ایسا وقف مال جس سے فائدہ نہ اٹھایا جاتا ہو
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ایسا وقف مال جس سے فائدہ نہ اٹھایا جاتا ہو
اسے کنز بنانے کے مترادف ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎-‏ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ‎ [التوبة: 34 – 35]
”جو لوگ سونے چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے ۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پیس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو ۔“
ایک ضروری وضاحت
مساجد میں وقف شدہ اموال اگر تو اشیائے ضروریہ ، تدریس العلوم ، تلاوت اور لوازماتِ نماز وغیرہ کے لیے ہوں تو باعث اجر و ثواب ہیں اور پھر کسی مسلمان کے لیے بھی ان سے اپنی ذاتی ضرورت کے لیے کچھ لینا جائز نہیں اور اگر محض تزئین و آرائش اور حسن و زیبائش کے لیے ہوں تو انہیں لے کر مسلمانوں کی حوائج و مصالح میں صرف کرنا دو وجوہات کی بنا پر لازم ہے ۔
➊ کیونکہ یہ عمل منکر ہے کہ مال کو ایک جگہ جمع کر کے رکھ دیا جائے لٰہذا اس سے روکنا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے۔
➋ مال کا ضیاع اسلام میں ممنوع ہے ۔
[الروضة الندية: 339/2 – 340]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1