سوال
علمائے کرام سے دریافت ہے کہ جلال الدین ولد قوم گجر ساکن جوڑ پل ضلع لاہور کی بیوی ممتاز بی بی سے تین بچے ہیں، اور دونوں میاں بیوی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔ مگر کچھ دن قبل دو اشخاص نے جلال الدین کو زبردستی پکڑ لیا، اس کے سر پر پستول رکھ کر حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔ یاد رہے کہ ان دونوں میں سے ایک شخص ممتاز بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے جلال الدین کو دھمکی دے کر مجبور کیا، جس پر جلال الدین نے کہا:
"آج کے بعد تم میری ماں بہن کی طرح ہو۔”
سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حالت میں کوئی کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ عطا فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
سوال کے مطابق، اس صورتِ حال میں نہ طلاق واقع ہوئی ہے اور نہ ظہار۔
کیونکہ جلال الدین گجر اکراہ یعنی مجبوری کی حالت میں تھا — اس پر پستول تان کر زبردستی طلاق دینے کا حکم دیا گیا۔
لہٰذا مجبور (مکرہ) شخص کی کوئی بھی کارروائی شرعاً معتبر نہیں سمجھی جاتی۔
شریعت میں کسی عمل کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ارادہ (intention) اور اختیار (free will) سے عمل کرے۔ جب یہ دونوں بنیادیں موجود نہ ہوں تو اس شخص کی کارروائی پر کوئی شرعی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
"والمکره لا إرادة له ولا اختیار ولا إرادۃ والا ختیار ھی أساس التکلیف فاذا انتفیا انتفی التکلیف واعتبر المکره غیر مسؤل عن تصرفاته، لأنه مسلوب الإرادة.”
(فقه السنة، ج 2، ص 212)
یعنی “مجبور شخص کا نہ ارادہ ہوتا ہے نہ اختیار، اور ارادہ و اختیار ہی شرعی ذمہ داری کی بنیاد ہیں، پس جب یہ دونوں ختم ہو جائیں تو تکلیفِ شرعی بھی ساقط ہو جاتی ہے۔ اس لیے مجبور شخص اپنے افعال کا ذمہ دار نہیں، کیونکہ اس سے ارادہ سلب کر لیا گیا ہوتا ہے۔”
قرآنِ مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ﴾
(النحل: 106)
“جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کر دیا جائے، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا۔”
حدیثِ نبوی ﷺ سے دلیل
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه.”
(أخرجه ابن ماجه، وابن حبان، والدارقطني، والطبراني، والحاكم، وحسنه النووي)
یعنی “میری امت سے غلطی، بھول چوک اور مجبوری (اکراہ) کی حالت میں کیے گئے اعمال کا مؤاخذہ اٹھا لیا گیا ہے۔”
امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل اور داؤد ظاہری کا بھی یہی مسلک ہے کہ مجبور اور بے بس شخص کی کارروائی شرعاً معتبر نہیں۔
اسی رائے پر حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ بھی ہیں۔
(فقه السنة، ج 2، ص 212)
خلاصۂ کلام
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ:
❀ جلال الدین گجر نے طلاق اکراہ (زبردستی) کے تحت دی۔
❀ اس لیے نہ طلاق واقع ہوئی ہے نہ ظہار۔
❀ نکاح برقرار ہے، جلال الدین اور ممتاز بی بی بدستور میاں بیوی ہیں۔
❀ کفارہ وغیرہ بھی لازم نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب