سوال
اچانک موت (موتُ الفَجأَة) جس سے نبی ﷺ نے پناہ مانگی ہے، اگر کوئی نیک آدمی کسی حادثے میں اچانک فوت ہوجائے تو کیا ایسی موت شہادت کی موت تصور کی جائے گی یا بری موت ہے؟
جواب از قاری سامہ بن عبدالسلام
░ الحمد للہ، والصلوٰة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد ░
"اچانک موت” (موت الفجأة) کے بارے میں شرعی نصوص میں بظاہر دو مختلف پہلو پائے جاتے ہیں:
کچھ روایات میں اسے ناروا یا غضبِ الٰہی کا نتیجہ کہا گیا ہے،
جبکہ بعض آثار میں اسے مؤمن کے لیے رحمت و راحت قرار دیا گیا ہے۔
ذیل میں دونوں پہلوؤں کے دلائل اور ان کے درمیان تطبیق پیش کی جاتی ہے۔
✿ پہلا موقف: اچانک موت (موتُ الفَجأَة) بری اور ناروا ہے
▣ دلیل ۱:
حدیث:
عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ السَّلَمِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «مَوْتُ الْفَجْأَةِ أَخْذَةُ أَسَفٍ»
ترجمہ: اچانک موت اللہ تعالیٰ کے غضب کی ایک گرفت ہے۔
(سنن أبي داود، حدیث: 3110 / سنن البيهقي 3/377)
📘 امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“فِيهِ أَنَّ الْفَجْأَةَ قَدْ تَكُونُ عُقُوبَةً، لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مُسْتَعِدًّا لِلْمَوْتِ.”
(شرح صحیح مسلم، ج 6، ص 271)
یعنی: اچانک موت اس کے لیے عذاب ہو سکتی ہے جو موت کے لیے تیار نہ ہو۔
✿ دوسرا موقف: اچانک موت مؤمن کے لیے رحمت و راحت ہے
▣ دلیل ۲:
روایتِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ:
«مَوْتُ الْفَجْأَةِ رَاحَةٌ لِلْمُؤْمِنِ وَأَخْذَةُ أَسَفٍ لِلْفَاجِرِ»
ترجمہ: اچانک موت مؤمن کے لیے راحت ہے اور فاجر کے لیے عذاب۔
(مصنف ابن أبي شيبة 3/247، رقم: 10218)
(البيهقي في الشعب 7/255)
(المشكاة: 1611)
📘 امام ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ حَسَنٌ.”
(فتح الباري 3/254)
یعنی: اس کی سند صحیح ہے اور مفہوم نہایت عمدہ ہے۔
✿ تیسرے پہلو سے تطبیق (جمع و توفیق)
▣ علمائے محدثین کی توضیح:
📘 علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (شرح الترمذی، تحفة الأحوذي، کتاب الجنائز، ص:14) فرماتے ہیں:
“أحاديث الفجأة منها ما يدل على كونها نقمة، ومنها ما يدل على كونها رحمة، والجمع بينهما أن من كان مستعدًّا للموت فهي له راحة، ومن كان غافلاً فهي له نقمة.”
ترجمہ: موتِ فجأہ کے بارے میں جو روایات وارد ہیں، کچھ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب ہے اور کچھ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رحمت ہے،
ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ جو شخص موت کے لیے تیار ہو، اس کے لیے یہ راحت ہے،
اور جو غافل ہو، اس کے لیے یہ عذاب ہے۔
📘 امام ابن حجر العسقلاني بھی فرماتے ہیں:
“الذي يموت فجأة إن كان على استقامةٍ فهي راحة له، وإلا فهي عقوبة.”
(فتح الباري 3/255)
یعنی: جو شخص استقامت پر ہو اور اچانک فوت ہو جائے تو اس کے لیے یہ راحت ہے، ورنہ سزا ہے۔
✿ قرآن کی روشنی میں استدلال
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: 185)
﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ (لقمان: 34)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ موت کا وقت، طریقہ یا سبب انسان کے اختیار میں نہیں —
اصل نجات اس کے ایمان، نیت اور اعمالِ صالحہ پر موقوف ہے، نہ کہ موت کی صورت پر۔
✿ شہادت کا درجہ
حادثے میں فوت ہونا ظاہری شہادت (شہادتِ حکمیہ) میں شامل ہو سکتا ہے،
جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«الشهداء خمسة… والمطعون، والمبطون، والغريق، وصاحب الهدم، والمقتول في سبيل الله.»
(صحیح البخاري: 2829، صحیح مسلم: 1914)
لہٰذا اگر اچانک حادثے میں کوئی مومن ایمان پر فوت ہو جائے، تو وہ بھی ان شاء اللہ شہادت کے اجر میں شامل ہو سکتا ہے۔
✿ خلاصہ و فیصلہ
➊ اچانک موت بذاتِ خود بری یا اچھی نہیں، بلکہ اس کا دار و مدار انسان کی حالتِ ایمان اور تیاری پر ہے۔
➋ جو ایمان و اعمال میں مستعد ہے، اس کے لیے یہ راحت و رحمت ہے۔
➌ جو غفلت میں ہے، اس کے لیے یہ غضب اور گرفت ہے۔
➍ اس کو شہادت کا درجہ صرف اس وقت ملے گا جب وہ حادثہ ان اسبابِ شہادت میں سے ہو جنہیں نصوص میں ذکر کیا گیا ہے۔
✿ حوالہ جاتِ معتمدہ
1. صحیح البخاري: کتاب الجنائز، حدیث: 2760
2. سنن أبي داود: حدیث: 3110
3. مصنف ابن أبي شيبة: 3/247، رقم: 10218
4. البيهقي في الشعب: 7/255
5. المشكاة: 1611
6. فتح الباري: 3/254–255
7. تحفة الأحوذي: كتاب الجنائز، ص:14
✿ نتیجۂ کلام
❝ اچانک موت اس کے لیے راحت ہے جو ہمیشہ موت کی تیاری میں ہو،
اور اس کے لیے وبال ہے جو دنیا میں غافل ہو۔ ❞
﴿وَلَا تمُوتَنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾
(آل عمران: 102)