اونٹ کے پیشاب کے بطور دوا استعمال کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الطہارۃ جلد 1 ص 27

سوال

اونٹ کا پیشاب پینا مریض کے لیے حدیث میں جائز ہے، مگر یہ ایک مکروہ چیز ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ ہندو لوگ عورت کو نفاس کی حالت میں گائے کا پیشاب پلاتے ہیں، کیا اس پر اعتراض نہیں بنتا؟

الجواب

حدیث شریف میں اونٹ کے پیشاب کو بطورِ دوا استعمال کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس اجازت کا مقصد صرف علاج ہے، نہ کہ اسے عام مشروب کے طور پر استعمال کرنا۔

شرعی حکم

اگر کسی کو اونٹ کے پیشاب سے نفرت ہو تو وہ اسے نہ پئے، لیکن اس کی حلت کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ شریعت سے ثابت ہے۔
یہ حکم دیگر پاک جانوروں، جیسے گائے اور بکری کے پیشاب کے متعلق بھی موجود ہے۔

حدیث کا حوالہ

لَا بَأْسَ بِبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد اوّل، ص ۵۵۵)

ترجمہ

’’اس جانور کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں جس کا گوشت کھایا جاتا ہو۔‘‘

اعتراض کا جواب

ہندو لوگ عورت کو نفاس کی حالت میں گائے کا پیشاب پلاتے ہیں، جو ان کے مذہبی عقائد کے تحت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کسی بھی چیز کو علاج کی غرض سے شرعی اجازت کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے، نہ کہ مذہبی رسوم یا بدعات کی پیروی میں۔

تصدیق

(الجواب صحیح: علی محمد سعیدی، جامعہ سعیدیہ خانیوال، مغربی پاکستان)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے