سوال:
”ان شاء اللہ“ کے ساتھ قسم اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
قسم کے متصل بعد ان شاء اللہ کہنے سے قسم بے اثر ہو جاتی ہے، پھر اگر اس قسم کا لحاظ نہ رکھے، تو گناہ گار نہیں ہوگا۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں:
”اہل علم کا اجماع ہے کہ جو شخص یوں قسم اٹھائے کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ کل میں قرضہ یا دیت ادا کر دوں گا یا غصب شدہ چیز لوٹا دوں گا یا ظہر یا عصر پڑھوں گا یا رمضان کے روزے رکھوں گا وغیرہ، پھر اگر وہ اس قسم کو پورا نہیں کر سکا تو کفارہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا تھا کہ اللہ چاہے گا، تو کروں گا اور اللہ نے نہیں چاہا کہ وہ ایسا کرے۔“
(مجموعة الرّسائل والمسائل : 151/5)
❀ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) لکھتے ہیں:
”کسی کام پر قسم اٹھانے کے بعد اگر کہے کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ میں فلاں کام کروں گا یا یوں کہے کہ اگر اللہ نے چاہا، تو یہ کام کروں گا، یا کہے: اگر اللہ نے نہ چاہا تو نہیں کروں گا۔ ایسے الفاظ کا استعمال بھی درست ہے کہ اگر میں چاہوں گا تو کر دوں گا، نہ چاہا، تو نہیں کروں گا یا یوں کہے کہ کام کروں گا، اگر اللہ نے میرا ارادہ نہ بدلا یا مجھے کوئی اور کام نہ کرنا پڑا تو، اسی طرح قسم کو کسی ذات کے ساتھ معلق کر دینا کہ اگر فلاں نے چاہا تو کروں گا ورنہ نہیں، تو یہ بھی صورتیں قسم کو بے اثر کر دیتی ہیں۔ اب اگر یہ قسم توڑ بھی دے، تو اس پر کفارہ نہیں ہوگا۔“
(المحلى بالآثار : 301/6)
① سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”اللہ کے نبی سیدنا سلیمان بن داود علیہما السلام نے قسم اٹھائی کہ آج رات ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا، ہر ایک بیوی ایک بیٹا جنم دے گی اور وہ سب بیٹے اللہ کے راستے میں قتال کریں گے۔ آپ کے ساتھی یا فرشتے نے عرض کیا: ان شاء اللہ کہہ لیجئے، سیدنا سلیمان علیہ السلام ان شاء اللہ کہنا بھول گئے، تو ایک ہی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور وہ بھی معذور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سلیمان علیہ السلام ان شاء اللہ کہہ دیتے، تو ان کی قسم بھی نہ ٹوٹتی اور حاجت برآوری بھی ہو جاتی۔“
(صحیح مسلم : 1654)
② سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف على يمين، فقال : إن شاء الله فقد استثنى .
”ان شاء اللہ کہ کر اٹھائی جانے والی قسم پر کفارہ نہیں ہوتا۔“
(مسند الإمام أحمد : 10/2، سنن أبي داود : 3261، سنن النسائي : 3860، سنن الترمذي : 1531، سنن ابن ماجه : 2105، وسنده صحيح)
مسند حمیدی (707) میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے، ان کے بہت سارے متابع بھی ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن، امام ابن الجارود (928)، امام ابوعوانہ (5991) اور امام ابن حبان رحمہم اللہ (4339) نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
من حلف فاستثنى، فإن شاء رجع وإن شاء ترك غير حنث .
”جس نے ان شاء اللہ کہ کر قسم اٹھائی، وہ چاہے تو کام کرے، چاہے تو چھوڑ دے، اس پر کفارہ نہیں ہوگا۔“
(سنن أبي داود : 3262، وسنده صحيح)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ کا عمل ہے کہ اگر ان شاء اللہ کہ کر قسم اٹھائی جائے، تو اس قسم پر کفارہ نہیں ہوگا۔ یہ سفیان ثوری، اوزاعی، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔“
(سنن الترمذي، تحت الحديث : 1531)
❀ راوی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
من قال : والله ثم قال : إن شاء الله، ثم لم يفعل الذى حلف عليه ، لم يحن .
”جس نے یوں قسم اٹھائی کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ میں یہ کام کروں گا۔ پھر وہ کام نہیں کیا، تو اس پر کفارہ نہیں ہوگا۔“
(مؤطأ الإمام مالك : 477/2، وسنده صحيح)
❀ نیز فرماتے ہیں:
كل استثناء موصول، فلا حنت على صاحبه، وإن كان غير موصول، فهو حانة .
”ان شاء اللہ قسم کے ساتھ ہی کہہ دے تو کفارہ نہیں ہے، لیکن قسم کے ساتھ نہ کہے، تو کفارہ ہوگا۔“
(السنن الكبرى للبيهقي : 47/10، وسنده حسن)
❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إني والله إن شاء الله – لا أحلف على يمين، فأرى غيرها خيرا منها، إلا أتيت الذى هو خير، وتحللتها .
”اللہ کی قسم! ان شاء اللہ، میں جس بھی کام پر قسم اٹھاتا ہوں، بعد ازاں محسوس کرتا ہوں کہ دوسرا کام اس سے بہتر ہے، تو میں بہتر کام کرتا ہوں اور قسم کا کفارہ ادا کر دیتا ہوں۔“
(صحيح البخاري : 3133 ، صحیح مسلم : 1649)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
قال القاضي أجمع المسلمون على أن قوله : إن شاء الله يمنع انعقاد اليمين بشرط كونه متصلا .
”قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ان شاء اللہ کہنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، بشرطیکہ قسم کے متصل بعد کہا جائے۔“
(شرح النووي : 119/11)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) لکھتے ہیں:
أجمعوا أن الاستثناء إن كان فى نسق الكلام دون انقطاع بين فى اليمين بالله أنه جائز .
”اس پر اجماع ہے کہ اگر ان شاء اللہ کلام کے فوراً بعد کہا جائے، اس طرح کہ کلام اور ان شاء اللہ میں واضح انقطاع نہ ہو، تو یہ طریقہ جائز ہے۔“
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد : 374/14)
❀ حافظ ابن حزم رحمہ اللہھ (456) لکھتے ہیں:
إجماع لأمة على أن الله عز وجل حكم بأن من حلف فقال : إن شاء الله أو إلا أن يشاء الله على أى شيء حلف فإنه إن فعل ما حلف عليه أن لا يفعله فلا حنت عليه ولا كفارة تلزمه لأن الله تعالى لو شاء لا نفذه وقال عز وجل : ﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللَّهُ﴾
”امت کا اجماع ہے کہ جو ان شاء اللہ کہ کر کسی بھی کام پر قسم اٹھائے، تو اختیار ہے کہ چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے، اس پر کفارہ نہیں ہوگا، یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ کیونکہ اگر اللہ چاہتا، تو وہ کام ہو جاتا، فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللهُ﴾
(ان شاء اللہ کہے بغیر کبھی نہ کہیں کہ میں کل یہ کام کروں گا۔)“
(الفصل في الملل : 86/3)
قسم میں استثنا کی شرائط :
① قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مقصد یہ ہو کہ میں اللہ کی مشیت پر چھوڑ رہا ہوں، قسم فقط تبرک کے لیے نہ ہو۔
② قسم جس وقت اٹھائی جائے، ان شاء اللہ بھی اسی وقت کہا جائے، بعد میں کہنے کا فائدہ نہیں۔
③ صرف دل میں ان شاء اللہ کہنا کافی نہیں، بلکہ زبان سے بھی کہنا ہوگا۔
فائدہ
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے:
إذا حلف الرجل على يمين فله أن يستثني ولو إلى سنة .
”اگر کوئی قسم اٹھائے، تو سال بعد بھی ان شاء اللہ کہ کر استثنا کر سکتا ہے۔“
(المستدرك على الصحيحين للحاكم : 336/4، ح: 7833)
اس کی سند ضعیف ہے، اعمش ”مدلس “ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔