إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
مسلمان کے ساتھ حسن سلوک
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾
(2-البقرة:83)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور ماں باپ اور قرابت والے اور یتیموں اور مسکینوں سے احسان کرو گے اور لوگوں سے اچھی بات کہو ۔“
حدیث 1
«عن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقا»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6017 .
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق سب لوگوں سے اچھا تھا۔ “
حدیث 2
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين ، والله! ما قال لي: أنا قط، ولا قال لي لشيء لم فعلت كذا؟ وهلا فعلت كذا؟»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6011 .
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہے کہ میں نے (تقریباً) دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اللہ کی قسم! آپ نے مجھ سے کبھی اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی کسی چیز کے لیے مجھ سے یہ کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا ؟ یا فلاں کام کیوں نہ کیا؟
مسلمان بچوں سے پیار
حدیث 3
«وعن عائشة قالت: قدم ناس من الأعراب على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقالوا: أتقتلون صبيانكم؟ فقالوا: نعم ، فقالوا: لكنا ، والله! ما نقبل ، فقال رسول الله : أواملك إن كان الله نزع منكم الرحمة»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6027.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ اعرابی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے، کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ صحابہ کرام نے کہا، ہاں تو وہ کہنے لگے، لیکن ہم اللہ کی قسم! بوسہ نہیں دیتے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور میں کیا کروں، اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحمت نکال لی ہے۔ “
مسلمان پر خرچ کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
(2-البقرة:274)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات اور دن میں، چھپا کر اور ظاہر، ان کے رب کے ہاں ان کے لیے اجر ہے، نہ انھیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
حدیث 4
«وعن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير ، وكان اجود ما يكون فى شهر رمضان، إن جبريل حتى عليه السلام كان يلقاه فى كل سنة، فى رمضان ينسلخ ، فيعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة»
صحيح مسلم، كتاب الفضائل، رقم : 6009.
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر (اچھی چیزوں) میں تمام انسانوں میں سے زیادہ سخی تھے اور آپ رمضان کے مہینے میں سخاوت میں بہت ہی زیادہ بڑھ جاتے تھے۔ جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان کے مہینے میں اس کے ختم ہونے تک (روزانہ آ کر) آپ سے ملتے تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے قرآن مجید کی قرآت فرماتے تھے۔ اور جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے آکر ملتے تھے تو آپ خیر (کے عطا کرنے) میں بارش برسانے والی ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے ۔“
مسلمان کو خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾
(93-الضحى:10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور پس سوالی کومت جھڑ کو۔“
حدیث 5
«وعن جابر بن عبد الله قال: ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط، فقال : لا»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6018 .
”اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی چیز کے مانگنے پر نہ نہیں کہا۔ “
مسلمان کو احتراماً بوسہ دینا
حدیث 6
«وعن أبى هريرة ، أن الاقرع بن حابس أبصر النبى صلى الله عليه وسلم يقبل الحسن، فقال: إن لى عشرة من الولد ما قبلت واحدا منهم ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إنه من لا يرحم لا يرحم»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6028.
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دے رہے تھے، انہوں نے کہا: میرے دس بچے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو کبھی بوسہ نہیں دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ “
مسلمان کے سامنے بے حیائی نہ کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾
(24-النور:19)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“
حدیث 7
«وعن مسروق قال: دخلنا على عبد الله بن عمرو حين قدم معاوية إلى الكوفة ، فذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لم يكن فاحشا ولا متفحشا، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن من خياركم أحاسنكم أخلاقا»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، رقم : 6033۔
”اور جناب مسروق نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ہم (ان کے ساتھ آنے والے) حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہا سے جا کر ملے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ طبعا زبان سے کوئی بری بات نکالنے والے تھے اور نہ تکلف کر کے برا کہنے والے تھے، نیز انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔ “
مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا
حدیث 8
«وعن سماك بن حرب قال: قلت لجابر بن سمرة: أكنت تجالس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال: نعم، كثيرا ، كان لا يقوم من مصلاه الذى يصلي فيه الصبح حتى تطلع الشمس ، فإذا طلعت قام ، وكانوا يتحدثون فيأخذون فى أمر الجاهلية فيضحكون ويتبسم صلى الله عليه وسلم»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6035.
”اور سماک بن حرب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، بہت شرکت کی ، آپ جس جگہ پر صبح کی نماز پڑھتے تھے تو سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، جب سورج نکل آتا تو آپ وہاں سے اٹھتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جاہلیت کے (کسی نہ کسی) معاملے کو لیتے اور (اس پر باہم) بات چیت کرتے تو ہنسی مذاق بھی کرتے ، (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صرف) مسکراتے تھے۔“
مسلمان خواتین کا احترام
حدیث 9
«وعن أنس رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، وغلام أسود يقال له: أنجشة ، يحدو، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا انجشة؟ رويدك ، سوقا بالقوارير»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6036.
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر پر تھے اور آپ کا انجشہ نامی حبشی (سیاہ فام) غلام حدی خوانی کر رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے انجشہ ! آبگینوں کے لیے، سواری آہستہ آہستہ ہانکو“
مسلمان کے ساتھ تواضع برتنا
حدیث 10
«وعن أنس بن مالك قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيه، فربما جاؤه فى الغداة الباردة فيغمس يده فيها»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6042 .
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کے خادم (غلام) اپنے برتن لے آتے جن میں پانی ہوتا، جو بھی برتن آپ کے سامنے لایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اس میں ڈبوتے ، بسا اوقات سخت ٹھنڈی صبح میں برتن لائے جاتے تو آپ (پھر بھی) ان میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے۔ “
مسلمان سے ذاتی انتقام نہ لینا
حدیث 11
«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما ، فإن كان إثما كان أبعد الناس منه ، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله عز وجل»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6045.
”اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے (ایک کا) انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ان دونوں میں سے زیادہ آسان کو منتخب فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا۔ اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے ۔ آپ میلی لی یم نے اپنی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ اللہ کی حد کو توڑا جاتا۔ “
مسلمان کے ساتھ خوش طبعی کرنا
حدیث 12
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قالوا: يا رسول الله إنك تداعبنا ، قال: إني لا أقول إلا حقا»
سنن ترمذى، كتاب البر والصلة، رقم : 1990 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1726 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے تعجب اور حیرت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں، لیکن کوئی غلط اور خلاف واقعہ
بات نہیں کہتا۔“
مسلمان بیوی سے حسن سلوک
حدیث 13
«وعن ابن عباس عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : خيركم خيركم لاهله وأنا خيركم لاهلى»
سنن ابن ماجه ، رقم : 1977 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 285.
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور میں تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں اپنی بیویوں کے لیے۔ “
مسلمان کی فوتگی پر تعزیت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
(59-الحشر:10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “
حدیث 14
«وعن معاد أنه مات له ابن فكتب إليه النبى صلى الله عليه وسلم التعزية، بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى معاذ بن جبل سلام عليك ، فإني أحمد إليك الله الذى لا إله إلا هوا، أما بعد فأعظم الله لك الأجر ، والهمك الصبر، ورزقنا وإياك الشكر ، فإن أنفسنا وأموالنا وأهلنا من مواهب الله الهيئة وعواريه المستودعة متعك الله به فى غبطة وسرور وقبضه منك بأجر كبير ، الصلوة والرحمة والهدى إن احتسبته ، فاصبر ولا يحبط جزعك أجرك فتندم ، واعلم أن الجزع لا يرد ميتا ولا يدفع حزنا وما هو نازل فكان قد، والسلام »
كنز العمال، رقم : 42621 .
”اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ تعزیتی خط لکھا (غالباً وہ اس زمانے میں یمن میں تھے ) خط کا مضمون یہ ہے: بسم الله الرحمن الرحيم ! یہ خط اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے معاذ بن جیل رضی اللہ عنہ کے نام ہے، تم پر سلامتی میں اللہ کا شکر اور اس کی حمد و تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ تم بھی اللہ کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔ اما بعد ! اللہ تعالیٰ تمہیں اجر عظیم دے اور تمہیں صبر دے اور ہمیں اور تمہیں شکر کی تو فیق بخشے ۔ ہماری اپنی جانیں اور مال اور بال بچے یہ سب اللہ کی خوشگوار نعمتیں ہیں اور یہ ہمارے پاس اللہ کی رکھی ہوئی امانتیں ہیں۔ جب تک یہ تمہارے پاس رہیں مسرت اور خوشی تمہیں ملے اور ان کے چلے جانے کے بعد اللہ اجر عظیم سے نوازے۔ تمہارے لیے خدا کی رحمت اور انعام اور ہدایت ہو اگر اجر آخرت کی نیت سے صبر کیا۔ پس تم صبر کرو اور دیکھو تمہاری بے قراری اور بے صبری تمہیں اجر سے محروم نہ کرے ورنہ پچھتاؤ گے، اور اس بات کا یقین کرو کہ بے صبری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر نہیں آسکتا اور نہ غم دور ہوسکتا ہے اور جو حادثہ واقعہ ہوا ہے اسے تو ہونا ہی تھا۔ “
مجلس میں چھوٹے بچوں کو اہمیت دینا
حدیث 15
«وعن قرة ابن إياس رضى الله عنه قال: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس إليه نفر من أصحابه ، فيهم رجل له ابن صغير يأتيه من خلف ظهره فيقعده بين يديه فهلك فامتنع الرجل أن يحضر الحلقة لذكر ابنه ، ففقده النبى صلى الله عليه وسلم فقال، مالي لا أرى فلانا؟ قالوا يارسول الله ، بنيه الذى رأيته هلك ، فلقيه النبى صلى الله عليه وسلم فسأله عن بنيه فأخبره أنه هلك فعزاه عليه، ثم قال: يا فلان أيما كان أحب إليك؟ أن تتمتع به عمرك ، أولا تأتي إلى باب من أبواب الجنة إلا وجدته قد سبقك إليه يفتحه لك . قال يا نبي الله ، بل يسبقني إلى باب الجنة فيفتحها ، لهو أحب إلى قال: فذاك لك»
سنن نسائی، کتاب الجنائز، رقم : 2088۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نشست فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ جاتے ، ان بیٹھنے والوں میں ایک صاحب تھے جن کا ایک چھوٹا بچہ تھا، یہ بچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کسی کی جانب سے آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اپنے سامنے بٹھا لیتے، پھر ایسا ہوا کہ وہ بچہ فوت ہوگیا تو بچے کے باپ اس کے غم میں کچھ دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہیں آئے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ وہ فلاں شخص کیوں نہیں آتا؟ کیا بات ہے؟ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بتایا کہ ان کا چھوٹا بچہ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا اس کا انتقال ہو گیا (شاید اسی وجہ سے وہ نہیں آرہے ہیں)۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ملاقات کی اور بچے کے بارے میں دریافت فرمایا، جب انہوں نے بتایا کہ اس بچے کا انتقال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی پھر فرمایا: بتاؤ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ کیا یہ بات پسند ہے کہ وہ بچہ زندہ رہے یا یہ پسند ہے کہ وہ بچہ پہلے جائے اور جنت کا دروازہ تمہارے لیے کھولے اور جب تم پہنچو تو وہ تمہارا استقبال کرے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہی بات پسند ہے کہ وہ مجھ سے پہلے جنت میں جائے اور میرے لیے جنت کا دروازہ کھولے یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بچہ اس لیے تمہاری زندگی میں مرا ہے تا کہ وہ تمہارے لیے جنت کا دروازہ کھولے“
مسلمان مسافروں کا خیال
حدیث 16
«وعن جابر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخلف فى المسير ، فيرجى الضعيف ، ويردف ويدعولهم»
سنن ابوداؤد، رقم : 2639۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قافلے کے پیچھے رہتے ، کمزوروں کو چلاتے اور انہیں اپنی سواری پر پیچھے بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا فرماتے ۔ “
حدیث 17
«وعن عبد الله بن مسعود قال: كنا يوم بدر كل ثلاثة على بعير، فكان أبو لبابة وعلي بن أبى طالب زميلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فكانت إذا جاءت عقبة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال: نمشي عنك ، قال: ما أنتما بأقوى مني ، وما أنا أغنى عن الاجر منكما»
مسند احمد : 422/1، مشكوة، رقم : 3915۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر ایک اونٹ پر تین آدمی ہوتے تھے (سواریوں کی قلت تھی ) تو ابولبابہ اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری پیدل چلنے کی آتی تو دونوں کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر چلیں ہم پیدل چلیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تم دونوں مجھ سے طاقتور نہیں ہو اور تم دونوں سے زیادہ پیدل چلنے کے اجر کا طالب میں ہوں۔ “
مظلوم مسلمان کی مدد کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
(3-آل عمران:57)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔“
حدیث 18
«وعن أنس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انصر أخاك ظالما أو مظلوما . قالوا: يا رسول الله! هذا ننصره مظلوما ، فكيف ننصره ظالما قال: تأخذ فوق يديه»
صحیح بخاری، کتاب المظالم ، رقم : 2444 ۔
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں، لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ (یہی اس کی مدد ہے)“
مسلمانوں سے نرمی سے پیش آنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾
(31-لقمان:19)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اپنی رفتار میں میانہ روی کر اور اپنی آواز پست کر، یقیناً بد سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔“
حدیث 19
«وعن عائشة زوج النبى عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الرفق لا يكون فى شيء إلا زانه ولا ينزع من شيء إلا شانه»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6602۔
” اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نرمی جس چیز میں بھی ہوگی اسے زینت بخشے گی ، اور اسے جس چیز سے نکال دیا جائے وہ اسے بدنما کر دے گی۔ “
اپنے سے بڑے مسلمان کا احترام
حدیث 20
«وعن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس من أمتي من لم يجل كبيرنا ، ويرحم صغيرنا»
مسند احمد 323/5۔ شیخ شعیب الارناؤط نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔
”اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص میری امت میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے۔ “
اہل اسلام سے محبت کرنا
حدیث 21
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ أفشوا السلام بينكم»
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم : 54.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں نہیں جاسکتے تاوقتیکہ پورے مؤمن نہ ہو جاؤ، اور یہ ممکن نہیں جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو جائے۔ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت اور یگانگت پیدا ہو جائے (وہ یہ ہے کہ ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔ “
اہل اسلام کو سلام پیش کرنا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا﴾
(4-النساء:86)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔“
حدیث 22
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا لقي أحدكم أخاه فليسلم عليه ، فإن حالت بينهما شجرة أو جدار أو حجر ثم لقيه فليسلم عليه أيضا»
سنن ابی داؤد، کتاب الادب رقم : 5200 ، سلسلة الصحيحة رقم : 186 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو چاہیے کہ اسے سلام کرے، پھر اگر دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور پھر ملنا ہوتو پھر سلام کہنا چاہیے۔ “
مسلمانوں کے چھ حقوق کا خیال رکھنا
حدیث 23
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حق المسلم على المسلم ست ، قيل: ما هن؟ يا رسول الله! قال: إذا لقيته فسلم عليه ، وإذا دعاك فاجبه ، وإذا استنصحك فانصح له ، وإذا عطس فحمد الله فشمته ، وإذا مرض فعده، وإذا مات فاتبعه»
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم : 5651.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کہو، جب دعوت پر مدعو کرے تو دعوت قبول کرو، جب نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو، چھینک مار کر الحمد لله کہے تو اس کے جواب میں تم يرحمك الله کہو، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وفات پا جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔“
مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرنا
حدیث 24
«وعن تميم الداري أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الدين النصيحة . قلنا لمن قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم : 196 .
” اور سید نا تمیم داری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا: کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول سے، مسلمانوں کے حکمرانوں سے اور عام مسلمانوں سے۔ (دین خیر خواہی ہے)۔“
مسلمان کی تیمار داری کرنا
حدیث 25
«وعن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من عاد مريضا لم يزل فى خرفة الجنة حتى يرجع»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6552 .
”اور سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک مسلمان جب اپنے مریض مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے وہ اتنی دیر جنت کے باغوں سے خوشہ چینی کرتا ہے۔ “
حدیث 26
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله : عزوجل يقول ، يوم القيمة: يا ابن آدم! مرضت فلم تعدني، قال: يا رب كيف اعودك؟ وأنت رب العالمين، قال: اما علمت أن عبدى فلانا مرض فلم تعده ، أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده؟ يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني ، قال: يا رب وكيف أطعمك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه؟ أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي؟ يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني، قال: يارب كيف أسقيك؟ وأنت رب العالمين، :قال: استسقاك عبدي فلان فلم تسقه ، أما إنك لو سقيته وجدت ذلك عندي»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6556.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرزند آدم سے فرمائے گا کہ اے ابن آدم! میں بیمار پڑا تھا تو نے میری خبر نہیں لی۔ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے مالک و پروردگار ! میں کیسے تیری تیمار داری یا بیمار پرسی کر سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تھا، تو نے اس کی عیادت نہیں کی اور خبر نہیں لی۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی خیریت اور تیمار داری کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا: میں تجھے کیسے کھانا کھلا سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کو میرے پاس پالیتا۔ اے ابن آدم! میں نے پینے کے لیے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا: میں تجھے پانی کیسے پلاتا ؟ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے اس کو نہیں پلایا۔ سن ! اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اس کو میرے پاس پالیتا۔ “
مسلمان کی چھینک کا جواب دینا
حدیث 27
«وعن أبى هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: حق المسلم على المسلم خمس رد السلام وعيادة المريض ، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1240 ، صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم : 2162 ۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا، اور چھینکنے والے پر ير حمك الله کہہ کر اس کے لیے دعائے رحمت کرنا۔“
مسلمان کے جنازے میں شرکت
حدیث 28
«وعن أبى هريرة صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من شهد الجنازة حتى يصلى فله قيراط ، ومن شهد حتى تدفن كان له قيراطان، قيل: وما القيراطان؟ قال: مثل الجبلين العظيمين»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1325 .
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جنازے میں شرکت کی، اور نماز جنازہ پڑھی، تو اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے، اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا: دو عظیم پہاڑوں کے برابر “
مسلمان سے قطع رحمی نہ کی جائے
حدیث 29
«وعن أبى أيوب الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال ، يلتقيان فيعرض هذا، ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدأ بالسلام»
صحیح بخاری، کتاب الادب، رقم : 6077.
” اور سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کو تین راتوں سے زیادہ (عرصہ کے لیے ) چھوڑ دے ( یعنی اس سے روٹھا رہے ) ایسے کہ وہ دونوں ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے، اور دوسرا اُدھر منہ پھیر لے، تو ان دونوں میں بہتر سلام کے ساتھ ابتدا کرنے والا ہے۔“
مسلمانوں کے متعلق حسن ظن
حدیث 30
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن ، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا ولا تناجشوا ، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا ، وكونوا عباد الله إخوانا»
صحیح بخاری، کتاب الادب، رقم : 6066 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بدگمانی سے بچو کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، لوگوں کے عیوب کی جستجو نہ کرو، لوگوں کی بات کی ٹوہ میں نہ رہو، حرص نہ کرو، آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، آپس میں قطع رحمی نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرح بھائی بھائی بن کر رہو۔ “
مسلمان کی تحقیر نہ کی جائے
حدیث 31
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تحاسدوا، ولا تناجشوا ، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، ولا تبع بعضكم على بيع بعض ، وكونوا عباد الله اخوانا، المسلم اخو المسلم ، لا يظلمه ، ولا يخذله ، ولا يحقره ، التقوى ههنا ، ويشير إلى صدره ثلاث مرات ، بحسب امرء من الشر أن يحقر أخاه المسلم، كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه»
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة رقم : 6541 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، دوسرے کی بولی پر بغیر نیت خرید کے بولی نہ بولو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، آپس میں قطع رحمی نہ کرو، کسی دوسرے کے سودے پر اپنا سودا نہ پیش کرو، اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے، نہ اس کو حقیر سمجھے، تقویٰ یہاں ہے۔ آپ نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا، آپ نے فرمایا: آدمی کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو حرام ہے۔“
مسلمانوں سے باہم اتفاق سے رہیں
حدیث 32
«وعن أبى موسى عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا ، ثم شبك بين أصابعه»
صحیح بخاری ، کتاب الادب، رقم : 6026 ، صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة ، رقم: 6585.
” اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت جیسا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا ( کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہیے)۔ “
مسلمانوں کو ایذاء نہ پہنچائی جائے
حدیث 33
«وعن أبى حرمة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من ضار أضر الله به ، ومن شاق شاق الله عليه»
سنن ابی داؤد ، کتاب القضاة رقم 3635، سنن ترمذی، کتاب البر والصلة ، رقم : 1940 ۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا ابو حرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو ضرر پہنچایا، اللہ تعالیٰ اسے ضرر دے گا، اور جس نے کسی مسلمان کو مشقت میں مبتلا کیا ، اللہ تعالیٰ اسے مشقت اور مصیبت میں مبتلا فر مائے گا۔ “
ستر مسلم
حدیث 34
«وعن عبد الله بن عمر رضى الله عنه أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم لا يظلمه، ولا يسلمه، ومن كان فى حاجة أخيه كان الله فى حاجته ، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الـ الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة»
صحیح بخاری، کتاب المظالم ، رقم : 2442 ، صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة، رقم : 2580.
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (اس لیے ) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے، نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کو بے یار و مددگار چھوڑے، اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرے گا، اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور مصیبت کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ روز قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کی مصیبت دور کریں گے، اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ “
مسلمانوں سے لڑائی جھگڑا مت کیا جائے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾
(4-النساء:93)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“
حدیث 35
«وحدثني عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سباب المسلم فسوق ، وقتاله كفر»
صحیح بخاری، کتاب الایمان ، رقم : 48 ، صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، رقم : 64 ۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے، اور اسے ناحق قتل کرنا کفر ہے۔ “
مسلمان کی مدد کرنا
حدیث 36
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من نفس عن ، مؤمن كربة من كرب الدنيا، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ، ومن يسر على معسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه»
صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، رقم : 6853.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی دنیا کی مصیبتوں اور سختیوں میں سے کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قیامت کی سختیوں میں سے اس کی کوئی سختی دور فرما دے گا، اور جو کوئی کسی تنگ دست کے لیے دنیا میں آسانی پیدا کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا اور فرمایا: جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ “
حرمت مسلم
حدیث 37
«وعن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من رد عن عرض أخيه رد الله عن وجهه النار يوم القيامة »
سنن ترمذى، كتاب البر والصلة ، رقم : 1931، مسند احمد ، 449/6، 461۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سید نا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کی آبرو کی حفاظت کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے چہرے کو آتش جہنم سے محفوظ رکھے گا۔“
مسلمانوں کی ملاقات کے لیے جانا
حدیث 38
«وعن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا»
سنن ترمذی، کتاب الاستيذان، باب ما جاء في المصافحة ، رقم: 2727، سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، رقم : 5212 ، سلسلة الصحيحة ، رقم : 525.
”اور سیدنا براء بن عازب عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کو بخش دیا جاتا ہے۔ “
مسلمانوں کے عیوب تلاش نہ کیے جائیں
حدیث 39
«وعن ابن عمر قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فنادى بصوت رفيع فقال: يا معشر من أسلم بلسانه ولم يفض الإيمان إلى قلبه ، لا تؤذوا المسلمين ولا تعيروهم ، ولا تتبعوا عوراتهم ، فإنه من تتبع عورة أخيه المسلم تتبع الله عورته، ومن تتبع اللـه عورته يفضحه ولو فى جوف رحله»
سنن ترمذی، کتاب البر ، رقم : 2032 ، سنن ابوداؤد کتاب الادب، رقم :4880۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے ، اور بلند آواز سے فرمایا کہ: اے وہ لوگو! جو زبان سے اسلام لائے ہو اور ان کے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح نہیں اترا۔ مسلمانوں کو ستانے اور عار دلانے اور شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو، ورنہ اللہ بھی اسے رسوا کرے گا جو کسی مسلمان کو (اس کے عیب تلاش کر کے) رسوا کرے گا اگر چہ وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو۔ “
مسلمان کو گالی مت دو
حدیث 40
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من الكبائر شتم الرجل والديه . قالوا: يا رسول الله وهل يشتم الرجل والديه قال: نعم يسب أبا الرجل ، فيسب أباه، ويسب أمه ، فيست أمه»
صحیح مسلم، کتاب الايمان ، رقم : 313 .
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ کہا گیا کہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ آپ مسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں ! کہ وہ کسی آدمی کے باپ کو گالی دے تو وہ اس کے باپ کو گالی دے، اور وہ اُس کی ماں کو گالی دے، اور وہ اِس کی ماں کو گالی دے۔ “
مسلمان کی پیٹھ پیچھے دعا کرنا
حدیث 41
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته ، علما علمه ونشره ، وولدا صالحا تركه ، ومصحفا ورثه ، أو مسجدا بناه أو بيتا لإبن السبيل بناه ، أو نهرا أجراه ، أو صدقة أخرجها من ماله فى صحته وحياته ، يلحقه من بعد موته»
سنن ابن ماجه ، مقدمه ، باب ثواب معلم الناس ، رقم : 242 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کو جس عمل یا جن نیکیوں کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا ہے ان میں سے ایک تو علم ہے جسے اس نے سیکھا اور پھر اس کی اشاعت کی ، دوسرا نیک اولاد جو اس نے چھوڑی، تیسرا وہ نسخہ قرآن جو اس نے کسی کو تلاوت کے لیے دیا، چوتھا وہ مسجد جو اس نے تعمیر کروائی، پانچواں وہ مسافر خانہ جو اس نے مسافروں کے لیے بنایا، چھٹا وہ نہر جو اس نے جاری کی، ساتواں وہ صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت مند ہوتے ہوئے اپنے مال سے کیا، ان سب کاموں کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے پہنچتا رہے گا۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين