اپنے دفاع میں قتل کی صورت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر اپنے دفاع میں کسی کو قتل کر دے
تو اس پر کوئی دیت اور کفارہ نہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر دریافت کیا کہ اگر کوئی میرا مال چھیننا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے نہ دو ۔“ پھر اس نے پوچھا اگر وہ مجھ سے لڑائی کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بھی اس کے ساتھ لڑائی کر ۔“ پھر اس نے پوچھا اگر وہ مجھے قتل کر دے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم شہید ہو ۔“ پھر اس نے پوچھا اگر میں اسے قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فهو فى النار
”تو وہ جہنم کی آگ میں ہے ۔“
[مسلم: 140 ، كتاب الإيمان: باب الدليل على من قصد أخذ مال غير بغير حق ، احمد: 339/2]
(سید سابقؒ ) اگر کوئی اس دفاعی قتل کا دعوی کرے اور اس پر دلیل و شواہد قائم کر دے تو اس سے قصاص و دیت ساقط ہو جائے گی ورنہ اسے مقتول کے اولیاء کے حوالے کر دیا جائے گا وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو معاف کر دیں ۔
[فقه السنة: 75/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے