اہلِ بدعت کا ذبیحہ
تحریر : حافظ زبیر علی زئی

سوال : اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے ؟
پاکستان کے قصابوں کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے ؟
جبکہ اکثریت قصابوں کی بے دین ہے ۔
ان آثار کی سند کیسی ہے ؟
➊ سعید بن منصور نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، کہتے ہیں : سوائے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے کسی اور کا ذبیحہ مت کھاؤ ۔
[كشاف القناع۶؍۲۰۵]
➋ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک مسلمان آدمی ذبیحہ کرتے وقت بسم اللہ بھول جائے تو ؟ ابن عباس نے کہا کہ” وہ ذبیحہ کھایا جائے گا ۔“ سوال ہوا :“ اگر مجوسی بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے تو؟ ’’ انہوں نے فرمایا کہ” وہ ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا ۔ “
[المستدرك للحاكم ۴؍۲۳۳ح ۷۵۷۲]
➌ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ایسے علاقے میں آگئے ہو جہاں مسلمان قصاب نہیں ہیں بلکہ نبطی یا مجوسی ہیں لہٰذا جب گو شت خریدو تو معلوم کیا کرو ، اگر وہ یہودی یانصرانی کا ذبح کیا ہوا ہو تو کھاؤ ، ان کا ذبیحہ اور کھانا تمہارے لئے حلال ہے ۔
[مصنف عبدالرزاق ۴؍۴۸۷ح۸۵۷۸]
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا تابعین میں سے کوئی بھی مشرکین کے ذبیحے کے جواز کا قائل ہے ؟
براہِ مہربانی اس مسئلے کی تفصیلاً راہنمائی فرمائیں ۔
اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کو حرام قرار دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں :
➊ ذبیحہ کرنا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی عبادت قبول نہیں کرتا ۔
➋ اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کے حرام ہونے پر اجماع ہے ۔ (یہ) امام احمد اور ابن تیمیہ نے کہا ہے ۔
➌ قرآن مجید میں اہلِ کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ باقیوں کا حرام ہے ۔
[سيد عبدالسلام زيدي ، عبدالحكيم ضلع خانيوال]

الجواب : الحمد لله رب العالمين و الصلوٰة والسلام عليٰ رسوله الأمين ، أما بعد :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ ﴾
جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کانام لیا جائے تو اس میں سے کھاؤ ۔ [ الانعام : ۱۱۸]
اس آیتِ کریمہ اور دیگر دلائل کی رُو سے اس پر اتفاق ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان کا ذبح شدہ حلال جانور حلال ہے بشرطیکہ وہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کانام لے اور کوئی شرعی مانع (رکا وٹ) نہ ہو ۔ دیکھئے
[موسوعة الاجماع فى الفقه الاسلامي۲؍۴۴۸]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے پاس گو شت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتاکہ انہوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کانام لیا ہے یانہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سموالله عليه وكلوا اس پر اللہ کانام لے لو اور کھاؤ ۔
[صحيح بخاري : ۲۰۵۷ ، ۷۳۹۸]
اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کانام لیا تھا یانہیں ؟اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کانام نہیں لیا گیا تو یہ ذبیحہ حرام ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَا تَاْ كُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَاِنَّه لَفِسْقٌ ﴾
اور جس پر اللہ کانام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بے شک یہ فسق ہے ۔ [ الانعام : ۱۲۱]
اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) اگر حلال جانور پر اللہ (خدا) کانام لے کر ذبح کریں تو یہ جانور حلال ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُو الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ﴾
”اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے ۔ “ [المآئدة : ۵]
اس آیت کی تشریح میں اہلِ سنت کے مشہور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اور اہلِ کتاب ، یہود و نصاریٰ کے ذبیحے تمہارے لئے حلال ہیں ۔ [ تفسير طبري۶؍۶۴]
امام ابن شہاب الزہری نے عرب کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ذبیحے کھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہیں اور اللہ کانام لیتے ہیں ۔
[تفسير طبري ۶؍۶۵و سنده صحيح]
نیز دیکھئے :
[صحيح بخاريقبل ح ۵۵۰۸]
اس پر اجماع ہے کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی کا ذبیحہ حلال ہے ۔ (بشرطیکہ وہ اللہ کانام لے) دیکھئے :
[تفسير ابن جرير طبري۶؍۶۶]
اس پر اجماع ہے کہ اہلِ اسلام ، یہود اور نصاریٰ کے علاوہ تمام ا دیان مثلاًً ہندو ، بدھ مذہب اور سکھ وغیرہ کفار و مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ مرتد اور زندیق کا ذبیحہ حرام ہے لہٰذا مرزائی ، بہائی ، نُصیری اور درُوز وغیرہ مرتدین کے ذبائح حرام ہیں ۔

کلمہ گو اور اسلام کے دعویداروں کے دو بڑے گر وہ ہیں :
اول : اہلِ سنت(صحیح العقیدہ لوگ)
دوم : اہل بدعت (بدعقیدہ لوگ)

عقیدے کے لحاظ سے اہلِ سنت کے دو گر وہ ہیں :
➊ صالح اعمال والے
➋ فاسق و فاجر

اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ترکِ صلوٰۃ ہے ۔
بعض علماء کے نزدیک تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور بعض اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں ۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کر دئیے ہیں ۔ محدث البانی رحمہ اللہ اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے ۔
محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا :” بے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کو کھاناجائز ہے یا نہیں؟ “ تو انہوں نے جواب دیا : بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یاسب نمازوں کاکیونکہ مَنْ تَرَكَ الصَّلٰوةَ مُتَعَمَّدًا فَقَدْكَفَرَ عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارکِ صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کے ذبیحہ کا حکم سووہ اہلِ کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہو سکتا ہے خواہ نیک زبح کرنے والا پاس موجود ہو یانہ ، ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہئیے ۔ حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے۔
[فتاويٰ اهلِ حديث ج ۲ص ۶۰۴]
ہمارے استاد محتر م حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا: گیا :
” بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟ “ تو انہوں نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُو الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلُّ لَّهُمْ﴾ آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے ۔
عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہلِ کتاب تو ہیں ہی ۔ ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کانام لیا گیا ہو تو وہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکانمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَلَا تَاْ كُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ﴾
اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے
نیز فرمایا :
﴿وَمَآاُهِلَّ لِغِيْرِ اللهِ بِهٖ﴾
اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا ۔
[احكام و مسائل ج ۱ص ۴۵۲]
حافظ عبدالمنان حفظہ اللہ سے کسی شخص نے پوچھا:
” بازاری گو شت کیسا ہے حلال یا حرام؟ جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور ان کا عقیدہ تو ماشا ء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے ؟ “
حافظ صاحب نے جواب دیا :
حلال ہے کیونکہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہلِ کتاب کافر بھی ہیں اور مشرک بھی ۔ پاکستان کے قصاب بہر حال اہلِ کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَرُ پڑھتے ہوں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلَا تَأْ كُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللهِ عَلَيْهِ﴾
اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا ۔
[احكام و مسائل۱؍۴۵۲]
اس مسئلے میں راجح یہی ہے کہ جو شخص مطلقاً ہمیشہ کے لئے تارک الصلوٰۃ ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے ۔

اہلِ بدعت : بدعت کی دو بڑی قسمیں ہیں :
بدعتِ صغریٰ
غير مُكَفِّرَو وغير مُفَسِّقَه
مثلاًً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھنا ۔
بدعتِ کبریٰ
مكفره و مفسقه
اس کی دو قسمیں ہیں :
بدعتِ مکفرہ
مثلاًً یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید مخلوق ہے ۔
بدعتِ مفسقہ
مثلاًً صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بُرا کہنا ۔

بدعتِ کبریٰ کے تحت تمام خوارج ، روافض ، معتزلہ ، جہمیہ اور منکرینِ حدیث آتے ہیں ۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیشِ خدمت ہیں :
➊ جو مشرکین ہندو مذہب یا بدھ مزہب وغیرہ ماسے تعلق رکھتے ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے ۔
➋ پاکستان میں جو ہندو یا بدھ وغیر ہما قصائی ہیں تو ان کا ذبیحہ حرام ہے ۔ جو مسلمان صحیح العقیدہ قصائی ہیں ان کا ذبیحہ حلال ہے ۔ جو مرتدین و کفار ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے اور جو مبتدعین (اہلِ بدعت) ہیں ، اگر وہ اللہ کانام لے کر حلال جانور ذبح کریں تو یہ گو شت حلال ہے ۔

اہلِ بدعت کی روایات صحیحین میں موجود ہیں مثلاًً :
➊ خالد بن مخلد : صحیحین کا راوی خالد بن مخلد ثقہ و صدوق ہے ، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے ۔ ابن سعد نے کہا:
وكان منكر الحديث ، فى التشيع مفرطاً
”وہ تشیع میں افراط کرنے والا ، منکر حدیثیں بیان کرنے والا تھا ۔“ [طبقات ابن سعد ۶؍۴۰۶]
جوز جانی نے کہا:
كان شتاماً معلناً بسوء مذهبه
”وہ (صحابہ کو) گالیاں دینے و الا تھا ، اپنے بُرے مذہب کا اعلان کرنے والا تھا ۔“
[احوال الرجال : ۱۰۸]
➋ علی بن الجعد : صحیح بخاری کا راوی اور ثقہ عند الجمہور (صحیح الحدیث) تھا ۔
اس نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا:
أخذ من بيت المال مائة ألف درهم بغير حق
”اس نے بیت المال سے ایک لاکھ درہم نا حق لئے ۔ اس پر یہ قسم بھی کھاتا تھا ۔“ [تاريخ بغداد ۱۱؍۳۶۴ و سنده حسن]
➌ عباد بن یعقو ب :
صحیح البخاری کا راوی اور موثق عند الجمہور (حسن الحدیث) تھا ۔
امام ابن خزیمہ نے فرمایا :
ناعباد بن يعقو ب . المتهم فى رأيه ، الثقة فى حديثه ’”’ ہمیں عباد بن یعقو ب نے حدیث سنائی ، وہ اپنی رائے میں مہتم تھا اور اپنی حدیث میں ثقہ تھا ۔“
[صحيح ابن خزيمه : ۱۴۹۷]
یہ تشیع میں غالی تھا اور سلف (صحابہ و تابعین) کو گالیاں دیتا تھا ۔
دیکھئے : [الكامل لابن عدي۴؍۱۶۵۳۵؍۵۵۹]
حافظ ابن حبان نے کہا:
وكان رافضياً داعية إلى الرفض . .
”اور وہ رافضی تھا (اور) رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا ۔“ [ المجروحين ۲؍۱۷۲]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
صدوق رافضي
[تقريب التهذيب : ۳۱۵۳]
جب اہلِ بدعت (ثقۃ و صدوق عند الجمھور) کی روایات مقبول ہیں تو ان کا ذیحہ بھی حلال ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں :
فلنا صدقه و عليه بدعته
”پس اس کی سچائی ہمارے لئے ہے اور اس کی بدعت اسی پر و بال ہے ۔“
[ميزان الاعتدال ۱؍۵ترجمة ابان بن تغلب]
➌ جس قصاب کو آپ مرتد ، کار یا مشرک سمجھتے ہیں اور اس کا آپ کے پاس واضح ثبوت بھی ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھائیں ۔ رہے اہلِ بدعت تو دلائلِ مذکورہ کی رو سے ان کا ذبیحہ حلال ہے ۔
➍ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر ، سعید بن منصور سے باسند صحیح متصل نہیں ملا ۔ بے سندروایتیں مردود ہوتی ہیں ۔ سعید بن منصور سے لے کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک سند بھی نامعلوم ہے ۔
➎ اس روایت کی سند ضعیف ہے ۔ اسے ابن جریح نے عمر و بن دینار سے عن کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریح مشہور مدلس ہیں ۔
➏ حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ؍مصنف عبدالرزاق : اس روایت کی سند میں ابواسحاق السَّبِیعی مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے ۔
➐ میرے علم کے مطابق صحابہ کرام و تابعین میں سے کوئی بھی ہندو مشرکین وغیرہ کے ذبیحے کے جواز کا قائل نہیں ہے ۔ رہا مسئلہ اہلِ بدعت کا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ خارجیوں اور خشبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے ۔ دیکھئے :
[طبقات ابن سعد ۱؍۱۶۹ ، ۱۷۰ ، حلية الاولياء۱؍۳۰۹ وسنده صحيح]
آپ انہیں سلام بھی کہتے تھے ۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۳؍۱۲۲ ، وسنده صحيح]
آپ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے ۔ دیکھئے :
[ السنن الكبري للبيهقي ۳؍۱۲۱ ، ۱۲۲ ، وسنده حسن]
حجاج بن یوسف کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
وكان ظلوماً جبارًاناصيبًا خبيثًا . . .
اور وہ ظالم جبار (اور) ناصبی خبیث تھا ۔
[ سير اعلام النبلاء ۴؍۳۴۳]

تنبیہ :
واضح رہے کہ راجح یہی ہے کہ بدعتِ کبریٰ کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ۔ تفصیلی تحقیق کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب” بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم “

➑ ذبیحہ کرنا ایک عمل ہے جس کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہے ۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ” ذبیحہ کرنا عبادت ہے “ اس کی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے ۔
➒ اہلِ کتاب اور اہلِ سلام کے سوا تمام مشرکین و مرتدین و کفار کا ذبیحہ بلا شک و شبہ حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلِ اسلام (کلمہ گو مدعیانِ اسلام) میں سے اہلِ بدعت کا ذبیحہ بھی حرام ہے ۔
➓ یہود کے اکہتر اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جنہیں اہلِ کتاب سے خارج نہیں کیا گیا اور اسی طرح امتِ مسلمہ کے تہتر فرقے ہیں جن میں سے بہت فرقوں کی تکفیر کرنا اور امتِ مسلمہ سے خارج قرار دینا غلط ہے ۔ بس صرف یہ کہہ دیں کہ یہ فرقے گمراہ ہیں اور اہلِ بدعت میں سے ہیں یا ان کے عقائد کفریہ و شرکیہ ہیں ۔ ان تمام فرقوں کے ہر شخص کو متعین کر کے ، بغیر اقامتِ حجت کے کافر ، مشرک یا مرتد قرار دینا غلط ہے ۔

اس ساری بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے :
➊ کفار و مرتدین مثلاًً ہندو ، بدھ مذہب والوں ، مرزائیوں اور تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھنے و الوں کا ذبیحہ حرام ہے ۔
➋ اہلِ بدعت کلمہ گو فرقوں کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ وہ دینِ اسلام کے کسی ایسے عقیدے یا عمل کا انکار نہ کریں جو ضروریاتِ دین میں سے ہے ۔
➌ جس طرح اہلِ کتاب کے اکہتر یا بہتر فرقے اہلِ کتاب کے عمومی حکم میں شامل ہیں ، اسی طرح اہل ، اسلام کے تہتر فرقے ( جن میں فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ بھی شامل ہے) اہلِ اسلام کے عمومی حکم میں شامل ہیں ، اسی طرح اہلِ اسلام کے تہتر فرقے (جن میں فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ بھی شامل ہے) اہلِ اسلام کے عمومی حکم میں شامل ہیں ۔
➍ اہلِ بدعت سے محدثین کرام کا اپنی کتبِ صحاح میں روایات لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کا ذبیحہ حلال ہے ۔
➎ بہتر یہی ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کا ذبیحہ کھایا جائے ۔
➏ موجودہ دور میں اہلِ سنت کی طرف منسو ب دو بڑے فرقوں آلِ دیو بند اور آلِ بریلی کے عام عقائد ایک جیسے ہیں ۔ ان میں سے ایک فرقے کا ذبیحہ کھانا اور دوسرے کا ذبیحہ نہ کھانا کسی واضح دلیل سے ثابت نہیں ہے ۔
محمد یوسف لدھیانوی دیو بندی لکھتے ہیں :” میرے لئے دیو بندی بریلوی اختلاف ، کا لفظ ہی موجبِ حیرت ہے ۔ آپ سن چکے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ماننے یانہ ماننے کے مسئلے پر پیدا ہوا ، اور حنفی وہابی اختلاف ائمہ ہدیٰ کی پیروی کرنے نہ کرنے پر پیدا ہوا ۔ لیکن دیو بندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے ۔ “
[اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقيم ص۲۵]
➐ جس شخص کا اہلِ بدعت کے ذبیحے پر دل مطمئن نہیں ہے تو نہ کھائے مگر خوارج کی طرح تکفیری فتوے جاری کرتانہ پھرے ۔ ان اہلِ بدعت میں سے ایسے سادہ ہیرے بھی ملتے ہیں جنہیں جب کتاب و سنت کی دعوت پہنچتی ہے تو والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام کے لئے اپنی جانیں اور مال قربان کر دیتے ہیں ۔
➑ اس امت میں سب سے بُرے لوگ خوارج اہلِ تکفیر ہیں ، ان سے ہر وقت اجتناب کرنا چاہئیے ۔ مرجئہ اور جہمیہ سے بھی دور رہیں ۔
➒ صحیح العقیدہ اہلِ حدیث (اہل سنت) علماء سے ہر مسئلے میں مکمل رابطہ رکھیں ۔
➓ سیدنا عیسیٰ بن مریم ؑ اور عزیر کواللہ کا بیٹا کہنے والوں کا ذبیحہ حلال ہے تو ان کلمہ گو اہلِ اسلام کا ذبیحہ کیوں حلال نہیں ہے جنہیں علمائے حق نے متفقہ طور پر کفار و مرتدین اور مشرکین کے حکم میں شامل نہیں کیا؟
وما علينا إلا البلاغ
(۲۲دسمبر ۲۰۰۲ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

4 تبصرے

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
    یہ مضمون ’’ اہلِ بدعت کا ذبیحہ ‘‘ بہت مفید اور تفصیلی ہے ۔پیش کرنے پر آپ شکریہ کے مستحق ہیں،
    جزاکم اللہ تعالی خیراً ۔
    لیکن ایک درخواست ہے :
    شیخ رحمہ اللہ کی اس تحریر کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ۔
    براہ یہ بتادیں کہ یہ تحریر ان کی کس مطبوعہ کتاب میں ہے ،
    والسلام

  2. وعلیکم السلام، حوصلہ افزائی کا شکریہ۔۔۔۔یہ تحریر ہم نے الحدیث کے کسی اولین شمارہ سے لی تھی غالبا 10 تا 15 ۔فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام میں بھی موجود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے