اُمِّ ولد کی بیع کا حکم اور فقہی اختلاف
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر وہ مکاتبت کی رقم ادا کرنے سے عاجز آجائے تو وہ دوبارہ غلامی میں لوٹ آئے گا اور جس شخص کا اپنی لونڈی سے بچہ پیدا ہو جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اسے فروخت کرے
کیونکہ مالک سے آزادی کا معاہدہ صرف رقم کے عوض میں تھا اور اب جبکہ وہ رقم ہی ادا نہیں کر سکا اس لیے یقیناََ غلام ہی ہے ۔
أم ولد ایسی لونڈی کو کہتے ہیں جس سے اس کے مالک کا بچہ پیدا ہو چکا ہو ۔
[نيل الأوطار: 168/4]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، نے اُم ولد لونڈیوں کی بیع سے منع فرمایا اور کہا کہ :
لا تباع ولا تورث يستمتع بها ما بدا له ، فإذا مات فهي حرة
”یہ لونڈی نہ تو ہبہ کی جا سکتی ہے اور نہ ہی میراث میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ جب تک مالک چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جب فوت ہو جائے تو وہ لونڈی آزاد ہے۔“
[موطا: 776/2 ، دارقطني: 134/4 ، بيهقى: 342/10]
جو لوگ اُم ولد لونڈیوں کی بیع کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نبيع سرارينا أمهات الأولاد والنبي صلى الله عليه وسلم حي لا يرى بذلك باسا
”ہم اپنی اُم ولد لونڈیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فروخت کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی قباحت و مضائقہ نہیں سمجھتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3345 ، كتاب العتق: باب فى عتق أمهات الأولاد ، إرواء الغليل: 1777 ، ابو داود: 3954 ، ابن حبان: 4308 ، حاكم: 19/2 ، ابن ماجة: 2517 ، بيهقي: 347/10 ، الفتح الرباني: 161/14 ، موارد الظمآن: 1216]
(ابن حزمؒ ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اگرچہ سند صحیح ہے لیکن اسے اس لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس عمل کا علم تھا۔
[المحلى بالآثار: 214/8]
(خطابیؒ) ممکن ہے کہ پہلے یہ بیع جائز ہو پھر آخری عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ہو لیکن یہ بات زیادہ مشہور نہ ہوئی ہو پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے منع فرما دیا ۔
[معالم السنن: 74/4]
(جمہور ) اُم ولد کی بیع جائز نہیں ۔
[نيل الأوطار: 169/4]
(ابن قدامہؒ) اسی پر صحابہ کا اجماع ہے۔
[المغنى: 587/14]
(راجح) اُم ولد کی بیع مکروہ ہے حرام نہیں ۔
حرام اس لیے نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح حدیث میں بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں ۔ جواز اس لیے نہیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس عمل کا علم تھا اور پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا ۔
[سبل السلام: 1058/3 ، نيل الأوطار: 170/4]
اور وہ (اُم ولد لونڈی ) مالک کے فوت ہونے یا آزادی کا اختیار دینے سے آزاد ہو جائے گی
➊ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
فإذا مات فهي حرة
”اور جب مالک فوت ہو جائے تو وہ آزاد ہے ۔“
[مؤطا: 776/2]
➋ حضرت جویریہ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم میراث میں چھوڑا اور نہ دینار اور نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی اور نہ کوئی اور چیز ۔ بس ایک سفید خچر ، اپنا اسلحہ جنگ اور کچھ زمین جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کر دیا تھا۔
[بخاري: 2739 ، کتاب الوصايا: باب الوصايا]
اس حدیث میں محل شاہد یہ ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی لونڈی نہیں چھوڑی حالانکہ یہ بات مسلم ہے
کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُم ولد لونڈی تھیں ، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئیں ۔
[قفو الأثر: 1796/5]
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ان کی اُم ولد لونڈی تھیں لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ لونڈی نہ رہیں بلکہ آزاد ہو گئیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1