اُمت مسلمہ شرک نہیں کر سکتی، اشرف جلالی بریلوی کا شبہہ
یہ اقتباس الشیخ سید توصیف الرحمٰن راشدی کی کتاب عقیدہ توحید پر جلالی کے شبہات کا ازالہ سے ماخوذ ہے۔

اشرف جلالی بریلوی صاحب مزید کہتے ہیں:

اگر غور کیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ جس امت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری کے بعد کسی نبی کی نبوت نہیں چلنے دی اور شرک فی النبوة کو برداشت نہیں کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے یہ دعویٰ کیا ہے اس کا ڈٹ کے مقابلہ کیا ہے۔ جو امت سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی وجہ سے آج تک شرک فی النبوة برداشت نہیں کر سکی وہ شرک فی الالوہیت کیسے برداشت کر سکتی ہے؟

اس شبہ ک ازالہ:

جلالی صاحب، یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس امت کے اندر شرک نہیں آئے گا، کیونکہ یہ کسی نبی کی نبوت کو چلنے نہیں دیتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد۔ شاید مولوی صاحب کا حافظہ تھوڑا سا خراب ہو گیا ہے، ورنہ اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب اس امت کے افراد تھے یا نہیں؟
❀ گوہر شاہی، قبر پرستوں کی جماعت کا آدمی تھا، جس نے مہدی ہونے کا اعلان کیا، پھر جھوٹ کے پلندے کھڑے کیے اور کہا: میری تصویر حجر اسود میں بھی آگئی، اور چاند میں بھی تصویر آگئی، صرف مومن کو نظر آئے گی، منافق اور جھوٹے کو نظر نہیں آئے گی۔ ہر بندہ خود سے منافق اور جھوٹے ہونے سے بچنے کے لیے کہتا ہے: جی واقعی، آپ کی تصویر نظر آ رہی ہے۔ اے! مرزا قادیانی دعوائے نبوت سے پہلے یہودی یا عیسائی تو نہیں تھا۔ وہ اسی امت کا ایک فرد تھا۔ مریدوں کی کثرت اور قوت کو دیکھ کر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا، کیا اس نے شرک فی النبوة نہیں کیا؟ اور اگر کوئی اس اعتراض کے جواب میں یہ کہے کہ یہ لوگ شرک فی النبوة کر کے امت سے خارج ہوئے ہیں تو ہم عرض کریں گے کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ کب امت میں باقی رہ جاتا ہے۔
لیکن ماننا پڑے گا کہ اس امت کا ایک گروہ ایسا تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں شرک کا جرم کیا اور اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادت میں بھی شرک کیا۔
جلالی صاحب! آئیے قرآن مجید کا پیغام اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ کیجئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
(غافر: 60)
مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔
وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَبْ
(الانشراح: 8)
اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله
جب سوال کرو تو اللہ تعالیٰ سے اور جب مدد مانگو تو اللہ تعالیٰ سے۔
یہ حدیث ان حاجیوں کو بتانی چاہیے جو مکہ جا کر فون کرتے ہیں کہ میں نے حج کر لیا ہے مگر مجھے بخار ہو گیا ہے، علی ہجویری رحمہ اللہ کی قبر پر نیاز دے دو اور کہو داتا صاحب! بخار اتار دیں۔ یہ حج اور عمرہ کرنے کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ کیا یہ شرک نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر بھی اللہ کے بندوں سے سوال کرتے ہیں۔ ہمیں انبیاء علیہم السلام کی سیرت اور زندگی سے بہت سبق حاصل ہوتا ہے۔ تمام انبیاء نے صرف رب العالمین کو پکارا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، امام الموحدین نے جب کلمہ لا إله إلا الله کی دعوت دی تو گھر والے، اپنے اور پرائے قوم کبھی دشمن بن گئے، جبریل علیہ السلام آئے، کہا: کوئی حاجت ہے؟ فرمایا: حاجت تو ہے مگر آپ سے نہیں، آپ کے رب سے ہے، اور فرمایا:
حسبنا الله
اور سیدنا ایوب علیہ السلام حالت بیماری میں کہتے ہیں:
رَبِّ إِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
(الأنبياء: 83)
اے میرے رب! مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ایوب علیہ السلام نے اپنے سے پہلے گزرے انبیاء کو نہیں پکارا۔ سیدنا نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرتے رہے اور دعوت توحید دیتے رہے۔ بیٹے کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ کر رب کو پکارتے ہیں۔
ہمیں ان انبیاء کرام کی سیرت سے یہ سبق ملا کہ جب بھی پکارو تو صرف اللہ تعالیٰ کو۔
جنہیں انبیاء کی سیرت سے یہ سبق ملا انہیں مبارک ہو۔
جنہیں یہ سعادت نصیب نہ ہوئی ان کے حصے میں ملفوظات آئیں۔
❀ جس ملفوظات میں ہے کہ جنید بغدادی رحمہ اللہ دریا کے اوپر بغیر کشتی کے جا رہے تھے کہ یا اللہ یا اللہ کہا اور پانی پر چلنا شروع کر دیا، مثل سڑک کراس کرنے لگے۔ پیچھے سے ایک مرید آیا اور کہا: شاہ جی، میں نے بھی پار جانا ہے۔ کہا: تو کہہ یا جنید! یا جنید! اس نے یہ کہنا شروع کر دیا، دریا نے اسے بھی راستہ دے دیا، اور جب درمیان دریا کے پہنچا تو شیطان لعین نے مرید کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت تو اللہ کو پکارے اور میں پیر کو؟ میں بھی اللہ کو پکاروں گا، اس نے فوراً کہا: یا اللہ! تو اسے غوطہ آیا اور وہ نیچے۔ اس نے کہا: پیر جی، میں گیا، کہا: بے وقوف، تجھے کس نے کہا کہ تو یا اللہ کہے، بلکہ تو کہہ یا جنید! اس نے کہا: یا جنید! پانی اسے فوراً اوپر لے آیا۔ جب باہر آیا، مرید نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے حضرت! آپ یا اللہ کہیں اور میں یا جنید؟ کہا: بے وقوف! ابھی تو جنید تک پہنچا نہیں، اللہ تک کیسے پہنچے گا۔
❀ جلالی صاحب! کاش! آپ نے عوام کو شرک فی النبوة کا معنی و مفہوم اور اس کے تقاضے بتائے ہوتے تو عوام پیروں، فقیروں وغیرہ کے چنگل میں نہ پھنستی، یہ پیر پرستی کا سارا دھندہ اور اس کی عمارت پاش پاش ہو جاتی، اور پھر آپ یہ لفظ استعمال کرنے سے قبل اپنے مفتیوں سے پوچھ لیتے کہ کہیں یہ لفظ وہابیوں نے تو نہیں گڑھ لیا؟
❀ مفتی اقتدار احمد نعیمی رحمہ اللہ فتاویٰ نعیمیہ جلد: 2، ص: 404 پر لکھتے ہیں کہ:
اب حال ہی میں ان لوگوں نے تقلید کے خلاف شرك فى الرسالت کا لفظ ایجاد کیا، حالانکہ یہ لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔
حضرت! آپ کہتے ہیں کہ ہم شرک فی الرسالت نہیں کرتے۔ ادھر مفتی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔
کل تک جس لفظ کو آپ غیروں کی ایجاد کہتے تھے، آج آپ کی زبان کی نوک پر کیسے آ گیا؟ چلیں خیر، دیر آئے، درست آئے۔

شرک فی الرسالت کیا ہے؟

اب آئیے یہ بات سمجھتے ہیں کہ شرک فی الرسالت کیا ہے؟

❀ ابن العز الحنفی رحمہ اللہ شرح عقیدہ طحاویہ میں کہتے ہیں:
فهما توحيدان، لا نجاة للعبد من عذاب الله إلا بهما: توحيد المرسل وتوحيد متابعة الرسول
توحید کی دو قسمیں ہیں: اگر کوئی شخص اللہ کے عذاب سے نجات چاہتا ہے تو ان دو قسموں کو تسلیم کرنا پڑے گا: پہلی قسم توحید مرسل یعنی بھیجنے والے (اللہ) کی توحید، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور میں سے نور قرار دینا کیا ہے؟ اور یہ اشعار:

چاچڑ وانگ مدینہ دے تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
ظاہر دے وچ پیر فرید نے باطن وچ اللہ
اتوں اتوں بابا فرید وچوں وچوں اللہ

کیا ان اشعار کو آپ توحیدی اشعار کہیں گے؟

❀ اسی طرح ایک بدبخت اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو ابو طالب رضی اللہ عنہ ایک پادری کے پاس گئے۔ کہا: 13 رجب کو اتنے بجے ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس کا زائچہ بنا کر بتا وہ کیسا ہوگا؟ اس نے کاغذ و قلم لیا اور زائچہ بنانے لگا، ایک بنایا، اسے پھاڑ دیا، دوسرا بنایا، اسے پھاڑ دیا، لا تعداد زائچے بنانے کے بعد پھاڑتا رہا۔ ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا بات ہے؟ کہا: اس وقت میں اللہ پیدا ہو سکتا ہے، کوئی بچہ نہیں۔ (نعوذ بالله من ذلك)
بشرط صحت، اللہ کا بیٹا ماننے والا پادری تو ایسے ہی زائچہ بنائے گا۔ اس قسم کے پلید اور باطل عقائد و واقعات کی ہم مذمت کریں تو ہمیں گستاخ اور بے ادب کہا جاتا ہے۔
❀ امام قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے:
وإنا والله ما نعلمه كان شركا قط إلا بإحدىٰ ثلاث: أن يدعو مع الله إلٰها آخر، أو يسجد لغير الله، أو يسمي الذبائح لغير الله
اللہ کی قسم! ہم ان تین کاموں کے سوا کسی اور کو شرک نہیں جانتے تھے: پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارنا، دوسرا یہ کہ کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرے اور تیسرا یہ کہ کوئی غیر اللہ کے نام پر اپنے جانور ذبح کرے۔
تفسير الطبري: 12/81، رقم: 13820
❀ اگر کوئی اعتراض کرے کہ ہم اللہ کے ساتھ دوسرے الہ نہیں پکارتے اور ہم اپنے بزرگوں اور پیروں کو الہ نہیں کہتے تو اس کا جواب میں یوں دیتا ہوں کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب یہ فرمان الہی سنتے ہیں:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ
(التوبة: 31)
انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو رب بنایا اللہ کے سوا۔
تو فرماتے ہیں: اے اللہ کے رسول! ہم نے اپنے پیشواؤں کو رب نہیں کہا۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولٰكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه، وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه
یہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ جب وہ ان کے لیے کوئی چیز حلال کہتے تو وہ اسے حلال سمجھتے اور جب ان پر کوئی چیز حرام کر دیتے تو وہ اسے حرام سمجھتے۔
سنن ترمذي: 3095؛ نیز دیکھیے: تفسير ضياء القرآن، ج: 2، ص: 198؛ تفسير نعيمي، ج: 10، ص: 251
❀ اسی طرح سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معرکہ حنین کے لیے نکلے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے،
يقال له ذات أنواط
اس درخت کو ذات انواط کہا جاتا تھا۔ وہ اپنا اسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس درخت کو دیکھ کر کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے لیے بھی ذات انواط بنوا دیں جیسے ان کا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! تمہاری یہ بات ایسی ہی ہے جیسے قوم موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا:
اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ
(الأعراف: 138)
ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیں جیسے ان کے معبود ہیں۔
جلالی صاحب! آپ کہتے ہیں کہ شرک یہ ہے کہ کسی غیر اللہ کو واجب الوجود اور مستحق عبادت ماننا، تو کیا یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے درخت کو واجب الوجود اور مستحق عبادت مانا تھا؟ ہرگز نہیں! تاہم اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تم نے تو قوم موسیٰ علیہ السلام جیسی بات کہی ہے۔ چنانچہ کوئی مومن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق شرک کا سوچ بھی نہیں سکتا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ادنیٰ سی گستاخی باعث ہلاکت اور بربادی ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ صرف غیر اللہ کو الہ کہنے سے اللہ ماننا نہیں ہوتا، بلکہ ایسے کام کرنا جو صرف الہ کے لیے خاص ہوتے ہیں، یہ بھی اللہ بنانے کے مترادف ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے جو دوسری بات کہی ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی شرک ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سجدہ کرنا تو دور کی بات، قبروں اور مزاروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاتی ہے۔ تیسرا کام جو شرک میں شامل ہے، وہ یہ ہے کہ ذبح ہونے والے جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر رکھا جائے، یعنی یہ جانور فلاں موقع پر بزرگوں کے نام پر، یہ عرس پر، اور یہ فلاں موقع پر وغیرہ۔
(سنن ترمذي: 2180)

بتوں کی محبت غالب اور رب کی محبت مغلوب کا شبہ

کہتے ہیں: پوری دنیا میں تم دیکھ لو، تمہیں اس امت کا ایک بھی فرد ایسا نہیں ملے گا کہ جس کا عقیدہ توحید اتنا ریتلا ہو چکا ہو، کھوکھلا ہو کہ اس کے دل میں بتوں کی محبت غالب آ جائے اور رب کی محبت اور عقیدہ مغلوب ہو جائے۔

اس شبہے کا ازالہ:

یعنی ان صاحب کے نزدیک اگر بتوں کی محبت زیادہ ہوئی، غالب آ گئی اور رب کی محبت مغلوب ہو گئی تب پھر یہ مشرک ہوگا۔
میں کہتا ہوں کہ اگر بتوں کی محبت اور رب کی محبت برابر برابر ہو جائے پھر وہ مومن ہوگا؟ انڈیا میں ایک کمرے میں کعبہ کی تصویر اور دوسری طرف بھگوان کی تصویر، دونوں کی برابر محبت ہے تو کیا وہ مومن ہے؟ جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شرک کے شائبہ والی جگہ پر اللہ کی عبادت بھی درست نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہتمام فرمایا جیسا کہ ایک سائل نے پوچھا کہ بوانہ مقام پر میں نے نذر مانی تھی جانور ذبح کرنے کی، کیا میں وہاں ذبح کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں مشرکوں کا میلہ تو نہیں لگتا تھا؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: کیا وہاں کوئی بت تو نہیں تھا؟ کہا: نہیں۔ پھر فرمایا: جاؤ اپنی نذر پوری کر لو۔
سنن ابن ماجه : 2131.
❀ حضرت! آپ کو قوم میں ایک فرد نہیں، بلکہ افراد مل جائیں گے۔ انڈیا کے قبر پرستوں کے ایک جلوس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سبز پگڑیاں پہنے ہوئے، سرنگی اور ڈھول بجتے ہوئے یہ بابا جی کے مندر پر جا رہے ہیں اور وہ مندر ہندوؤں کا مندر ہے، مورتی کا مندر ہے اور وہاں جا کر مندر پر پھول چڑھاتے ہیں، عبادت بھی کرتے ہیں، اسے پکارتے ہیں اور اس سے مانگتے بھی ہیں۔ اب ان مسلمانوں کو آپ کیا کہیں گے؟ مشرک یا موحد؟
❀ اسی طرح انڈیا کا ایک قبر پرست میاں محبوب علی بابا، یہ انڈیا کے موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک مورتی کو ہار پہناتا ہے اور شمع جلاتا ہے۔ لوگو! اسی لیے ہم قبر پرستی سے روکتے ہیں، کیونکہ یہ آگے جا کر صنم پرستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
❀ اسی طرح آپ کے پیر ہیں عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ، جن کی امام احمد رضا رحمہ اللہ نے ملفوظات میں بڑی تعریف کی ہے۔ پیر عبد الوہاب رحمہ اللہ اپنی کتاب الطبقات الكبرى(2/147) پر ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ وہ بزرگ سرکار محمد الغبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
كان من أصحاب جدي أنه جاءهم يوم الجمعة فسألوه الخطبة وقال: بسم الله فطلع المنبر فحمد الله وأثنىٰ عليه ومجده فقال: أشهد أن لا إله لكم إلا إبليس عليه الصلاة والسلام فقال الناس: كفر فسل السيف ونزل وحارب الناس كلهم من الجامع فجلس عند المنبر إلىٰ آذان العصر
کہتا ہے کہ سرکار محمد الغبری رحمہ اللہ میرے دادا کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک دفعہ وہ جمعہ کے دن ان کے پاس آئے، لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ خطبہ جمعہ پڑھائیں۔ اس نے کہا: بسم اللہ۔ چنانچہ وہ منبر پر چڑھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی بزرگی بیان کی۔ پھر کہنے لگے: میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا معبود صرف ابلیس ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ کافر ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے تلوار نکالی، منبر سے اترا اور سارے لوگ مسجد سے باہر بھاگ گئے۔ پھر وہ اذان عصر تک منبر کے پاس بیٹھا رہا، اس انتظار میں کہ کون آتا ہے۔
اب بتائیے، یہ شرک ہے یا نہیں؟
ابن العز الحنفی رحمہ اللہ نے توحید کی دوسری قسم بیان کی ہے: توحيد متابعة الرسول یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع۔ اور یہ کیسے ہوگی؟
فرماتے ہیں:
فلا يحاكم إلىٰ غيره، ولا يرضىٰ بحكم غيره، ولا يقف تنفيذ أمره وتصديق خبره علىٰ عرضه علىٰ قول شيخه وإمامه وذوي مذهبه وطائفته ومن يعظمه، فإن أذنوا له نفذه وقبل خبره وإلا فإن طلب السلامة فوضه إليهم وأعرض عن أمره وخبره، وإلا حرفه عن مواضعه، وسمىٰ تحريفه تأويلا وحملا فقال: نؤوله ونحمله فلان يلقىٰ العبد ربه بكل ذنب، ما خلا الإشراك بالله… خير له من أن يلقاه بهذا الحال، بل إذا بلغه الحديث الصحيح يعد نفسه كأنه سمعه من رسول الله صلىٰ الله عليه وسلم فهل يسوغ أن يؤخر قبوله والعمل به حتىٰ يعرضه علىٰ ر أى فلان وكلامه ومذهبه؟ بل كان الغرض المبادرة إلىٰ امتثاله من غير التفات إلىٰ سواه، ولا يستشكل قوله لمخالفته ر أى فلان، بل تستشكل الآراء لقوله، ولا يعارض نصه بقياس، بل تهدر الأقيسة وتلفىٰ لنصوصه، ولا يحرف كلامه عن حقيقته
ہم اس وقت تک نجات حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک معبود نہ سمجھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو ایک مطاع نہ سمجھیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر کی جانب فیصلہ لے جائیں، نہ اس کے فیصلہ کو تسلیم کریں، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نفاذ میں توقف اختیار کریں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کسی امام، شیخ کے قول پر پیش کریں۔ اگر ان کے قول کے مطابق ہو تو نافذ کریں، نہ ائمہ، مشائخ کی طرف تفویض کریں اور تحریف کے مرتکب ہو کر اس کا نام تاویل رکھیں۔ یہ سب کچھ توحید فی الرسالة کے منافی ہے اور اس قسم کے نظریات والا انسان نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ بلکہ شرک کے علاوہ دیگر تمام گناہوں کے ساتھ اگر کوئی شخص بارگاہ الہی میں جاتا ہے تو اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ وہ بارگاہ الہی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے دست کش ہو کر کسی امام، شیخ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہو یا ان کے اقوال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر تفوق عطا کرتا ہو۔ بس ایک مسلمان کا یہ حال ہو کہ جب اسے صحیح حدیث کا علم ہو جائے تو وہ یوں سمجھے کہ وہ اس حدیث کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رہا ہے۔ کیا کسی انسان کے لیے یہ بات زیب دیتی ہے اور کیا اس کا کچھ جواز ہے کہ وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے اور اس پر عمل سے پہلے اس کو کسی امام کے قول، مذہب پر پیش کرے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا پس و پیش تسلیم کرے، اس کے غیر کی طرف التفات بھی نہ کرے اور نہ ہی یہ اشکال پیش کرے کہ یہ حدیث تو فلاں امام کی رائے کے خلاف ہے۔ ائمہ کی آراء کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ترک کرے، نص کے مقابلہ میں قیاس کا معارضہ نہ کرے، تمام قیاسات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نصوص سنت کے ساتھ وابستگی اختیار کرے۔ کسی قسم کی تحریف کا ارتکاب نہ کرے، نہ ہی الفاظ کو اس کے حقیقی معانی سے تبدیل کر کے عقل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سنت کے مقابلہ میں عقل مجہول ہے، بلکہ راہ صواب سے بعید ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہرحال قبول کیا جائے، خواہ کسی کی موافقت ہوتی ہو یا نہ ہو، کسی کا خیال نہ کیا جائے۔
سلف صالحین میں امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زندگی اور طرز عمل ہمارے سامنے واضح ہے کہ انہوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی و مفہوم کی خاطر اپنی جانوں کی پروا نہ کی، ان کے اصل معانی اور مفہوم سے منہ نہ پھیرا، نہ تحریف کی اور نہ تبدیلی کی۔
جبکہ آج احادیث میں تحریف کی جاتی ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
لعن الله المحلل والمحلل له
اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت کرے۔
لیکن اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ الفاظ تو لعنت والے استعمال کیے ہیں مگر اس سے مراد رحمت ہو سکتی ہے۔
احادیث صحیحہ کے متعلق عقیدہ تو یہ ہونا چاہیے کہ صحیح احادیث آ جائیں تو بندہ سمجھے کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ جبکہ آپ کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خبر واحد عقیدے میں حجت نہیں جب تک کہ خبر متواتر نہ ہو۔ اس وقت تک اس پر عمل نہ کیا جائے گا۔ پھر آپ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت جب تک قیاس کے مطابق نہ آ جائے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگی۔
جلالی صاحب! آپ کے ہاں یہ مشہور اصول ہے۔ اصول کرخی میں ہے:
إن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ، وإن كل خبر يجيء يخالف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ
قرآن مجید کی ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ) کے قول کے خلاف آ جائے تو اسے نسخ پر محمول کیا جائے گا (یعنی وہ آیت منسوخ ہے) اور ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کے قول کے برخلاف آ جائے تو اسے بھی نسخ پر محمول کیا جائے گا۔
جلالی صاحب! آپ کے بزرگوں کے اصول کے مطابق قرآن مجید کی آیت اور حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا قول امام بڑھ گیا ہے۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ ہم شرک فی الرسالة کو برداشت نہیں کرتے؟ پھر بھی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ادب کا دعویٰ آپ کا ہے؟ اگر یہ ادب ہے تو بدتمیزی اور بے ادبی کسے کہیں گے؟
آئیے ذرا اس دعوے کے بطلان کے لیے مزید جانیے۔ خواجہ غلام فرید رحمہ اللہ کی کتاب فوائد فریدیہ، ص: 83 پر ایک قصہ لکھا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیا اور آ کر کہنے لگا کہ مجھے بھی اپنا مرید بنائیں۔
تو وہ کہنے لگے کہ میرا مرید بنتا ہے تو پڑھو: لا إله إلا الله چشتي رسول الله.
آپ کہتے ہیں کہ ہم نے شرک فی النبوة نہیں کیا، آپ نے مقام نبوت پر اپنے بزرگوں، پیروں، فقیروں کو بٹھایا ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ صوفیاء قسم کے لوگ ہیں، لہذا یہ مجذوب ہیں۔ ارے! مجذوب قسم کے لوگوں کی کتب چھپ کر آپ کے حلقے میں پڑھی جاتی ہیں اور آپ ان کے مزاروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نور کا جگمگاتا ہوا روشنی کا مرکز بن چکا ہے۔ اگر یہ مجذوب تھے تو ان کی کفریہ باتوں کی اشاعت کیوں جاری ہے؟ کیا مجذوبانہ باتوں کی اشاعت ہونی چاہیے؟
یاد رہے کہ آپ شرك فى النبوة برداشت ہی نہیں کر رہے بلکہ یہ نام نہاد مجذوب نبوت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ جب تک اہل حدیث زندہ ہیں، ان شاء اللہ کسی طرح بھی اس قسم کے ڈاکے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اللہ کی قسم! ہم ختم نبوت کے عقیدے کے چوکیدار ہیں۔ جب تک ان جسموں میں ایک ذرہ بھی خون باقی رہے گا، ختم نبوت پر پہرہ دیتے رہیں گے۔
❀ اسی طرح مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ جاء الحق، ص: 26 پر لکھتے ہیں:
چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں، اگرچہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول، صحیح حدیث اور قرآن کی آیت کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔
جلالی صاحب! ان دلائل سے واضح ہوا کہ آپ نے جو دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے شرک فی النبوة کو برداشت نہیں کیا، بالکل باطل ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی کہ آپ نے توحید کے متعلق جتنے بھی شبہات اور اعتراضات پھیلانے کی ناکام کوشش کی ہے اور اپنے عقائد و نظریات کو قرآنی آیات و احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر گمراہ لوگوں کی کتب سے دلائل ذکر کیے ہیں، ایک تو قرآن و حدیث کا غلط معنی و مفہوم بیان کیا ہے اور دوسرا گمراہ لوگوں کی کتب سے حوالے دینے کے بجائے آپ نے اکابر ائمہ احناف کی کتب سے توحید کی حقیقت اور شرک کا مفہوم بیان نہیں کیا، آخر کیوں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات سمجھنے، سمجھانے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے، آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے