الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
عباس رضوی نامی ایک بریلوی نے اہلِ حدیث (اہل سنت) سے بارہ (12) سوالات کیے ہیں۔ ایک آدمی حافظ ولید رانا نے ملتان سے کل یہ سوالات برائے جوابات بھیجے اور آج ان کے جوابات مع سوالات پیش خدمت ہیں:
بریلوی سوال نمبر 1: مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں صحیح صریح، مرفوع، غیر محتمل احادیث درکار ہیں:
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر میں بعد از رکوع عام دعا کی طرح ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے یا آپ نے حکم دیا ہے؟
الجواب: اہل حدیث (اہل سنت) کے نزدیک قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور ثابت شدہ اجماع شرعی حجت ہیں۔ احادیث سے اجتہاد کا جواز ثابت ہے لہذا اہل حدیث کے نزدیک ہر سوال کا جواب ادلہ ثلاثہ اور اجتہاد سے جائز ہے۔ اجتہاد کی کئی اقسام ہیں مثلاً نص پر قیاس، عام دلیل سے استدلال، اولیٰ کو ترجیح، مصالح مرسلہ اور آثار سلف صالحین وغیرہ۔
اہلِ حدیث کے اس منہج کو ماہنامہ الحدیث حضرو میں بار بار واضح کر دیا گیا ہے مثلاً دیکھئے الحدیث نمبر1 ص 4، 5۔
اہل حدیث کے اس منہج کے مقابلے میں بریلویہ اور دیوبند یہ دونوں کے نزدیک آنکھیں بند کر کے اندھی اور بے دلیل تقلید حجت ہے۔ احمد رضا خان بریلوی نے ایک رسالہ لکھا ہے: اجلي الاعلام ان الفتوى مطلقا على قول الامام اس امر کی تحقیق عظیم کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہے۔ (دیکھئے فتاویٰ رضویہ طبع جدید ج 1 ص 95، طبع قدیم ج 1 ص 381)
احمد یار خان نعیمی بدایونی لکھتے ہیں: ”اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ ہم یہ آیات و احادیث مسائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں۔ احادیث یا آیات امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی دلیلیں ہیں۔“ (جاء الحق طبع قدیم حصہ دوم ص 91، آٹھواں باب)
معلوم ہوا کہ مسئلہ عقیدے کا ہو یا احکام وغیرہ کا، بریلویوں پر یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے باسند صحیح امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول پیش کریں اور بعد میں باسند صحیح بذریعہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ادلہ اربعہ سے استدلال پیش کریں اور اگر نہ کر سکیں تو وہ اپنے دعوی تقلید میں کاذب ہیں۔
بذریعہ امام ابو حنیفہ کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث بھی پیش کریں، وہ امام ابو حنیفہ کی سند سے ہو کیونکہ یہ لوگ یوسفی و شیبانی نہیں بلکہ صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید کے دعویدار ہیں اور محدثین کرام سے حدیث لینا ان لوگوں کے نزدیک تقلید ہے!
اہل حدیث اپنے عقیدے اور منہج کے مطابق ادلہ اربعہ سے بذریعہ محدثین کرام اور علمائے حق (سلف صالحین کے فہم کو مد نظر رکھتے ہوئے) جواب دینے کے پابند ہیں۔
اب سوال کی مناسبت سے چند تنبیہات پیش خدمت ہیں:
➊ صحیح حدیث کی طرح حسن لذاتہ بھی حجت ہے۔
➋ ہر جواب کا صریح ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر مقابلے میں خاص دلیل نہ ہو تو عام دلیل سے بھی استدلال جائز ہے۔
➌ مرفوع حدیث حجت دائمہ ہے لیکن موقوف آثار سے بھی استدلال جائز ہے بشرطیکہ مقابلے میں صریح دلیل نہ ہو۔
➍ غیر محتمل والی شرط فضول ہے کیونکہ ہر فریق دوسرے کی دلیل میں احتمال ہی احتمال نکال لیتا ہے بلکہ بریلویت و دیوبندیت کی بنیاد ہی احتمالات، تاویلات فاسدہ اور اکابر کی اندھی تقلید پر ہے۔
اس ضروری تمہید کے بعد پہلے سوال کا جواب اور پھر اہل حدیث کا جوابی سوال پیش خدمت ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر (70) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جب شہید ہو گئے تو آپ نے ایک مہینہ صبح کی نماز میں قنوت پڑھا تھا جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (کتاب المغازی باب 29 ح 4090)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما صلى الغداة رفع يديه يدعو عليهم
پس یقیناً میں نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے، دونوں ہاتھ اُٹھاتے، ان (کافروں) پر (ہلاکت و تباہی کی) دعا فرماتے۔ (صحیح ابی عوانہ ج 5 ص 41، دوسرا نسخہ ج 4 ص 72 ح 5913 وسندہ صحیح)
اس حدیث سے قنوت میں دعا کی طرح ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے لہذا جو اہلِ حدیث قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھاتے ہیں، اس حدیث اور آثار کی بنا پر اُٹھاتے ہیں۔
امامِ اہل سنت امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہو یہ دونوں قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کے قائل تھے۔ دیکھئے مسائل ابی داود (ص 66) اور مسائل احمد واسحاق (روایت اسحاق بن منصور الکوسج ج 1 ص 465)
اہل حدیث کا سوال نمبر 1: قنوت وتر کے بارے میں احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے: "جو شخص قنوت بھول کر رکوع میں چلا جائے تو اُسے جائز نہیں کہ پھر قنوت کی طرف پلٹے بلکہ حکم ہے کہ نماز ختم کر کے اخیر میں سجدہ سہو کرے۔” (فتاوی رضویہ طبع جدید ج 8 ص 219)
یہ حکم کہ قنوت بھولنے والا سجدہ سہو کرے گا، کس حدیث یا دلیل سے ثابت ہے؟ باسند صحیح بذریعہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ثابت کریں!
تنبیہ: بریلویہ اور دیوبندیہ سے اہلِ حدیث کا اختلاف ایمان و عقائد میں ہے لیکن فی الحال پہلے سوال کے جواب میں ویسا ہی سوال پیش خدمت ہے جیسا سوال اہل حدیث سے کیا گیا ہے۔
بریلوی سوال نمبر 2: "کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ کی تمام تکبیرات میں رفع الیدین کرنے کا حکم فرماتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز جنازہ کی تمام تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین فرمایا ہے؟”
الجواب: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: إن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى على جنازة رفع يديه فى كل تكبيرة و إذا انصرف سلم
بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب پھرتے تو سلام کہتے تھے۔ (العلل للدارقطنی ج 13 ص 22، مسئلہ: 2908 وسندہ صحیح وزيادة القول مقبولة)
اس حدیث کے راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (بھی) جنازے کی ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 296/3 ح 11380، وسندہ صحیح)
اہل حدیث کا سوال نمبر 2: ہماری ذکر کردہ مرفوع حدیث اور اثر صحابی کے مقابلے میں بریلوی و دیوبندی حضرات نماز جنازہ کی ساری تکبیرات پر رفع یدین نہیں کرتے۔ اس عمل کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ بذریعہ امام ابوحنیفہ پیش کریں!
بریلوی سوال نمبر 3: "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کس صحابی کی شہادت پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی تھی؟”
الجواب: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلي رسول الله صلى الله عليه وسلم على قتلى أحد بعد ثماني سنين رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد پر آٹھ سال کے بعد نماز جنازہ پڑھی تھی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد ح 4042)
اہل حدیث کا سوال نمبر 3: محمد امجد علی بریلوی جنازے کے بارے میں لکھتے ہیں: "اگر ایک ولی نے نماز پڑھادی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں کر سکتے۔” (بہار شریعت حصہ چہارم ص 85)
معلوم ہوا کہ بریلویوں کے نزدیک اگر ولی نماز جنازہ پڑھ لے تو دوبارہ (نماز جنازہ) نہیں ہوسکتی۔ نیز دیکھئے فتاوی رضویہ (ج 9 ص 269)
احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے: "جبکہ آفتاب کی طرح روشن ہو گیا کہ نماز غائب و تکرار نماز جنازہ دونوں ہمارے مذہب میں ناجائز ہیں اور ہر ناجائز گناہ ہے اور گناہ میں کسی کا اتباع نہیں۔” (فتاوی رضویہ ج 9 ص 367)
بذریعہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ وہ دلیل پیش کریں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز اور گناہ قرار دیا ہے یا نماز جنازہ کی تکرار سے منع فرمایا ہے۔
بریلوی سوال نمبر 4: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نماز جنازہ میں امام دعائیں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی صرف آمین آمین پکاریں؟”
الجواب: سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سمعت النبى صلى الله عليه وسلم وصلى على جنازة – يقول: اللهم اغفر له وارحمه
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ (صحیح مسلم: 963/85، ترقیم دار السلام 2234)
جو دعا بلند آواز سے پڑھی جائے وہی سنی جاتی ہے لہذا اس صحیح حدیث سے بلند آواز سے دعا پڑھنا ثابت ہوا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قنوت (دعائے قنوت) پڑھتے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے آمین کہتے تھے۔ (سنن ابی داود، الوتر باب القنوت في الصلوۃ ح 1443، وسندہ حسن وصححه ابن خزیمہ: 618، والحاکم علی شرط البخاری 1/225 ووافقه الذہبی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دعا جہری ہو تو مقتدی آمین کہیں گے۔
اہل حدیث کا سوال نمبر 4: بریلویوں اور دیوبندیوں کی معتبر کتاب فتاوی شامی میں لکھا ہوا ہے کہ: "من صلى وفي كمه جرو تجوز صلاته وقيده الفقيه أبو جعفر الهندواني بكونه مشدود الفم” جو شخص نماز پڑھے اور اس کی آستین میں (کتے کا) پلا ہو، اس کی نماز جائز ہے اور فقیہ ابو جعفر الہندوانی نے یہ شرط لگائی ہے کہ اُس کا منہ بندھا ہوا ہونا چاہئے۔ (ردالمختار ج 1 ص 153 مطبوعہ: مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ، پاکستان)
بذریعہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ وہ دلیل پیش کریں جس سے کتا اُٹھا کر نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
نیز یہ کہ بریلوی فقہ کے اس مسئلے پر کیا عباس رضوی یا کسی بریلوی نے کبھی عمل کیا ہے؟
تنبیہ: اہل حدیث کے خلاف وحید الزمان، نور الحسن اور نواب صدیق حسن خان کے حوالے پیش کرنا غلط ہے کیونکہ ہم ان حوالوں سے بری ہے اور یہ حوالے ہمارے مفتی بہا نہیں ہیں ۔جب ہم آل تقلید کے خلاف صرف ان کے مفتی بہا اقوال پیش کرنے کے پابند ہیں تو وہ ہمارے خلاف کیوں غیر مفتی بہا اقوال پیش کرتے ہیں۔ !
بریلوی سوال نمبر 5: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نماز وتر میں رکوع کے بعد امام بلند آواز سے دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی صرف آمین آمین پکاریں؟”
الجواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازوں میں قنوت پڑھا تھا اور آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے آمین آمین کہتے تھے۔ دیکھئے سنن ابی داود (ح 1443، وسندہ حسن) اور الجواب نمبر 4
اس حدیث سے امام کا بلند آواز سے قنوت پڑھنا اور مقتدیوں کا آمین کہنا، دونوں مسائل ثابت ہیں۔ والحمد للہ
اہل حدیث کا سوال نمبر 5: بریلویوں و دیوبندیوں کی تسلیم شدہ معتبر کتاب فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ: "ولو ترك وضع اليدين والركبتين جازت صلاته بالاجماع” اور اگر (سجدے میں) دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے (زمین پر) نہ رکھے تو بالا جماع نماز جائز ہے۔ (ج 1 ص 70)
اجماع کا دعویٰ تو باطل ہے تاہم عرض ہے کہ اس مسئلے کا ثبوت بذریعہ امام ابو حنیفہ اپنی تسلیم شدہ دلیل سے پیش کریں اور کیا اس مسئلے پر آپ لوگوں میں سے کسی نے کبھی عمل بھی کیا ہے؟
بریلوی سوال نمبر 6: "کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے تھے؟”
الجواب: سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلوة لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 102 ح 740)
کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کو ذراع کہتے ہیں۔ دیکھئے القاموس الوحید (ص 568)
اگر دایاں ہاتھ پوری بائیں ذراع پر رکھا جائے تو خود بخود سینے پر آجاتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہئے۔ سیدنا ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: يضع هذه على صدره آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسند احمد ج 5 ص 226 وسندہ حسن)
اہل حدیث کا سوال نمبر 6: احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے:
"مسجد میں اذان دینی مسجد و دربار الہی کی گستاخی و بے ادبی ہے۔” (فتاوی رضویہ طبع قدیم ج 2 ص 414، طبع جدید ج 5 ص 411)
اس بات کا ثبوت ادلہ اربعہ میں سے بذریعہ امام ابو حنیفہ پیش کریں کہ مسجد میں اذان دینی دربار الہی اور مسجد دونوں کی گستاخی ہے اور یہ بھی بتائیں کہ دربار الہی اور مسجد کی گستاخی کرنے والے کا کیا حکم ہے؟
یاد ر ہے کہ بریلویوں کی اکثریت مسجدوں میں اذان دیتی ہے اور اس طرح وہ احمد رضا خان کے نزدیک مسجد اور دربار الہی کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بریلوی سوال نمبر 7: "کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کہنی پر رکھا تھا؟
الجواب: سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت اور رسغ (کلائی) اور ساعد (کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہ / القاموس الوحید ص 769) پر رکھا تھا۔ (سنن ابی داود، الصلوۃ، باب رفع الیدین فی الصلوۃ ح 727 وسندہ صحیح)
اہل حدیث کا سوال نمبر 7: بریلویوں کی معتبر کتاب فتاوی شامی میں امامت کی شرطوں کے سلسلے میں لکھا ہوا ہے کہ: "ثم الأحسن زوجة” پھر وہ (امام بنے) جس کی بیوی سب سے زیادہ خوبصورت ہو۔ (ردالمختار ج 1 ص 412)
بذریعہ امام ابو حنیفہ وہ صحیح حدیث پیش کریں جس میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے۔
بریلوی سوال نمبر 8: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا سال تہجد کی اذان کا حکم فرمایا ہو؟ وہ اذان رمضان شریف میں سحری کھانے کے لئے نہ ہو بلکہ پورا سال تہجد پڑھنے کے لئے ہو۔”
الجواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں لہذا کھاؤ اور پیو حتی کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب الاذان قبل الفجر ح 622، 623)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے رات کی اذان دینا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سارا سال رات کی اذان دے تو جائز ہے اور دوسرے دلائل کی رُو سے اگر یہ اذان نہ بھی دے اور صرف صبح کی اذان دے تو بھی جائز ہے۔
اہل حدیث کا سوال نمبر 8: نماز کے سوالات سے ہٹ کر عرض ہے کہ احمد رضا خان نے کہا: "غزوہ احزاب کا واقعہ ہے۔ رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی شمالی ہوا کو کہا کم ہو جا اور کافروں کو نیست و نابود کر دے۔ اس نے کہا الحلائل لا يخرجن بالليل بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں فأعقمها الله تعاليٰ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بانجھ کر دیا۔ اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا۔” (ملفوظات حصہ 4 ص 419 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی 38، اردو بازار لاہور)
ہوا کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار کر دینا کون سی صحیح حدیث میں لکھا ہوا ہے؟
با حوالہ اور صحیح سند جواب دیں اور یہ مسئلہ بھی سمجھائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ہوا کو حکم دے تو ہوا اُس پر عمل کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ كن فيكون کا کیا مطلب ہے؟
بریلوی سوال نمبر 9: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز با جماعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنے کا حکم فرمایا ہو یا خود پڑھی ہو؟”
الجواب: نعیم المجمر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر سورہ فاتحہ پڑھی حتی کہ جب آپ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پر پہنچے تو آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی اور آپ ہر سجدہ کرتے وقت اللہ اکبر کہتے اور دو رکعتوں کے تشہد سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے اور جب سلام پھیرتے تو فرماتے: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں۔ (صحیح ابن خزیمہ 251/1 ح 499، صحیح ابن حبان، الاحسان: 1794، وسندہ صحیح)
اس حدیث سے (کبھی کبھار) بسم الله الخ بالجهر کا اتباع ثابت ہوا جیسا کہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔ دیکھئے صحیح ابن حبان (ج 5 ص 100)
یاد رہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نماز میں سراً بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ دیکھئے میری کتاب مختصر صحیح نماز نبوی (ص 11)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (96/2 ح 2676 وقال: هذا حدیث حسن صحیح وسندہ صحیح)
اور خلفائے راشدین میں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی فجهر بسم الله الرحمن الرحيم تو انھوں نے بسم الله الرحمن الرحيم جہراً پڑھی۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی ح 137/1، وسندہ صحیح، مصنف ابن ابی شیبہ 412/1 ح 4757، السفن الکبری للبیہقی 48/2)
اہل حدیث کا سوال نمبر 9: بریلویوں کی معتبر کتاب فتاوی عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ:ويجوز بيع لحوم السباع والحمر المذبوحة فى الرواية الصحيحة اور صحیح روایت میں درندوں اور ذبح شدہ گدھوں کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ (الفتاوی الہندیۃ ج 3 ص 115)
اپنے اس صحیح روایت والے فتوے کا ثبوت قرآن وحدیث وادلہ شرعیہ سے بذریعہ امام ابو حنیفہ پیش کریں اور کیا عباس رضوی نے اپنی اس صحیح روایت پر بذات خود بھی کبھی عمل کیا ہے؟
بریلوی سوال نمبر 10: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک رفع الیدین عند الركوع وبعد الركوع کیا تھا؟”
الجواب: صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرتے تھے۔ مثلاً دیکھئے صحیح بخاری (کتاب الاذان، باب رفع الیدین اذا کبروا واذا ركعوا واذا رفعوا ح 736)۔
اس حدیث کے راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (دیکھئے صحیح بخاری ح 739 وسندہ صحیح)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کی حدیث کے راوی، ان کے جلیل القدر صاحبزادے امام سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (حدیث السراج ج 2 ص 34، 35 ح 115، وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ رفع الیدین عند الركوع وبعد الركوع پر عمل عہد نبوت، عہد صحابہ اور عہدِ تابعین میں مسلسل رہا ہے لہذا رفع یدین کے منسوخ یا متروک ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین عند الركوع وبعد الركوع کا ترک یا منسوخ ہونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے لہذا یہ خود بخود ثابت ہوگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رفع یدین کرتے تھے۔ یہ مسئلہ سمجھانے کے لئے ایک مثال پیش خدمت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ہاتھ باندھنا ثابت ہے اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا بالکل ثابت نہیں ہے لہذا یہ خود بخود ثابت ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نماز میں ہاتھ باندھتے تھے۔
اہل حدیث کا سوال نمبر 10: حدیث میں آیا ہے کہ (سیدنا )عقبہ بن عامر( رضی اللہ عنہ /صحابی) نے فرمایا: نماز میں جو شخص اشارہ کرتا ہے، اسے ہر اشارے کے بدلے ایک نیکی یا ایک درجہ ملتا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 297/17 ح 819 وسندہ حسن، وصححه ابن حبان فی مجمع الزوائد 103/2)
اس اشارے سے مراد رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین ہے۔ دیکھئے معرفة السنن والآثار للبیہقی (قلمی ج 1 ص 225 وسندہ صحیح إلی الامام اسحاق بن راہویہ)۔
یاد رہے کہ یہ حدیث حکماً مرفوع ہے اور صراحتاً مرفوع بھی مروی ہے۔ دیکھئے السلسلة الصحيحة للالبانی ( 848/7 ح 3686 بحوالہ الفوائد لابی عثمان الہجیری 39/2)
کیا کسی حدیث میں رفع یدین نہ کرنے پر بھی کسی نیکی کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟ صحیح یا حسن حدیث بذریعہ امام ابو حنیفہ پیش کریں!
بریلوی سوال نمبر 11: "ایک صحیح صریح مرفوع غیر محتمل حدیث پیش کریں کہ کپڑا ہوتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم حدیث میں ہو؟”
الجواب: اگر کپڑا ہو تو سر ڈھانپ کر نماز پڑھنی چاہئے اور یہی بہتر ہے۔ دیکھئے میری کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث نمبر: 10) اور ماہنامہ الحدیث حضرو: 31 ص 51۔
اگر کپڑا نہ ہو تو مرد کی نماز ننگے سر جائز ہے۔ سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى فى ثوب واحد، قد خالف بين طرفيه
بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف اطراف (کے کندھوں) پر ڈالا تھا۔ (صحیح بخاری: 354)
تنبیہ: جواب میں صحیح بخاری پر اکتفا کرتے ہوئے صحیح مسلم کے حوالے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ننگے سر نماز کے بارے میں احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
"اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔” (احکام شریعت حصہ اول ص 130)
اہل حدیث کا سوال نمبر 11: احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے: "دلہن کو بیاہ کر لائیں تو مستحب ہے کہ اس کے پاؤں دھو کر مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکیں اس سے برکت ہوتی ہے یہ پانی بھی قابل وضو ہونا چاہئے اگر دلہن با وضو یا نابالغہ تھی کہ یہ اس کا سابق از قبیل اعمال ہیں نہ از نوع عبادات اگرچہ نیت اتباع انہیں قربت کر دے واللہ تعالیٰ اعلم۔” (فتاوی رضویہ ج 6 ص 595 فقرہ نمبر 156)
قرآن وحدیث کی وہ دلیل بذریعہ امام ابو حنیفہ پیش کریں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ دلہن کو بیاہ کر لانے کے بعد اس کے پاؤں دھو کر مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکنے سے برکت ہوتی ہے اور یہ مستحب ہے۔
بریلوی سوال نمبر 12: "ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نماز میں دو دو فٹ کھلے پاؤں کر کے کھڑے ہونے کا حکم ہو؟” [سوالات ختم ہوئے۔]
الجواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أقيموا صفوفكم وتراصوا
اپنی صفیں قائم کرو اور ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ (صحیح بخاری: 719)
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والے مقتدی کے کندھے اور قدم سے قدم ملانا چاہئے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ملاتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (725)
الحمد للہ اس حدیث پر اہل حدیث کا عمل ہے اور رہی بات دو دو فٹ والی تو یہ بریلوی سائل کا مسخراپن اور ٹھٹھا ہے، جس سے اہلِ حدیث بری ہیں۔
اہل حدیث کا سوال نمبر 12: بذریعہ امام ابوحنیفہ وہ صحیح یا حسن حدیث پیش کریں، جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ امام کے پیچھے، مقتدیوں کو ایک دوسرے کے قدم سے قدم اور کندھے سے کندھے نہیں ملانے چاہئیں۔
سوالات و جوابات اور جوابی سوالات کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں عرض ہے کہ بریلویوں کے سوالات مکمل نقل کر کے اُن کے مطابق سوالات و جوابات لکھے گئے ہیں اور اس مضمون کا صرف وہی جواب قابل مسموع ہو گا جس میں سارے مضمون کو نقل کر کے اس کے ہر سوال کے مطابق جواب لکھا جائے۔
یاد رہے کہ راقم الحروف نے اہل دیوبند کے سوالات کے جوابات مع جوابی سوالات لکھے تھے جن کا جواب آج تک نہیں آیا، دیوبندیوں کو تو سانپ سونگھ گیا ہے اور بریلویوں کے بارے میں معلوم نہیں انہیں کیا چیز سونگھے گی۔ واللہ اعلم
جواب آج شروع ہوا اور آج ہی ختم ہوا۔ (13/رمضان 1429ھ بمطابق 14/ستمبر 2008ء)