انگوٹھے چومنے کی شرعی حیثیت!
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اللہ تعالٰی اور اس کے رسولﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا:

أطیعونی ما أطعت اللہ و رسولہ، فإذا عصیت اللہ و رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم۔

‘‘ میری اطاعت اس وقت تک کرنا، جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں۔ جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تمہارے اوپر میری کسی قسم کی کوئی اطاعت فرض نہیں۔’’

(السیرۃ لابن ھشام: ۸۲/۶، وسندہٗ حسنٌ)

ہمارا فرض بنتا ہے کہ غلو و تقصیر سے بچتے ہوئے نبی اکرمﷺ کی سنتوں کو حرزجان بنائیں۔ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے آپﷺ کی عزت و توقیر بجا لائیں، جیسا کہ حافظ ذہبیؒ (۶۷۳۔۷۴۸ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے:

فالغلو و الإطراء منھی عنہ، و الأدب والتوقیر واجب، فإذا شتبہ الإطراء بالتوقیر توقف العالم و تورع، و سأل من ھو أعلم منہ حتی تیبین لہ الحق، فیقول بہ، و إلا فالسکوت واسع لہ، ویکفیہ التوقیر المنصوص علیہ فی أحادیث لا تحصی، وکذا یکفیہ مجانبۃ الغلو الذی ارتکبہ النصاری فی عیسی ما رضوا لہ بالنبوۃ حتی رفعوہ إلی الإلھیۃ و إلی اوالدیۃ، و انتھکوا رتبۃ الربوبیۃ الصمدیۃ، فضلوا و خسروا، فإن إطراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یؤدی إلی إساءۃ الأدب علی الرب، نسأل اللہ تعالی أن یعصمنا بالتقوی، وأن یحفظ علینا حبنا للنبی صلی اللہ علیہ وسلم کما یرضی۔

‘‘ غلو اور اطراء ( تعظیم میں حد سے بڑھ جانا) ممنوع ہے، جبکہ ادب اور توقیر واجب ہے۔ جب اطراء اور توقیر مشتبہ ہو جائیں تو عالم آدمی کو توقف کرنا چاہیے اور رک جانا چاہیے، حتی کہ وہ اپنے سے بڑے عالم سے اس بارے میں دریافت کرلے، تاکہ اس کے لیے حق واضح ہو جائے، پھر وہ اس بارے میں بات کرے، ورنہ خاموشی ہی اس کے لیے اچھی ہے۔ اسے وہی توقیر کافی ہے، جس پر بے شمار احادیث میں نص قائم کر دی گئی ہے، اسی طرح اسے اس غلو سے بچنا کافی ہے، جس کا ارتکاب نصاریٰ نے سیدنا عیسیؑ کے بارے میں کیا۔ وہ ان کی نبوت پر راضی نہیں ہوئے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کو الوہیت اور ولدیت تک پہنچا دیا اور ربوبیت و صمدیت کا رتبہ گرا دیا۔ وہ گمراہ اور ناکام ہو گئے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کی تعظیم میں حد سے بڑھنا اللہ تعالی کی گستاخی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تقویٰ کے ذریعے ہمیں بچا لے اور جیسے اسے پسند ہے، اسی طرح ہمارے دلوں میں نبی اکرمﷺ کی محبت محفوظ کرے۔’’

(میزان الاعتدال للذہبی: ۶۵۰/۲)

‘‘ قبوری فرقہ’’ نے غلو میں انتہا کر دی ہے۔ آپﷺ کی سنتوں کی بجائے بدعات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان کی جاری کردہ بدعات میں سے ایک بری بدعت یہ ہے کہ لوگ نبی اکرمﷺ کا نام نامی، اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومتے ہیں۔ اس پر کوئی دلیل نہیں۔ اگر یہ کوئی نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی رو سے نبی اکرمﷺ کی توقیر ہوتی تو صحابہ کرام اور ائمہ عظام ضرور بالضرور اس کا اہتمام کرتے۔ وہ سب سے بڑھ کر نبی اکرمﷺ کی تعظیم کرنے والے تھے۔ کسی ثقہ امام سے اس کا جواز یا استحباب ثابت نہیں، لہٰذا یہ دین نہیں، بلکہ دین کی خلاف ورزی ہے۔

اس بدعت کے ثبوت پر مبتدعین کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:

دلیل نمبر۱:

❀سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے متعلق مسند الفردوس ازدیلمی میں روایت ہے:

أنّہ لمّا سمع قول المؤذّن: أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، قال ھذا، و قبّل باطن الأنملتین السبّابتین، ومسح عینیہ، فقال صلیّ اللہ علیہ وسلّم: من فعل مثل ما فعل خلیلی، فقد حلّت علیہ شفاعتی۔

‘‘ جب آپؓ نے مؤذن کو أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کہتے سنا تو یہی الفاظ کہے اور دونوں انگشت شہادت کے پورے جانب زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا، جوایسا کرے، جیسا کہ میرے پیارے نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے۔’’

(المقاصد الحسنۃ للسخاوی: ص ۳۸۴)

تبصرہ:

۱۔ یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔ اس کے ‘‘ صحیح’’ ہونے کے مدعی پر سند پیش کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ راویوں کی توثیق اور اتصال سند بھی ضروری ہے۔ یہ بدعتیوں کی شان ہے کہ وہ سندوں سے گریزاں ہیں۔

❀۲۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ حافظ سخاویؒ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) نے اس روایت کے متعلق لکھا ہےکہ:

لا یصحّ ‘‘ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔’’

بعض بدعتی یہ کہتے ہیں کہ لا یصحّ۔‘‘ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔’’ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ‘‘ حسن’’ بھی نہیں ہے، یہ ان کے اپنے منہ کی بات ہے، ہمیں اس روایت کی سند درکار ہے، جسے پیش کرنے سے بدعتی لوگ قاصر رہتے ہیں۔

دلیل نمبر ۲:

❀سیدنا خضرؑ سے روایت کی گئی ہے، انہوں نے فرمایا:

من قال حین یسمع المؤذّن یقول: أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، مرحبا بحبّی و قرّۃ عینی بن عبداللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، ثم یقبّل إبھامیہ، و یجعلھما علی عینیہ، لم یرمد أبدا۔

‘‘ جو شخص مؤذن سے أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کے الفاظ سن کر مرحبا بحبّی و قرّۃ عینی بن عبداللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کہے، پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں۔’’

(المقاصد الحسنۃ للسخاوی: ص ۳۸۶)

تبصرہ:

یہ بے سند و بے ثبوت روایت ‘‘ ضعیف’’ اور باطل ہے، حافظ سخاویؒ اس کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ۔

‘‘ یہ ایسی سند کے ساتھ ہیں، جس میں کئی مجہول راوی ہیں، ساتھ ساتھ انقطاع بھی ہے۔’’

مبتدعین اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ ‘‘ مجہول’’ راوی کی روایت ‘‘ ضعیف’’ نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ راویوں کی جہالت تو حافظ سخاویؒ نے بیان کی، آپ اس کی سند تو پیش کریں۔ رہا مسئلہ ‘‘ مجہول’’ راوی کی راویت کا تو لیجیے امام شافعیؒ کا فرمان سن لیں:

لا نقبل خبر من جھلناہ، و کذلک لا نقبل خبر من لم نعرفہ بالصدق و عمل الخیر۔

‘‘ ہم (محدثین) مجہول راوی کی حدیث کو قبول نہیں کرتے، یہ ہی اس شخص کی روایت کو قبول کرتے ہیں، جس کی سچائی اور نیکی کو ہم نہیں جانتے۔’’

(اختلاف الحدیث للشافعی: ۱۳، معرفۃ السنن و الآثار للبیھقی: ۱۲/۱)

دوسری بات یہ ہے کہ دین متصل روایات کا نام ہے۔ صحیح حدیث کی شرطوں میں بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی سند متصل ہو۔ کیا کریں کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے، جن کو اپنی بدعتوں کی پڑی ہے، محدثین کے اصولوں سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔

اب ان روایات کے متعلق علمائے کرام کی آراء بھی سن لیں:

❀حافظ سخاویؒ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) لکھتے ہیں:

لا یصحّ فی المرفوع من کلّ ھذا شیء۔

‘‘ اس معنی کی مرفوع احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔’’

(المقاصد الحسنۃ للسخاوی: ص ۳۸۵)

❀ملاعلی قاری حنفی (م۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں:

کلّ مایروی فی ھذا، فلا یصحّ رفعہ البیّۃ

اس بارے میں جتنی بھی مرفوع روایات ہیں، ان میں سے کوئی بھی قطعاً ثابت نہیں ہے۔’’

(الموضوعات الکبری للقاری الحنفی: ص ۲۱۰)

❀ابن عابدین حنفی (۱۱۹۸۔۱۲۵۲ھ) نقل کرتے ہیں:

لا یصحّ فی المرفوع من کلّ ھذا شیء۔

ان سب میں سے کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں۔’’

(ردّالمحتار لابن عابدین الحنفی: ۲۹۳/۱)

ہم کہتے ہیں کہ ان روایات کے ‘‘ صحیح’’ یا ‘‘ ضعیف’’ ہونے کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا۔ پہلے ان کی سندیں دکھائی جائیں، ورنہ بدعتی تسلیم کریں کہ ان کا ‘‘ دین’’ بے سند ہے۔

تنبیہ:

❀۱۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں:

وإذا ثبت رفعہ إلی الصدّیق رضی اللہ تعالی عنی فیکفی للعمل بہ۔

‘‘ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ تک اس کا پہنچنا ثابت ہو گیا ہےتو عمل کرنے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔’’

(الموضوعات الکبرٰی للقاری الحنفی: ص ۲۱۰)

تبصرہ:

پہلے اس کی سند پیش کی جائے، پھر راویوں کی توثیق پیش کی جائے۔ ایک ملا کی بات کا کیا اعتبار؟

۲۔ احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب(۱۳۲۴۔۱۳۹۱ھ) ‘‘ انجیل برنباس’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

‘‘ اس میں لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ نے روح القدس (نور مصطفوی) کے دیکھنے کی تمنا کی تو وہ ان کے انگوٹھے کے ناخنوں میں چمکا دیا گیا۔ انہوں نے فرط محبت سے ان ناخنوں کو چوما اور انگوٹھوں سے لگایا۔’’

(‘‘جاء الحق’’ از نعیمی: ۳۹۸/۱)

تبصرہ:

ہمیں قرآن و حدیث کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، محرف و مبدل کتابوں کے حوالے وہی ذکر کرتے ہیں، جن کے پاس قرآن و حدیث کی دلیل نہ ہو۔ ذرا اپنے مزعوم امام ابوحنیفہ سے تو اس کا ثبوت فراہم کریں یا کسی ثقہ مسلمان سے باسند صحیح ایسا کرنا ثابت کر دیں!

❀نیز احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔’’

(‘‘ جاء الحق’’: ۴۰۱/۱)

ہمارا مطالبہ سند کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق فضائل اعمال سے نہیں، بلکہ شرعی احکام سے ہے کہ اذان میں نبی اکرمﷺ کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنے چاہئیں یا نہیں، فضائل کی بات تو بعد میں ہے۔

قارئین کرام خوب یاد رکھیں کہ دین‘‘ صحیح’’ روایات کا نام ہے، فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے۔

❀ امام ابن حبانؒ (م ۳۵۴ھ) لکھتےہیں:

ولم أعتبر ذلک الضعیف، لأنّ روایۃ الواھی و من لم یروسیان۔

‘‘ میں نے اس ضعیف راوی کا اعتبار نہیں کیا، کیونکہ کمزور راوی کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔’’

(الثقات لابن حبان: ۱۵۹/۹)

نیز لکھتے ہیں:

کأن ما روی الضعیف وما لم یرو فی الحکم سیان۔

‘‘ گویا کہ ضعیف کی روایت حکم میں نہ ہونے کے برابر ہے۔’’

(المجروحین لابن حبان: ۳۲۸/۱، ترجمۃ سعید بن زیاد الداری)

❀ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:

و لا فرق فی العمل بالحدیث فی الأحکام أو فی الفضائل، إذا لکلّ شرع۔

‘‘ احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں (فضائل اور احکام) شریعت ہی تو ہیں۔’’

(تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب لابن حجر: ص۲)

‘ضعیف’’ حدیث کو کوئی بھی دین نہیں کہتا!

جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ اور اس کو حرام کہنا محض جہالت ہے، جب تک کہ ممانعت کی صریح دلیل نہ ملے، اس کو منع نہیں کر سکتے۔ استحباب کے لیے مسلمانوں کا مستحب جاننا ہی کافی ہے، مگر کراہت کےلیے دلیل خاص کی ضرورت ہے۔’’

(‘‘ جاءالحق’’: ۳۹۹/۱)

کوئی ثقہ مسلمان ایسا نہیں ہے، جس سے باسند صحیح انگوٹھے چومنے کو مستحب کہنا ثابت ہو۔ مدعی پر دلیل لازم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لگتا ہے کہ نعیمی صاحب کو اپنی ذکر کردہ روایات پر اعتبار نہیں ہے، تبھی تو لوگوں کا بے ثبوت عمل پیش کر رہے ہیں، ہم تو اس فعل کو بدعت کہتے ہیں، کیونکہ اس پر کوئی دلیل شرعی نہیں ہے، لہذا یہ کہنا کہ ممانعت کی صریح دلیل نہیں، اس لیے اس کو ناجائز و بدعت نہیں کہنا چاہیے، یہ قول خود ‘‘ محض جہالت’’ ہے، کیونکہ بدعتیوں کا اپنی ایجاد کردہ بدعات کو آخری سہارا یہی ہوتا ہے، حالانکہ عبادات اور دین کے متعلق احکام اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی اجازت سے کیے جاتے ہیں، ممانعت کو نہیں، اذن و اجازت کو دیکھا جاتا ہے۔ اس ‘‘ محض جہالت’’ پر مبنی بات کو مان لیا جائے کہ ممانعت نہیں آئی، اس لیے جائز ہے تو پھر ہر بدعت والا کام دین کا حصہ قرار پائے گا۔ اگر کوئی عید الفطر سے پہلے اذان کہے، جبکہ اس کے بارے میں ممانعت صریح کہیں بھی نہیں ہے، تو کیا وہ مستحب کہلوائے گی؟

❀ علامہ ابوشامہؒ (۵۹۹۔۶۶۵ھ) فرماتے ہیں:

فکلّ من فعل أمرا موھما أنّہ مشروع، ولیس کذلک، فھو غال فی دینہ، مبتدع فیہ، قائل علی اللہ غیر الحقّ، بلسان مقالہ، أو لسان حالہ۔

‘‘ ہر وہ شخص جو کسی کام کو مشروع سمجھتے ہوئے کرتا ہے، حالانکہ وہ مشروع نہیں ہوتا تو وہ اپنے دین میں غلو سے کام لینے والا، دین میں بدعت نکالنے والا اور زبان قال یا زبان حال کے ساتھ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے والا ہوتا ہے۔’’

(الباعث علی انکار البدع والحوادث:ص ۲۰-۲۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے