سوال:
اگر لڑکی سے جبرا نکاح کی اجازت لی جائے اور وہ دے دے، تو کیا نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟
جواب:
جبری نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
❀ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
(سورۃ النحل: 106)
جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، اس پر اللہ کا غضب ہے، سوائے اس شخص کے جسے مجبور کر دیا جائے، جبکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔
جس کے دل میں ایمان پختہ ہو، اس کو کفر پر مجبور کیا جائے، تو وہ کافر نہیں ہوتا، اسی طرح لڑکی نکاح کے لیے راضی نہ ہو اور اس سے زبردستی اقرار لیا جائے، تو جبری اجازت سے بالا اولی نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما وضع الله عنه سقطت احكام الاكراه عن القول كله، لان الاعظم اذا سقط عن الناس سقط ما هو اصغر منه
جب اللہ تعالی نے انسان سے مجبوری کی صورت میں کفر معاف کر دیا ہے، تو مجبوری کی صورت میں کہے گئے تمام دیگر اقوال بھی معاف ہیں، کیونکہ جب لوگوں کو بڑی چیز معاف کر دی جائے، تو چھوٹی چیز خود بخود معاف ہو جاتی ہے۔
(السنن الکبری للبیہقی: 2/122)
❀ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
خطا اور نسیان سے تجاوز کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کر دی ہے، اسی طرح مجبوری کی صورت میں کیے گئے کام سے معافی کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کی ہے۔
(جامع العلوم والحکم، ص 452)