اہل حدیث نام کی اہمیت اور حق کی پہچان
اصل مضمون ابو یحییٰ امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اہل حدیث ہی اہل حق ہیں

اہل حدیث کا لقب کسی گمراہی کو قبول نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے جب کوئی شخص گمراہ ہو جاتا ہے، تو وہ اہل حدیث سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر باطل اور گمراہ فرقے کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ دنیا میں اہل حدیث کہلوانے والا کوئی باقی نہ رہے۔ مگر ان کا یہ خواب نہ پہلے کبھی پورا ہوا اور نہ آئندہ ہو گا، ان شاء اللہ۔

درحقیقت، یہ ناپاک خواہش رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو سلف صالحین، ائمہ دین، اور محدثین کے منہج اور عقیدے کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ سلف صالحین کے عقائد اور اعمال کو ختم کر دیا جائے اور لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ سلف صالحین کا دین قابلِ اتباع نہیں ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں محدثین ہی وہ لوگ تھے جو اہل حق تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو قرآن و سنت کو بہتر طور پر سمجھتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ اسی لیے ان کا لقب طائفہ منصورہ اور اہل حدیث رکھا گیا، اور جو لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہتے ہیں۔

اہل حدیث ہی اہل حق کیوں ہیں؟

وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ (الاعراف: 7:181) ’’ہم نے اپنی مخلوق میں سے ایک گروہ کو پیدا کیا جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اس کے مطابق انصاف کرتا ہے۔‘‘

یہ آیت ان اہل حق کے بارے میں ہے جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِي ظَاہِرِینَ عَلَی الْحَقِّ حَتّٰی یَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰہُ ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے گا۔‘‘ (قطف الأزھار المتناثرۃ في الأحاديث المتواترۃ، للسیوطي: 81)

طائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث

محدثین اور ائمہ اہل سنت کے مطابق، اس حدیث میں مذکور طائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث ہیں۔ اس کی تفصیل میں کئی آئمہ کرام نے وضاحت کی ہے:

➊ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر یہ طائفہ منصورہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: 2)

➋ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک وہ (طائفہ منصورہ) اہل حدیث ہی ہیں۔‘‘ (شرف أصحاب الحدیث للخطیب البغدادي، ص: 42)

➌ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ (طائفہ منصورہ) اہل حدیث ہی ہیں۔‘‘ (سنن الترمذی، ح: 2229)

➍ امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر وہ (طائفہ منصورہ) اہل حدیث نہیں ہیں، تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔‘‘ (مسئلۃ الاحتجاج بالشافعي للخطیب، ص: 33)

➎ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد اہل حدیث ہیں۔‘‘ (مسئلۃ الاحتجاج بالشافعي، ص: 33)

➏ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کی بہترین تفسیر کی ہے کہ طائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث ہی ہیں، جنہیں قیامت تک ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھا گیا ہے۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: 2)

➐ امام اسماعیل بن محمد اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اہل حدیث ہی وہ حق پر غالب رہنے والا گروہ ہے جو قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘ (الحجۃ في بیان المحجۃ، 1: 262)

➑ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کو دین کا محافظ بنایا ہے اور مخالفین کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا ہے۔‘‘ (شرف أصحاب الحدیث، ص: 39)

یہ تمام آئمہ کرام متفق ہیں کہ طائفہ منصورہ وہی ہیں جو اہل حدیث کہلاتے ہیں، کیونکہ وہی لوگ قرآن و سنت کی صحیح رہنمائی اور پیروی کرتے ہیں، اور اہل بدعت اور سنت کے مخالفین کے خلاف علم کا دفاع کرتے ہیں۔

اہلِ حدیث کا عقیدہ و منہج

اہلِ حدیث کا عقیدہ اور منہج وہی ہے جو محدثین کرام کا تھا۔ ہم اس سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کرتے کیونکہ ہمارے نزدیک محدثین کرام سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اہل حدیث قرآن و حدیث، اجماعِ امت، اور اجتہادِ شرعی کو حق تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نزدیک قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو محدثین کا متفقہ فہم ہے۔ کوئی بھی ایسا اجماع جو محدثین سے ثابت ہو، اہل حدیث کبھی اس کا انکار نہیں کرتے۔ دینی مسائل میں اہل حدیث ہمیشہ اسلافِ امت اور محدثین کرام کے اجتہادات کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسلاف کے اقوال

➊ امام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سلف (محدثین) کے آثار کو لازم پکڑو، اگرچہ لوگ تمہیں چھوڑ دیں۔ بدعتی لوگوں کی آراء سے بچو، چاہے وہ انہیں خوبصورت بنا کر پیش کریں۔ بلاشبہ ایسا کرنے سے تمہارا معاملہ صاف ہو جائے گا اور تم صراط مستقیم پر چلتے رہو گے۔” (شرف اصحاب الحدیث للخطیب: 6)

➋ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ہم اہل سنت والجماعت کی اتباع کرتے ہیں اور شذوذ، اختلاف اور تفرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔” (کتاب اصل السنۃ واعتقاد الدین)

➌ علامہ ابو المظفر سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اہل سنت (اہل حدیث) کا شعار سلف صالحین کی پیروی اور ہر بدعت کو ترک کرنا ہے۔” (الحجۃ فی بیان المحجۃ، 395/1)

اہل حدیث لقب پر اعتراضات کا تجزیہ

اہل حدیث کے لقب پر مختلف اعتراضات کیے جاتے ہیں، جن کا یہاں مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:

1. "ہمارا نام صرف مسلمان ہونا چاہیے”

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ نے ہمارا نام صرف "مسلمان” رکھا ہے، اور جو کوئی اپنے آپ کو اہل سنت یا اہل حدیث کہے، وہ کافر یا مشرک ہو جاتا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں قرآن میں صرف "مسلمان” کا نام دیا ہے۔

لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ ہمارا نام صرف "مسلمان” ہونا چاہیے اور کوئی اور نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ قرآن کی جس آیت سے یہ دلیل دی جاتی ہے، وہ یہ ہے: هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا (الحج: 78) ’’اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا، اس سے پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی۔‘‘

اس آیت میں کوئی کلمہ حصر استعمال نہیں کیا گیا، جو ثابت کرے کہ ہمارا نام صرف "مسلمان” ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دیگر ناموں سے بھی پکارا ہے، جیسے:

  • مسلمان
  • مؤمن
  • عباد اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارا نام مسلمان، مؤمن اور عباد اللہ رکھا ہے۔‘‘ (سنن الترمذی: 2863)

اسی طرح، قرآن میں "مہاجرین” اور "انصار” جیسے نام بھی مسلمانوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں: لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْاَنْصَارِ (التوبۃ: 117) ’’یقیناً اللہ نے اپنے نبی پر اور مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی۔‘‘

یہ نام مسلمانوں کی مذہبی حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں، اور ان کی بنیاد پر کسی کو کافر یا مشرک قرار دینا درست نہیں۔

2. "مذہبی نام صرف مسلم ہونا چاہیے”

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اہل سنت اور اہل حدیث جیسے مذہبی نام رکھنا ناجائز ہیں کیونکہ اللہ نے ہمیں صرف "مسلمان” کہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہبی کارناموں کی بنیاد پر نام رکھنا قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ جیسے:

  • "مہاجرین” کو ہجرت کی بنا پر
  • "انصار” کو مدد کے دینی کارنامے کی بنا پر یہ نام دیا گیا۔

اسی طرح، قرآن و سنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کو "اہل سنت” یا "اہل حدیث” کہنا جائز ہے۔

3. سابقہ امتوں کے نام

پہلی امتوں میں بھی دین اسلام تھا، لیکن ان کے پیروکاروں کو "یہودی” اور "نصرانی” جیسے نام دیے گئے تھے۔ یہ لوگ اگر توحید پر قائم تھے تو جنت میں داخل ہوں گے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا (البقرۃ: 62)

اسی طرح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کچھ لوگ اہل توحید تھے اور ان کا دین نصرانیت تھا، جیسے ورقہ بن نوفل۔

خلاصہ

اہل حدیث کا عقیدہ اور منہج وہی ہے جو سلف صالحین اور محدثین کا تھا۔ دینی مسائل میں اسلاف کی پیروی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ "مسلمان” کے علاوہ اہل حدیث یا اہل سنت جیسے نام قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہیں اور ان پر اعتراضات درست نہیں۔ اصل اہمیت عقیدہ اور منہج کی ہوتی ہے، نہ کہ محض نام کی۔

اہل حدیث تو محدثین تھے!

کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل حدیث صرف محدثین تھے اور ان کے بعد کوئی اہل حدیث نہیں ہو سکتا۔ اس اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیال میں محدثین کرام کو ماننے والے نہ پہلے موجود تھے اور نہ اب کوئی ان کے عقیدے اور عمل کو سمجھتا اور اپناتا ہے۔ یہ مفروضہ اگر درست ہوتا تو گمراہ فرقوں کو آزادانہ پھیلنے کا موقع مل جاتا اور دینِ محمد ﷺ کے دشمن خوش ہو جاتے۔

لیکن کسی نے کبھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ دیوبند کے بانیان ہی دیوبندی تھے اور ان کے بعد کوئی دیوبندی نہیں ہو سکتا، یا احمد رضا خان کے بعد کوئی بریلوی نہیں ہو سکتا۔ جیسے دیوبندی اور بریلوی طریقہ اپنانے والے دنیا کے کسی بھی خطے میں اس نام سے پہچانے جا سکتے ہیں، اسی طرح محدثین کرام کے منہج کو اپنانے والے بھی اہل حدیث کہلائے جا سکتے ہیں۔

اہل حدیث کی دو اقسام

اہل حدیث کی دو قسمیں ہیں:

  1. پہلی قسم: وہ محدثین کرام جو حدیث کی روایت، جمع، اور فہم میں مصروف رہے۔ انہوں نے حدیث کو محفوظ کیا اور اس کے معنی و مفہوم کو درست طور پر سمجھا۔
  2. دوسری قسم: وہ لوگ جنہوں نے محدثین کے فہم دین کو اپنایا، ان کی تعبیرات کو حق تسلیم کیا اور انہی کے عقیدے اور منہج پر اپنی زندگی گزاری۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اہل حدیث سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو حدیث کو سننے، لکھنے یا روایت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جو حدیث کو یاد کرتا، سمجھتا، اور اس پر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے بھی اہل حدیث ہیں۔” (مجموع الفتاویٰ: 95/4)

اہل حدیث کا فہم دین

اہل حدیث وہی لوگ ہیں جو محدثین کرام سے علم حاصل کرتے ہیں، ان کی تعلیمات کو اپناتے ہیں، اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ جیسے امام ابو حنیفہ کے ماننے والے حنفی کہلائے، اسی طرح محدثین کے پیروکار اہل حدیث کہلاتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر فقہ حنفی کے اَن پڑھ پیروکار بھی حنفی کہلائے جا سکتے ہیں تو محدثین کے فہم کو اپنانے والے کیوں اہل حدیث نہیں کہلا سکتے؟

نتیجہ

اہل حدیث کا لقب صرف محدثین کے لیے مخصوص نہیں بلکہ وہ لوگ جو محدثین کے علم اور فہم دین کو لے کر عمل کرتے ہیں، وہ بھی اہل حدیث کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔

اہل سنت ہونا چاہیے، اہل حدیث نہیں!

بعض لوگ اہل سنت کہلانے پر اعتراض نہیں کرتے، لیکن لقب "اہل حدیث” سے خاص قسم کی دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ ان دونوں القاب میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ اگرچہ سنت اور حدیث میں کچھ فرق ہے، لیکن حدیث ایک وسیع تر اصطلاح ہے، جو قرآن اور رسول ﷺ کے اسوہ دونوں پر مشتمل ہے۔ سنت کا اطلاق صرف رسول ﷺ کے عمل پر ہوتا ہے، جبکہ حدیث کا اطلاق قرآن پر بھی ہوا ہے۔ اس طرح "اہل حدیث” کا مطلب ہے وہ لوگ جو قرآن اور اسوہ رسول کو اپنا دستورِ زندگی مانتے ہیں، جبکہ "اہل سنت” کا مطلب ہے وہ لوگ جو صرف اسوہ رسول کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔

یہ فرق ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کیا گیا ہے جو "اہل سنت” کو قبول کرتے ہیں اور "اہل حدیث” کے نام سے چڑتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں۔ تاریخی طور پر جب مسلمانوں نے دشمنانِ اسلام، خاص طور پر روافض، سے خود کو الگ تشخص دینے کی کوشش کی تو وہ "اہل سنت” کہلائے۔ بعد ازاں، جب اہل سنت نے بدعات کے حامل گروہوں سے الگ ہونے کی ضرورت محسوس کی تو انہوں نے اپنے آپ کو "اہل حدیث” کہنا شروع کیا۔

اہل سنت اور اہل حدیث کا تعلق

اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی جماعت کے نام ہیں، جیسا کہ محدثین اور دیگر علماء نے وضاحت کی ہے:

➊ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ کا لونڈی سے سوال کہ اللہ کہاں ہے؟ اسی عقیدے کے مطابق اہل سنت کا ایمان ہے، اور اہل سنت ہی اہل حدیث ہیں۔‘‘ (الاستذکار: 7/337)

➋ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بلاشبہ اہل سنت کا ایک ہی نام ہے، اور وہ اہل حدیث ہے۔‘‘ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق: 71/1)

یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی گروہ ہیں۔ محدثین کرام ایک ہی وقت میں خود کو اہل سنت اور اہل حدیث کہلاتے تھے، اور آج بھی اگر اہل سنت خود کو اہل حدیث کہلائیں تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔

ایک مثال سے وضاحت

اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تمام شہری پاکستانی کہلاتے ہیں، لیکن لاہور میں رہنے والا شخص "لاہوری” اور پشاور میں رہنے والا شخص "پشاوری” بھی کہلاتا ہے۔ دونوں کی شناخت پاکستانی ہے، لیکن جغرافیائی طور پر وہ مختلف ناموں سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ اسی طرح، مسلمان روافض کے مقابلے میں اہل سنت کہلا سکتے ہیں، اور اہل بدعت کے مقابلے میں اہل حدیث کہلانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

منہج کی مخالفت

اگر کوئی شخص یا گروہ اہل سنت و اہل حدیث کے منہج اور عمل کی مخالفت کرتا ہے تو ان سے یہ سوال بجا طور پر کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل سنت یا اہل حدیث کیوں کہہ رہے ہیں، جب کہ ان کے منہج سے اختلاف رکھتے ہیں؟

اصلی اہل سنت کون؟

اصطلاحِ اہل سنت دو مختلف طریقوں سے استعمال ہوتی ہے: ایک عام اور دوسرا خاص۔

1. عام اطلاق:

عام طور پر اہل سنت کی اصطلاح شیعہ کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے۔ یعنی شیعہ کے علاوہ جو بھی فرقے اسلام کی طرف منسوب ہوں، انہیں اہل سنت کہا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لفظ اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جو خلفائے ثلاثہ (سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو حق تسلیم کرتے ہیں۔ اس میں روافض کے علاوہ تمام گروہ شامل ہیں۔‘‘ (منہاج السنۃ النبویہ: 221/2)

2. خاص اطلاق:

خاص طور پر اہل سنت کا اطلاق ان تمام اہل بدعت اور ضال فرقوں جیسے شیعہ، خوارج، جہمیہ، معتزلہ، مرجیہ، اور اشاعرہ کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اس اطلاق کے تحت اہل سنت وہ ہیں جو ہر قسم کی گمراہی سے پاک ہیں اور انہیں محدثین کرام کے مطابق "اہل حدیث” کہا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کبھی لفظ اہل سنت سے مراد اہل حدیث ہوتے ہیں، جو اصل اہل سنت ہیں۔ ایسی صورت میں اہل سنت میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو تمام صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں، قرآن کو غیر مخلوق مانتے ہیں، اور قیامت کے دن اللہ کے دیدار پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (منہاج السنۃ النبویہ: 221/2)

اہل سنت اور اہل حدیث کی حقیقت

اس بنا پر اہل سنت کا لقب صرف اہل حدیث کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ اہل حدیث ہی وہ گروہ ہیں جو اللہ کی تمام صفات کو بغیر تاویل، تمثیل، یا تحریف کے مانتے ہیں۔ یہ لوگ صفاتِ باری تعالیٰ اور عقیدۂ توحید میں سلف صالحین کے منہج پر عمل پیرا ہیں۔

احناف مقلدین صرف سات صفات (سمع، بصر، علم، کلام، قدرت، ارادہ، حیات) کا اثبات کرتے ہیں اور باقی صفات میں تاویلات کرتے ہیں، جبکہ اہل حدیث ہر دور میں صفاتِ الٰہی کو ان کے ظاہر پر قبول کرتے ہیں، بغیر کسی تاویل یا تحریف کے۔

اہل سنت کا اصلی منہج

اہل سنت والجماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو سلف صالحین کے عقیدہ و منہج کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے اجماع کو شرعی حجت مانتے ہیں۔ اہل بدعت و ضلالت کبھی ائمہ سلف کے عقائد کو اپنانے والے نہیں ہو سکتے۔ یہ لوگ ائمہ سلف کے اجماع کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے انہیں اہل سنت کا لقب استعمال کرنے کا حق نہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بہت سے لوگ اپنے گروہ کو اہل سنت والجماعت قرار دیتے ہیں، جبکہ اپنے مخالفین کو اہل بدعت کہتے ہیں۔ یہ ایک واضح گمراہی ہے۔ اصل اہل سنت وہی لوگ ہیں جو صرف رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے اقوال اور اعمال ہی سب سے زیادہ معتبر ہیں اور وہی صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے والے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاوی: 346-348/3)

کیا لفظ "اہل حدیث” دعوت میں رکاوٹ ہے؟

بعض لوگ اہل حدیث نام کو حق مانتے ہیں، لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ دعوت دینے میں یہ نام رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو صرف "قرآن و سنت کے پیروکار” کہا جائے اور اہل حدیث کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔

مگر حقیقت میں محدثین کرام ہمیشہ اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہتے اور کہلواتے تھے، حالانکہ ان کے زمانے میں بھی اس نام سے لوگوں کو چِڑ تھی۔ اس کے باوجود، محدثین نے اپنے لقب کو کبھی ترک نہیں کیا۔

خلاصہ

اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں، اور حقیقی اہل سنت وہی ہیں جو سلف صالحین کے منہج اور عقیدے کی پیروی کرتے ہیں۔

اہل حدیث نام کی ضرورت و اہمیت

اہمیت اور امتیاز:

"اہل حدیث” نام اہل حق اور اہل باطل کو ممتاز کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس نام کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ شخص قرآن و حدیث کو صحابہ کرام اور محدثین کے فہم و منہج کے مطابق سمجھتا اور ان کے عمل کو اپناتا ہے۔ اس کے برعکس اہل الرائے اور اہل تقلید سے بری رہتا ہے اور سلف صالحین کا ساتھی ہوتا ہے، نہ کہ مقلدین یا متکلمین کا۔

حق کی تلاش:

اہل حدیث کے بغیر حق کی تلاش اور پہچان مشکل ہے، کیونکہ ہر گمراہ فرقہ بھی قرآن و سنت کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اہل حق صرف وہی ہیں جو خود کو "اہل حدیث” کہتے ہیں۔

استقامت اور یقین:

اہل حدیث نام اہل حق کے لیے استقامت اور یقین کا ذریعہ ہے کیونکہ محدثین کرام اور سلف صالحین کے اہل حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر وہ اہل حق ہیں، تو ان کے پیروکار بھی یقیناً اہل حق ہیں۔

وحدت امت کا ذریعہ:

"اہل حدیث” نام ہی امت کی وحدت کا معتبر ذریعہ ہے، کیونکہ فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس نام میں دین اسلام کی سرفرازی ہے اور یہی غلبۂ حق کی علامت ہے، کیونکہ اس کے ذریعے اہل حق کو فتح نصیب ہوتی ہے اور اہل باطل کو شکست۔

اہمیتِ اجماع اور محدثین کا فہم:

اہل حدیث نام رکھنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان محدثین کرام کے اجماع کو حجت مانتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ اہل حق اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے تھے، اور کبھی باطل پرستوں نے اس نام کو اپنانے کی جرأت نہیں کی۔

دعوت میں نام کی رکاوٹ؟

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ "اہل حدیث” کا نام دعوت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن محدثین کرام ہمیشہ اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہتے تھے اور ان کے زمانے میں بھی اس نام سے لوگوں کو چڑ تھی، لیکن اس کے باوجود دین اسلام کو غلبہ حاصل ہوا۔

اہل حدیث اور فرقہ واریت:

کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل حدیث نام سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے، لیکن یہ اعتراض براہِ راست سلف صالحین پر ہوتا ہے۔ محدثین کرام اور ائمہ سلف کے اجماعی لقب "اہل حدیث” کو ترک کرنے سے فرقہ واریت کی روک تھام نہیں ہو سکتی۔

اہل حدیث کا نام فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ محدثین کرام نے کبھی اپنے نام کو ترک نہیں کیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا ہوا۔

اہل حدیث نام کی بشاشت:

اہل حدیث کے دلوں میں بشاشت و اطمینان ہوتا ہے اور ان میں عقیدے و منہج کے اختلافات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اختلاف ہوتا بھی ہے تو وہ فروعی نوعیت کا ہوتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام کے دور میں بھی تھا۔

بدنام کرنے کی کوشش:

کچھ لوگ اہل حدیث کو بدنام کرنے کی کوشش میں ان پر غلط الزامات لگاتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ڈرنا چاہیے: وَالَّذِینَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِینًا (الاحزاب 33:58)

فرقہ ناجیہ کی پہچان:

اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ قرار دیا گیا ہے اور وہی لوگ ہیں جو سلف صالحین کے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: "اہل سنت والجماعت کا حقیقی گروہ اہل حدیث ہی ہیں، اور یہ وہی لوگ ہیں جو صحیح منہج پر کاربند ہیں۔” (منہاج السنہ: 221/2)

اہل حدیث کا نام ترک کرنا دراصل سلف صالحین سے تعلق توڑنا ہے، جو حق کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا شعار ہے۔

خلاصہ:

"اہل حدیث” نام دینِ حق اور سلف صالحین کے فہم پر عمل پیرا ہونے کا مظہر ہے، اور اس نام کو اپنانا وحدت امت اور حق کی پہچان کا ذریعہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!