اولیاء اللہ سے محبت: ایمان کی پختگی اور جنت کا وسیلہ
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

اولیاء سے محبت ایمان کا جزو ہے ، بلکہ عین ایمان ہے ، چنانچہ رسول اللہ نے تعلیم کا ارشادِ گرامی ہے:
أوثق عرى الإيمان الموالاة فى الله ، والمعاداة فى الله ، والحب فى الله ، والبغض فى الله
معجم كبير للطبرانی ، رقم: 11537 – مسند احمد : 4 / 286 ـ مستدرك حاكم: 480/2 – سلسلة الاحاديث الصحيحة ، رقم: 1728.
”ایمان کا مضبوط ترین کڑا یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی کی جائے، اور اللہ ہی کے لیے دشمنی ہو، اللہ کی خاطر ہی محبت ہو، اور اللہ کی خاطر ہی ناراضگی ہو۔“
مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن كالبنيان ، يشد بعضه بعضا
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة ، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، رقم: 2585.
” مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کیے ہوئے کرتا ہے۔“
اللہ کے لیے محبت اور دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور ایسے لوگوں سے نفرت کرے جن سے اللہ نفرت کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر انسان اللہ کے دوستوں (اولیاء اللہ ) سے محبت اور اللہ کے دشمنوں (اعداء اللہ ) سے دشمنی رکھے۔ صرف ان لوگوں سے محبت کرے جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
اور جولوگ شب وروز اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں ان سے نفرت کرے۔ جب کسی انسان میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے تب اس کا ایمان اور توحید کامل ہوتی ہے۔
القول السديد شرح كتاب التوحيد : 116/1.
ایک اور حدیث میں وارد ہے:
لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ، ولا تؤمنوا حتى تحابوا
صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بيان انه لا يدخل الجنة الا المؤمنون ….، رقم: 54 .
”تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے ، جب تک ایمان والے نہ ہو جاؤ، اور اس وقت تک تم ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو “
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے:
باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون، وأن محبة المؤمنين من الايمان
یہ باب اس بات کے بیان میں کہ جنت میں صرف اہل ایمان ہی داخل ہوں گے، اور مومنوں ( اولیاء اللہ ) سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ مذکورہ بالا حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں داخلے کے لیے اہل ایمان ( اولیاء اللہ ) سے محبت والفت انتہائی ضروری ہے ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
(9-التوبة:119)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا:
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
(3-آل عمران:28)
”مومنوں کے لیے مناسب نہیں کہ مومنوں کے بجائے کافروں کو دوست بنا ئیں ۔“
ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ اس لیے کہ وہ مومنوں کا ولی! اللہ ہے۔ اور مومنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں۔ قرآنِ کریم میں اس مضمون کی کئی آیتیں آئی ہیں ۔ اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض وعداوت ایمان کے اُصولوں میں سے ایک اصل ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی کافروں کو اپنا دوست بنائے گا، اللہ اس سے بری ہے ، اور اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہاں ، اگر کافروں سے کوئی خطرہ ہو، تو مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وقتی طور پر زبان سے دوستی کا اظہار کرے ۔
ويذكر عن أبى الدرداء إنا لنكشر فى وجوه أقوام وإن قلوبنا لنلعنهم
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب اعداراة مع الناس)
امام بخاری نے ابوالدار ء رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ ہم لوگ بعض قوموں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ کا اظہار کرتے تھے، حالانکہ ہمارے . دل اُن پر لعنت بھیجتے تھے۔
اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات مقددس سے ڈرا رہا ہے، دیکھو، اس کے احکام کی مخالفت اور اس کے دشمنوں سے دوستی کر کے اسے ناراض نہ کرو۔ اس میں انتہا درجے کی دھمکی ہے ۔
(تیسیر الرحمن بص :172)

دوستی و دشمنی میں اولیاء اللہ کا طرز عمل

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(58-المجادلة:22)
” جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، انہیں آپ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، چاہے وہ اُن کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں، یا اُن کے بھائی ہوں، یا اُن کے خاندان (وکنبے قبیلے ) والے (ہی کیوں نہ ) ہوں، انہی لوگوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو راسخ کر دیا ہے، اور اُن کی تائید اپنی نصرت خاص سے کی ہے، اور اللہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ اُن سے راضی ہو گیا، اور وہ اُس سے راضی ہو گئے ، وہی اللہ کی جماعت کے لوگ ہیں، آگاہ رہیے کہ اللہ کی جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔“
اس آیت کی تفسیر میں ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ رقم طراز ہیں:
اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کا ذکر کیے جانے کے بعد اب ان اہل ایمان کا ذکر کیا جارہا ہے جو کسی بھی حال میں اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرتے ہیں،اس لیے کہ ایمان باللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور مقصود اس آیت کریمہ سے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی دوستی سے ممانعت میں مبالغہ ہے، یعنی مومن کو کافروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ اختلاط سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے اور اس معاملے میں مومن کے دل میں ذراسی بھی لچک نہیں پیدا ہونی چاہیے ، اس بات کو مبالغہ کی حد تک ذہن نشین کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چاہے وہ اللہ کے دشمن تمہارے باپ، بیٹے ، بھائی یا دیگر قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ ایمان مومن سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھا جائے ۔ “
(تیسیر الرحمن :1558/2)
جولوگ اولیاء اللہ سے دشمنی رکھتے ہیں، درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ سے اعلانِ جنگ کر رہے ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
من عادلي وليا فقد آذنته بالحرب
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم : 6502 .
” جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھتا ہے، اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔“
اللہ کی خاطر محبت کرنا بڑا عظیم عمل ہے، اس کی برکت سے روز محشر انسان کو عرش عظیم کا سایہ نصیب ہوگا ۔
عن ابي هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سبعة يظلهم الله فى ظله يوم لا ظل إلا ظله ورجلان تحابا فى الله
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل اخفاء الصدقة، رقم: 1031 .
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
”یقیناً اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میری جلالت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ آج کے دن جب کہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے، انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔“
اللہ کے دوستوں سے محبت کی وجہ سے انسان ایمانی لذت کو حاصل کر سکتا ہے ، ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
عن أنس بن مالك رضی الله عنہ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان: أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما ، ”وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله ، وأن يكره أن يعود فى الكفر كما يكره أن يقذف فى النار
صحیح بخاری ، کتاب الایمان، رقم: 16 – صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بيان خصال من اتصف بهن، رقم: 143.
”جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت سے بہرہ یاب ہوگا، پہلی خصلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ پیارے ہوں، دوسری جس سے محبت کرے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے، اور تیسری کفر کی طرف پلٹنے کو اسی طرح نا پسند کرے جس طرح آگ میں پھینکے جانے کونا پسند کرتا ہے۔ “
اس عمل کی وجہ سے ان پر روز محشر انبیاء وشہداء بھی رشک کریں گے۔ چنانچہ:
عن معاذ بن جبل قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله عز وجل المتحابون فى جلالى لهم منابر من نور يغبطهم النبيون والشهداء
سنن ترمذی ، کتاب الزهد، باب ما جاء في الحب في الله رقم: 390۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کیا ہے۔
”سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کرتے ہیں، اللہ کے ہاں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاء اور شہداء ان پر رشک کرتے ہوں گے۔“
اولیاء اللہ کو روز قیامت نہ ماضی کا غم لاحق ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف ، اور یہ وہی لوگ ہیں جو تقوی اختیار کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎ ﴿٦٢﴾ ‏ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ‎ ﴿٦٣﴾ ‏ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
(10-يونس:62تا64)
”آگاہ رہو! بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف لاحق ہوگا نہ کوئی غم ، جو لوگ ایمان لائے تھے اور اللہ سے ڈرتے تھے، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی ، اللہ کے وعدوں میں تبدیلی نہیں آتی ہے ، یہی سب سے عظیم کامیابی ہے۔ “
ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ رقم طراز ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس کے دوستوں کو نہ ماضی کا غم لاحق ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف۔
آیت (64) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ اپنی رحمت، رضامندی اور جنت کی خوش خبری دی ہے۔ امام احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیر ہم نے ابوالدرداء اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن رجل من أهل مصر سألت ابا الدرداء عن قوله الله تعالى ﴿لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ (10-يونس:64) سألت رسول : فقال هي الرؤيا الصالحة يراها المسلم وترى له
سنن ابن ماجه کتاب الزهد، باب ذكر الموت والاتعداد له، رقم: 4262۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” دنیاوی زندگی میں بشارت سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان آدمی دیکھتا ہے۔“ اور قرآن وسنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرشتے موت سے پہلے اللہ کے نیک بندوں کو جنت کی خوش خبری دے دیتے ہیں۔ آیت میں اولیاء سے مراد وہ مخلص اہل ایمان ہیں جو اللہ کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اس سے قریب ہو جاتے ہیں۔ یہاں ان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان ہوتے ہیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ ”ولی“ کا معنی ہے۔ یعنی مومن جب ایمان اور عمل صالح پر کار بند ہوتا ہے، اور شرک اور دوسرے گناہوں سے دُور رہتا ہے، تو اللہ سے قریب ہو جاتا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ ولایت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ولی مستجاب الدعوات ہوتا ہے ، یعنی اس کی دعا اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! اللہ کے اولیاء کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رؤو ذكر الله عزوجل
سنن الترمذى، كتاب الرؤيا، باب ان لرؤيا المؤمن جزء رقم : 2270 و 2273 و 2275- السنن الكبرى للنسائی، رقم: 11235 ـ كتاب الذهد : 72/1 ، رقم : 217 ـ الاحاديث المختاره 108/10، رقم: 105 – مجمع الزوائد 78/10.
”جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے ۔ “
( تیسیر الرحمن: 619/1 )
اہل ایمان اولیاء اللہ سے قطع تعلق کرنا شرعی طور پر ممنوع ہے ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال
صحیح بخاری ، کتاب الأدب، رقم: 6073.
” کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین (دن) رات سے زیادہ قطع تعلقی کیے رکھے۔ “
اسلام نے جہاں مسلمانوں کو اولیاء اللہ سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ، وہاں ان تمام امور سے منع کر دیا ہے جو حرام ہیں اور وہ با ہمی بغض و عداوت کا باعث بنتے ہیں ۔اس سلسلہ میں چند احادیث پیش خدمت قارئین ہیں:
من لعن مؤمنا فهو كقتله
صحیح بخاری ، كتاب الأدب، رقم: 6047.
” کسی مسلمان کو ملعون قرار دینا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ “
عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ليس المؤمن بالطعان ، ولا لعان ، ولا الفاحش ولا البذي
سنن ترمذی ، کتاب البر والصلة ، رقم: 1977 – سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم: 320.
” وہ شخص مومن نہیں جو دوسروں پر لعنت وملامت اور طعن و تشنیع کرے، اورفخش گوئی اور بد زبانی سے کام لے۔ “
اللہ ہمیں اولیاء اللہ سے محبت کرنے اور ان کی صفات اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے