انسانی فطرت اور کائنات کے نظام کا تجزیہ

انسان اور کائنات کا مطابقت اور اس کی حدود

عقل کی بنیاد پر انسانی وجود اور کائنات کے نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اور کائنات کے مابین ایک خاص مطابقت پائی جاتی ہے، مگر یہ مطابقت مکمل نہیں ہے اور کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کے لیے ایک اور نظامِ عالم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

جسمانی وجود اور مادی کائنات

➊ انسانی جسم: انسان کا جسم مختلف عناصر جیسے معدنیات، پانی اور گیسوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح، کائنات بھی انہی عناصر سے بھرپور ہے۔ ان عناصر کے لیے جو قوانین ضروری ہیں، وہ کائنات میں موجود ہیں۔ جس طرح کائنات کے دیگر اجزاء (پہاڑ، دریا وغیرہ) اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہیں، ویسے ہی انسانی جسم بھی انہی قوانین کے تحت چلتا ہے۔

نشوونما اور غذائی ضروریات

➋ غذائی ضروریات: انسان کی نشوونما کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے پودے اور درخت زمین سے خوراک لیتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ یہ عمل بھی کائنات کے اندر موجود قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔

ارادتی حرکات اور حیوانی وجود

➌ زندگی اور ارادہ: انسان ایک زندہ وجود ہے جو ارادے کے تحت حرکت کرتا ہے، اپنی حفاظت کرتا ہے اور اپنی نسل کو آگے بڑھاتا ہے۔ کائنات میں دیگر حیوانات بھی موجود ہیں جو انہی صفات کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔

اخلاقی وجود اور اس کی ضروریات

➍ اخلاقی وجود: انسان کا ایک اور پہلو اخلاقی وجود ہے، جس میں وہ نیکی اور بدی، حق و ناحق، اور ظلم و انصاف میں تمیز کرتا ہے۔ انسان کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو۔ لیکن کائنات کے موجودہ نظام میں ان اخلاقی نتائج کے مکمل طور پر ظاہر ہونے کا کوئی نظام موجود نہیں۔

کائنات میں اخلاقی قوانین کی عدم موجودگی

➎ اخلاقی نتائج کا عدم ظہور: موجودہ نظام کائنات میں طبعی قوانین تو موجود ہیں، مگر اخلاقی قوانین کا کوئی عملی وجود نہیں ہے۔ یہاں مادی نتائج فوراً ظاہر ہوتے ہیں، جیسے ایک جرم کا طبعی نتیجہ فوراً نظر آتا ہے، لیکن اخلاقی نتائج اکثر نہیں نکلتے یا ان کا ظہور ممکن نہیں ہوتا۔

مثالیں: نیکی اور بدی کا بدلہ

➏ بدی کی مثال: اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں آگ لگا دے تو طبعی طور پر گھر جل جائے گا۔ لیکن اخلاقی طور پر اس شخص کو سزا ملنا، مختلف شرائط پر منحصر ہے۔ اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں، تو مجرم سزا سے بچ سکتا ہے۔
➐ نیکی کی مثال: وہ انسان جو لوگوں کو حق اور راستی کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے عمل کے اثرات نسل در نسل چلتے ہیں، اس کے لیے موجودہ دنیا میں اس کی خدمات کا پورا صلہ ملنا ممکن نہیں۔

عقل کا تقاضا: ایک دوسرا نظام

➑ نظام عالم کی ناکافی حیثیت: موجودہ دنیا انسان کے جسمانی، حیوانی اور طبعی پہلوؤں کے لیے تو کافی ہے، مگر اس کے اخلاقی پہلو کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا نظام ضروری ہے جہاں اخلاقی قوانین غالب ہوں اور طبعی قوانین ان کے تحت کام کریں۔ جہاں انسان کے نیک اور بد اعمال کے نتائج مکمل طور پر ظاہر ہو سکیں۔

وحی کی روشنی اور عقلی استدلال کی حد

➒ عقلی استدلال کی محدودیت: عقل ہمیں ایک اور عالم کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے، لیکن یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ عالم موجود ہے یا نہیں۔ اس مقام پر وحی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ایک دوسرا عالم ضرور ہو گا، جہاں ہر انسان کے اعمال کا پورا پورا حساب ہو گا اور انہیں ان کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔

خلاصہ

➓ موجودہ دنیا کی محدودیت: انسان کے اخلاقی وجود کے لیے موجودہ دنیا کافی نہیں ہے، اس کے لیے ایک دوسرا نظام ضروری ہے۔
آخرت کا تصور: عقل ہمیں آخرت کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے، اور وحی اس کی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1