سوال
جماعت المسلمین والے کہتے ہیں کہ آپ اہلحدیث کیوں کہلواتے ہیں یہ ایک فرقہ ہے۔ اور ایسا نام رکھوانا قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
{تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَہُمْ}
"تم جماعت المسلمین اور جماعت المسلمین کے امیر سے چمٹے رہنا۔”
حوالہ: حدیث صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب کیف الامر اذا لم تکن جماعة …
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل حدیث نام کی حیثیت بالکل وہی ہے جو "جماعت المسلمین” نام کی حیثیت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں "جماعۃ المسلمین” کا لفظ کسی نام کی حیثیت سے ذکر نہیں ہوا۔
پہلی دلیل:
اسی حدیث میں "وامامہم” کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ اگر یہ نام کی حیثیت رکھتے تو پھر جماعت المسلمین والوں کو چاہیے تھا کہ اپنا نام یوں لکھتے:
"جماعۃ المسلمین وامامہم”۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ نام رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ وصف اور حقیقت بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔
دوسری دلیل:
اسی حدیث میں ایک صحابی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا:
{اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ اِمَامٌ}
"اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ہی ان کا کوئی امام ہو تو کیا کیا جائے؟”
اس پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
{فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا}
"تم ان تمام فرقوں سے الگ رہو۔”
اب غور فرمائیں! اگر "جماعۃ المسلمین” دراصل مسلمانوں کا نام ہوتا تو جب وہ جماعت نہ رہتی تو مسلمین بھی نہ رہتے۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ فرقے اور گروہ کہاں سے آ گئے، جن سے الگ رہنے کا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا؟
لہٰذا ان دونوں دلائل سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حدیث میں "جماعۃ المسلمین” کا لفظ نام کی حیثیت سے وارد نہیں ہوا۔
جماعت المسلمین اور مسلمین میں فرق
پاکستانی حکومت کسی بھی جماعت کو لفظ "مسلم”، "مسلمین” یا "مسلمان” کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کرتی۔ لیکن "جماعت المسلمین” کو حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر اس نام کے ساتھ رجسٹرڈ کیا ہوا ہے۔ وہ خود اپنی رسائل اور مقامات میں "جماعت المسلمین” کے ساتھ "رجسٹرڈ” کا لفظ لکھتے ہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ "مسلمین” اور "جماعت المسلمین” میں فرق ہے۔
- "جماعت المسلمین” اگر نہ ہو تب بھی "مسلمین” موجود ہوتے ہیں۔
- جیسا کہ صحابی نے سوال کیا: "مسلمین کی جماعت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟”
انہوں نے یہ نہیں کہا: "مسلمین نہ ہوں تو کیا کیا جائے؟”
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھی جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ "جب مسلمین کی جماعت اور امام نہ ہو گا تو سب کافر ہو جائیں گے”۔ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف یہ حکم دیا کہ ان فرقوں اور گروہوں سے الگ رہو۔
مزید دلیل:
اسی بات کو سمجھنے کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی پیش نظر رہے:
{اِنَّ ابْنِیْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَسَیُصْلِحُ اﷲُ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ}
"بے شک یہ میرا بیٹا سردار ہے اور عنقریب اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کروائے گا۔”
[صحیح بخاری، ج ۲، ص ۱۰۵۳، کتاب الفتن]
اس سے بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اندر جماعتیں ہو سکتی ہیں، مگر اس سے ان کا مسلم ہونا ختم نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب