سوال:
اہل ہنود کے مرنے والے نابالغ بچے جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟
جواب:
مشرکین کے نابالغ بچے فوت ہو جائیں تو وہ کہاں ہوں گے، جنت میں یا جہنم میں؟ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دس اقوال ذکر کیے ہیں۔
(فتح الباری: 3/246-247)
راجح محقق اور کتاب وسنت سے مؤید قول کے مطابق وہ جنت میں ہوں گے۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
(الإسراء: 15)
ہم (کسی قوم کو) تب تک عذاب نہیں دیتے، جب تک (ان میں) رسول مبعوث نہ کر دیں۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا، مکلف نہیں بنتا اور نہ اس کے لیے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
(شرح مسلم: 16/208)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرمان باری تعالیٰ:
بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
(التکویر: 9)
کس گناہ کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا؟
❀ تفسیر میں فرماتے ہیں:
فيه دليل بين علىٰ أن أطفال المشركين لا يعذبون، وعلىٰ أن التعذيب لا يستحق إلا بذنب
اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ مشرکین کے نابالغ بچوں کو عذاب نہیں ہوگا، نیز دلیل ہے کہ عذاب گناہ کی وجہ سے ہی دیا جاتا ہے۔
(تفسیر القرطبی: 19/234)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل مولود يولد علىٰ الفطرة فأبواه يهودانه، أو ينصرانه، أو يمجسانه
پیدائش کے وقت ہر بچہ فطرت اسلام پر ہوتا ہے، پھر والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا عیسائی یا مجوسی۔
(صحیح البخاری: 1385؛ صحیح مسلم: 2658)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يخسف بأولهم وآخرهم، ثم يبعثون علىٰ نياتهم
ان کے پہلوں اور بعد والوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر روز محشر انہیں اپنے اپنے عقیدے پر اٹھایا جائے گا۔
(صحیح البخاری: 2118؛ صحیح مسلم: 2118)
مشرکین کے نابالغ بچے فطرت اسلام پر ہوتے ہیں۔ جب وہ اسی حالت میں فوت ہو جائیں تو انہیں فطرت اسلام پر اٹھایا جائے گا۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازہ کے لیے بلایا گیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس بچے کے لیے خوشخبری ہے! یہ تو جنت کی چڑیا ہے، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ گناہ کی عمر کو پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ تو اس کے برعکس ہے۔ عائشہ! اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا۔ ان کے مقدر میں جنت لکھ دی، جبکہ وہ ابھی اپنے آبا کی پشتوں میں تھے۔ اسی طرح جہنم کے لیے کچھ لوگ پیدا کیے، ان کے مقدر میں بھی جہنم لکھ دی، جبکہ وہ ابھی اپنے آبا کی پیٹھوں میں تھے۔
(صحیح مسلم: 2662)
❀ اس حدیث کی شرح میں حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
مسلمانوں کے معتبر علما کا اجماع ہے کہ مسلمان کا نابالغ بچہ فوت ہو جائے تو وہ جنت میں ہوگا۔ اہل علم نے (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا) کا جواب یہ دیا ہے کہ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جلد بازی کرتے ہوئے قطعیت کے ساتھ حکم لگانے سے منع کیا ہو، حالانکہ سیدہ کے پاس کوئی قطعی دلیل نہ تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس وقت کہی ہو، جب ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (وحی کے ذریعہ) یہ علم نہ ہوا ہو کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہوں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس بات کا علم ہوا، تو بیان فرما دیا۔
(شرح مسلم: 16/207)
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(میں نے خواب دیکھا) باغیچے میں موجود دراز قد شخصیت سیدنا ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ان کے اردگرد چھوٹے بچے تھے، جو بچپن میں ہی فطرت پر فوت ہو گئے۔ کسی مسلمان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ مشرکین کے بچے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، مشرکین کے بچے تھے۔
(صحیح البخاری: 7047)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
هذا الحديث الصحيح صريح فى أنهم فى الجنة، ورؤيا الأنبياء وحي
اس صحیح حدیث میں صراحت ہے کہ مشرکین کے بچے جنت میں ہیں۔ یاد رہے کہ انبیا کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
(طریق الہجرتین: 391)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
الصحيح الذى ذهب إليه المحققون أنهم من أهل الجنة
راجح موقف یہ ہے، جو محققین نے اختیار کیا ہے کہ مشرکوں اور کافروں کے بچے جنت میں ہیں۔
(شرح مسلم: 16/208)
نیز لکھتے ہیں:
راجح یہی ہے کہ مشرک کا بچہ جنت میں ہے۔ حدیث مبارک: ”اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کریں گے۔“ کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں صراحت نہیں کہ مشرکین کے بچے جہنم میں ہوں گے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اگر وہ بالغ ہوتے، تو کیا عمل کرتے؟ جبکہ وہ بالغ ہی نہیں ہوئے، کیونکہ انسان بلوغت کے بعد ہی مکلف ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ بچہ جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا تھا، تو اس کی تفسیر و تاویل ضروری ہے، کیونکہ اس بچے کے والدین مومن تھے، اس لحاظ سے وہ بچہ بھی مسلم ہوا۔ تو اس کی تاویل یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر یہ بچہ بالغ ہوتا، تو کافر ہو جاتا، یہ مطلب نہیں کہ بچپن میں ہی کافر تھا، اس عمر میں تو اس پر کفر والے احکام لاگو نہیں ہوتے۔
(شرح مسلم: 16/208)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) نے بھی اسی مذہب کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے۔
(فتح الباری: 3/247)
❀ علامہ ابوالحسن عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ (1414ھ) فرماتے ہیں:
مشرکین کے بچے بھی جنت میں ہوں گے۔ یہی قول محقق، صحیح اور کتاب وسنت کے دلائل سے مؤید ہے۔ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا اور اس جیسی دیگر احادیث کا معنی یہ ہوگا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمائی تھی، جب ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بذریعہ وحی) ان کے جنتی ہونے کی خبر نہیں دی گئی تھی۔
(مرعاة المفاتیح: 1/199)
مشرکین اور کفار کے نابالغ بچے جنت میں جائیں گے۔ یہی راجح موقف ہے۔