شرعی مسئلہ: اکٹھی تین طلاقوں کے بعد رجوع کا حکم
سوال:
علمائے کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے بھائی محمد الیاس نے 5 نومبر 1994 کو گھریلو ناچاقی اور اختلافات کی بنا پر اپنی بیوی مسماۃ زیب النساء کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیں۔ اب وہ اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کیا شرعاً وہ اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے یا نہیں؟
نوٹ: میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میرے بھائی نے اس سے قبل اپنی اس بیوی کو کبھی طلاق نہیں دی۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال درست ہے جیسا کہ بیان کیا گیا، تو اس صورت میں شرعاً صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔ قرآن و حدیث کی واضح نصوص اور امت کے محقق علمائے کرام کے بیانات کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں صرف ایک رجعی طلاق کے برابر ہوتی ہیں۔ تفصیل درج ذیل ہے:
قرآن کریم کی روشنی میں:
آیت نمبر 1:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(البقرة: 229)
"طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔”
اس آیت مبارکہ میں "مرتان” کا لفظ "مرہ” کی تثنیہ ہے، اور "مرہ” کا مطلب ہے ایک مرتبہ، ایک وقت، یا ایک مجلس۔ قرآن مجید کی سورۃ النور میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے:
آیت نمبر 2:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ…﴾
(النور: 58)
"اے ایمان والو! تمہارے غلام، باندیاں اور وہ بچے جو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے، وہ تم سے تین اوقات میں اجازت لے کر آیا کریں…”
اس آیت میں "ثلاث مرات” سے مراد صرف تین مختلف اوقات ہیں، نہ کہ تین کی تعداد۔
قرآنی قاعدہ "القرآن يفسر بعضه بعضاً” کے مطابق، "الطلاق مرتان” سے مراد دو مرتبہ طلاق دینا ہے، نہ کہ دو طلاقیں دینا۔ اگر دو طلاقیں مراد ہوتیں تو قرآن میں لفظ "الطلاق طلقتان” ہوتا، جو کہ نہیں ہے۔ پس قرآن سے ثابت ہوا کہ اکٹھی تین طلاقیں صرف ایک رجعی طلاق کے حکم میں ہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
حدیث 1:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” كَانَ الطَّلاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، طَلاقُ الثَّلاثِ: وَاحِدَةً.”
(مسلم، کتاب الطلاق، ج1، ص477)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
حدیث 2 (ایک عملی واقعہ):
عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد – امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟ ” قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "في مجلس واحد؟ ” قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت”، قال: فراجعها۔
(احمد، ابو يعلی، فتح الباری ج9 ص216، نیل الاوطار ج6 ص361، التعلیق المغنی ج4 ص47)
حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور بعد میں سخت رنجیدہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: "تم نے طلاق کیسے دی؟” انہوں نے جواب دیا: "تین طلاقیں ایک ساتھ دے دیں۔” آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ تو ایک طلاق شمار ہوتی ہے، اگر چاہو تو رجوع کر لو۔” چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا۔
صحابہ کرام کا اجماعی فتویٰ:
ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام کا فتویٰ یہی ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہی شمار ہوتی ہیں۔
(مقالات علمیہ، ص247)
احناف و دیگر مکاتب فکر کے علما کی آراء:
احناف میں سے:
◈ امام محمد بن مقاتل الرازی (شاگرد امام ابو حنیفہؒ)
◈ مفتی ظفیر الدین (مفتی دارالعلوم دیوبند)
◈ علامہ سعید احمد اکبر آبادی حنفی
◈ علامہ عروج قادری حنفی
◈ پیر کرم شاہ الازہری بریلوی
ان تمام علما کی یہی رائے ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق کے برابر ہیں۔
دیگر جلیل القدر علما:
◈ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
◈ امام ابن قیم
◈ سید نذیر حسین محدث دہلوی
◈ شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری
◈ مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن باز
ان سب کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہی ہیں۔
صورت مسئلہ پر شرعی حکم:
اگر واقعتاً محمد الیاس نے اپنی بیوی مسماۃ زیب النساء کو 5 نومبر 1994 کو پہلی بار طلاق دی، تو شرعاً صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کا نکاح ٹوٹ چکا ہے اور بیوی عدت کے بعد آزاد ہو چکی ہے، لیکن چونکہ یہ پہلی طلاق ہے، اس لیے بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
قرآنی دلیل برائے نکاح ثانی:
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ﴾
(البقرة: 232)
"جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب کہ وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔”
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت معقل بن یسارؓ نے اپنی بہن کو سابق شوہر سے نکاح سے روک دیا تھا۔
نتیجہ:
❀ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق کے حکم میں ہیں، بشرطیکہ یہ پہلی طلاق ہو۔
❀ چونکہ طلاق واقع ہو چکی اور عدت بھی گزر چکی ہے، اس لیے سابقہ نکاح ختم ہو چکا۔
❀ مگر شرعاً بغیر کسی حلالہ کے نیا نکاح جائز ہے۔
❀ رجوع (رجعی نکاح کے دوران) کا وقت گزر چکا، لہٰذا اب صرف نیا نکاح ممکن ہے۔
❀ اس فتویٰ کی بنیاد سوال کے درست ہونے پر ہے، مفتی عدالتی یا قانونی کارروائی کا ذمہ دار نہ ہو گا۔
حوالہ جات:
➊ التعلیق المغنی، ج4، ص47
➋ مقالات علمیہ، ص247
➌ صحیح بخاری: کتاب الطلاق و کتاب التفسیر
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب