث: 483 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب فی الدعاء والرکوع والسجود، حدیث: 878
اللهم اغفر لي ما أسررت وما أعلنت
اے اللہ! میرے چھپے گناہ معاف کر دے اور وہ بھی جو میں نے کھلے طور پر کیے۔
سنن النسائی، کتاب التطبیق، باب 66، حدیث: 1123/1124 تحقیق سنن النسائی میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کو صحیح کہا ہے، حدیث: 1076
اور دو سجدوں کے درمیان کی دعائیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے بعد جو دعائیں کیا کرتے تھے، وہ ہمیں بھی سکھائی ہیں، فرمایا:
إذا فرغ أحدكم من التشهد فليستعذ بالله من أربع: من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن شر المسيح الدجال
جب تم میں سے کوئی (نماز میں) تشہد سے فارغ ہو جائے تو چاہیے کہ چار باتوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے: جہنم کے عذاب سے، عذاب قبر سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے۔
صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب ما یستعاذ منہ فی الصلاة، حدیث: 588 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب ما یقول بعد التشہد، حدیث: 983
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جو میں نے کیا اور اس شر سے جو میں نے نہیں کیا۔
صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب التعوذ من شر ما عمل …. الخ 2716 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب في الاستعاذة ، ح : 1550 .
اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا
”اے اللہ! میرا حساب آسان کر۔ “
(صحيح) موسوعه مسند أحمد: 260/40، حديث: 24215 .
اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا سکھائی کہ وہ یہ پڑھا کریں۔
اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
”اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور گناہوں کو تو ہی بخش سکتا ہے، تو مجھے اپنی عنایت سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، بلاشبہ تو بہت زیادہ بخشنے والا اور بے انتہا رحم کرنے والا ہے۔ “
صحيح البخاری، کتاب صفة الصلاة، باب الدعاء قبل السلام ، ح : 799، مسلم، کتاب الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر .
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو اپنے تشہد میں دعا کر رہا تھا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اے اللہ، اے بے نیاز، جس نے نہ جنا ہے اور نہ جنا گیا ہے اور کوئی بھی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے، کہ میرے گناہ بخش دے، بلاشبہ تو بہت زیادہ پردہ پوش اور بے انتہا رحم کرنے والا ہے۔
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب ما يقول بعد التشهد ، ح : 985۔ سنن النسائی، کتاب السهو ، باب 58- علامہ البانی نے تحقیق ابی داؤد میں حدیث کو صحیح کہا ہے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قد غفر له، قد غفر له
تحقیق اسے بخش دیا گیا، بخش دیا گیا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور شخص کو سنا جو اپنے تشہد میں کہہ رہا تھا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ، لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، الْمَنَّانُ يَا بَدِيعَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ
”اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس لیے کہ تیری ہی حمد ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، تو سب سے بڑھ کر احسان کرنے والا ہے، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے بزرگی اور سخاوت والے، اے ہمیشہ سے زندہ، قائم اور سنبھالنے والے! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔ “
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الدعاء ، ج : 1495- سنن النسائی، کتاب السهو، باب الدعاء بعد الذكر ، ح : 1299 – علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داود، ح : 1326
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس نے کیا دعا کی ہے؟” صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم اس ذات کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے، اس نے اللہ سے اس اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ ضرور قبول کرتا ہے، جب اس سے مانگا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد اور سلام کے مابین آخر میں یہ دعا کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ! میرے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دے، جو میں نے چھپ کر کیے، جو ظاہر میں ہوئے، جن میں میں حد سے بڑھ گیا اور وہ سب جو تو مجھ سے بڑھ کر جانتا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے چھوڑنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
صحيح البخاری، کتاب الدعوات، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم اللهم اغفر لى الخ، خ: 6036/6035 – صحيح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء والتوبة، باب التعوذ من شر ما عمل، ح : 2719.
یہ اور اس طرح کی دعاؤں کو حفظ کر لینے سے اس مشکل کا حل ہو جاتا ہے کہ بعض لوگ تشہد کے بعد امام کے پیچھے خاموش بیٹھے رہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں کہ کیا پڑھنا ہے۔
(18) نماز کے بعد اذکار
نماز کے بعد کے اذکار دل میں خشوع کا اثر اور نماز کی برکات کو باقی رکھنے کا بہترین عمل ہیں اور یقیناً پہلی طاعت کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بعد دوسری طاعت کی جائے۔ اسی قاعدے کی بنیاد پر نماز کے بعد کے اذکار پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ابتدا تین بار "أستغفر الله” کہنے سے ہوتی ہے۔ گویا نمازی اپنے اللہ سے معافی مانگ رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ! میری نماز اور میرے خشوع و خضوع میں جو کوئی خلل آیا یا کوئی کمی رہ گئی، وہ معاف فرما دے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ فرائض سے پہلے اور بعد کی سنن اور نوافل کا خاص اہتمام کیا جائے، کیونکہ ان سے فرائض اور ان میں خشوع کی کمی کا ازالہ ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا اسباب خشوع کے بعد اب ہم کچھ دوسرے امور کا تذکرہ کرتے ہیں۔