اوکاڑوی کلچر اور بے سند جرح و تعدیل کا علمی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 309

بے سند جرح و تعدیل اور اوکاڑوی کلچر: ایک تحقیقی وضاحت

سوال:

امین اوکاڑوی صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا:

’’آج کل راویوں کے حالات کا دار و مدار تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، خلاصۃ التہذیب، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال وغیرہ کی کتابوں پر ہے اور یہ سب کتابیں بے سند ہیں۔ آٹھویں صدی کا آدمی پہلی صدی کے آدمی کو ثقہ اور ضعیف کہہ رہا ہے اور درمیان میں سات سو سال کی کوئی سند نہیں کیا ان کتابوں کا بھی انکار کر دو گے؟‘‘

(مجموعہ رسائل جدید ایڈیشن ۲/۴۴۷، ادارہ خدام احناف لاہور)

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کتابیں "بے سند” ہیں؟ کیا آٹھویں صدی کے علماء واقعی پہلی صدی کے رواۃ پر بلا سند جرح کرتے ہیں؟ وضاحت مطلوب ہے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ دعویٰ کہ مذکورہ کتب "بے سند” ہیں، سراسر غلط ہے۔ درحقیقت، ان میں بعض اقوال بے سند ہوتے ہیں اور بعض اقوال با سند بھی موجود ہوتے ہیں۔ ذیل میں چند مثالیں با سند اقوال کی پیش کی جا رہی ہیں:

1. احمد بن خلیل بن حرب القومسی کے بارے میں:

  • حافظ ابن حجر نے "تقریب التہذیب” میں لکھا:

    نسبه ابو حاتم الی الکذب
    (تقریب التہذیب: ص 34)

  • امام ابو حاتم الرازی، جو کہ حافظ ابن حجر سے صدیوں پہلے گزرے، نے فرمایا:

    احمد بن خلیل القومسی کذاب
    (الجرح والتعدیل، جلد 2، ص 50، ت 49)

2. احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں:

  • تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

    وقال ابراهیم بن الجنید عن ابن معین: ثقة صدوق
    (جلد 1، ص 9)

  • یہ قول، حافظ ابن حجر سے صدیوں پہلے کی کتاب سوالات ابن الجنید میں یوں محفوظ ہے:

    تقتین صدوقین
    (سوالات ابن الجنید: ص 114)

3. خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال میں:

  • احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں خزرجی (متوفی 923ھ) نے امام یحییٰ بن معین سے نقل کیا:

    لیس به بأس

  • یہی قول امام یحییٰ بن معین سے صحیح سند کے ساتھ "الجرح والتعدیل” میں موجود ہے:
    (جلد 2، ص 39، ت 1)

4. حافظ ذہبی کی کتاب تذکرۃ الحفاظ:

  • کتاب کے آغاز میں حافظ ذہبی نے روایت ذکر کی کہ:

    سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے احادیث کا ایک مجموعہ لکھا، پھر اسے جلا دیا
    (تذکرۃ الحفاظ، جلد 1، ص 5، ت 1)

  • اس روایت کو حافظ ذہبی نے سند کے ساتھ امام حاکم نیشاپوری سے نقل کر کے رد کر دیا:

    فهذا لا يصح
    (تذکرۃ الحفاظ، جلد 1، ص 5)

تنبیہ:

محمد زکریا تبلیغی دیوبندی نے اپنی کتاب "حکایاتِ صحابہ” میں یہی روایت بغیر حافظ ذہبی کی جرح کے نقل کر دی ہے:

(ص 98، آٹھواں باب)

5. میزان الاعتدال میں ابان بن اسحاق المدنی کے بارے میں:

  • حافظ ذہبی نے ابوالفتح الازدی (مجروح) کی جرح کو نقل کر کے رد کر دیا:

    عجلی نے اسے ثقہ کہا ہے
    (میزان الاعتدال، جلد 1، ص 5، ت 1)

  • احمد العجلی کا یہ قول:

    ثقة
    کتاب "تاریخ العجلی” میں موجود ہے:
    (ص 50، ت 12)

تنبیہ:

میزان الاعتدال میں سہو کے باعث:

’’وثقه احمد والعجلی‘‘ چھپ گیا ہے، جب کہ درست عبارت یوں ہے: ’’وثقه احمد العجلی‘‘
(مزید تفصیل: حاشیہ تہذیب الکمال، تحقیق بشار عواد معروف، جلد 2، ص 6)

نتیجہ:

اوکاڑوی صاحب کا یہ کہنا کہ:

’’یہ سب کتابیں بے سند ہیں‘‘

یہ بات غلط اور مردود ہے۔

تنبیہ بلیغ:

ان مذکورہ اور دیگر کتب میں جو اقوال و افعال منقول ہیں، ان کی تحقیق کے بعد ہی بطورِ حجت پیش کیا جانا چاہیے۔ صرف ثابت شدہ گواہیوں اور جمہور محدثین کی تحقیق کو ہی مقدم رکھنا چاہیے۔

  • بعض اوقات کسی راوی پر جرح تو نقل ہوتی ہے، مگر باسند صحیح اپنے قائل سے ثابت نہیں ہوتی۔
  • مثلاً:
  • مومل بن اسماعیل پر تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب، اور میزان الاعتدال میں امام بخاری کی جرح ’’منکر الحدیث‘‘ نقل کی گئی ہے۔
  • لیکن یہ جرح امام بخاری سے ثابت ہی نہیں۔

ماہنامہ الحدیث: شمارہ 21، ص 19
اثبات التعدیل فی توثیق مومل بن اسماعیل، اقوالِ جرح: ص 6

افسوسناک حقیقت:

اوکاڑوی کلچر سے وابستہ افراد اسی بے سند جرح کو مومل بن اسماعیل پر بار بار لاگو کرتے ہیں، اور پھر یہ بھی کہتے ہیں:

’’یہ سب کتابیں بے سند ہیں‘‘!!

یہ رویہ انتہائی ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1