انسانی آزادی اور تقدیر کا متوازن فلسفہ
تحریر: مزمل شیخ بسمل

آزادی اور مجبوری کا تعین

انسانی آزادی اور مجبوری کے سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان کن امور میں آزاد ہے اور کن میں مجبور۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہے، تو یہ تقدیر کے انکار کے مترادف ہوگا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ مکمل طور پر مجبور ہے، تو یہ سزا و جزا کے تصور کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ اس لیے معتدل نظریہ یہ ہے کہ انسان نہ مکمل مختار ہے اور نہ مکمل مجبور۔ اس موضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے انسان کے اختیار اور مجبوریاں الگ الگ بیان کی جاتی ہیں۔

مجبوریاں: انسانی حدود

کچھ معاملات میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، جیسے:

  • رنگ و نسل: انسان کا اپنی نسل یا رنگ پر کوئی اختیار نہیں۔
  • پیدائش اور موت: کب اور کہاں پیدا ہونا ہے یا کب مرنا ہے، یہ سب انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
  • ماحول اور قدرتی حالات: انسان پر اثر انداز ہونے والے کئی عوامل، جیسے آب و ہوا یا جغرافیائی حالات، بھی اس کے قابو میں نہیں۔

آزادی: اختیاری افعال

کئی معاملات میں انسان کو آزادی حاصل ہے، مثلاً:

  • کھانے، پینے، حرکت کرنے، بھاگنے اور دیگر ارادی حرکات۔
  • یہ اختیاری حرکات مکمل طور پر یا جزوی طور پر انسان کے قابو میں ہوتی ہیں۔

کسب (اکتساب) کا تصور

کسب یا اکتساب، یعنی اپنے افعال کے لیے کوشش کرنا، انسان کے اختیار میں ہے۔ لیکن ان کوششوں کا نتیجہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہی کسب سزا و جزا کا معیار بنتا ہے، یعنی:

  • خیر کا نتیجہ: جزا کا باعث۔
  • شر کا نتیجہ: سزا کا باعث۔

نتائج پر اختیار کی عدم موجودگی

انسان کے کسب کا نتیجہ ہمیشہ اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا، مثلاً:

  • ایک انسان تمام وسائل کے باوجود محنت کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل نہ کر پائے۔
  • بعض اوقات بغیر محنت کے بھی کامیابی مل سکتی ہے۔

نتائج کے چار مدارج

  1. انسان کی خواہش کے مطابق نتیجہ کا حصول۔
  2. محنت کے بعد مطلوبہ نتیجہ کا حاصل ہونا۔
  3. شدید مشقت کے بعد کامیابی پانا۔
  4. تمام محنت اور تدابیر کے باوجود ناکامی۔

تقدیر کے مختلف مدارج

تقدیر کو کئی درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  • انفرادی تقدیر: ہر انسان کی ذاتی مجبوریاں، جیسے خاندان یا ماحول کے اثرات۔
  • اجتماعی تقدیر: وہ حالات جو معاشرے یا قوم پر اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے قحط، غلامی یا کرنسی کا نظام۔

خدا کا علم اور انسان کی آزادی

یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر خدا کو ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہے، تو انسان کے لیے آزادی کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب یوں ہے:

  • خدا زمانے سے ماورا ہے: خدا کی ذات وقت کی پابندیوں سے آزاد ہے، اس لیے اس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل سب ایک ہی وقت میں موجود ہیں۔
  • علم جبر کا باعث نہیں: خدا کا علم کسی انسان کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ انسان اپنے ارادے سے اعمال کرتا ہے، اور خدا ان اعمال سے پہلے ہی واقف ہوتا ہے۔

علت و معلول کا قانون

ہماری سوچ علت و معلول (Cause and Effect) کے اصولوں پر منحصر ہے، لیکن خدا کی ذات ان اصولوں سے ماورا ہے۔ اس لیے ہمارے آج اور کل کا فرق، جو ہمارے لیے موجود ہے، خدا کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔

منطقی تضادات کا حل

یہ ضروری نہیں کہ ہر الہٰی معاملے کی منطقی توجیہہ ممکن ہو، کیونکہ انسانی منطق اور دنیا کے قوانین خدا کی ذات پر لاگو نہیں ہوتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے