1 ،2 : فرعون و ہامان
فرعون اور ہامان انسان کے روپ میں شیطان کے دوست تھے۔ ان دونوں نے اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد سے بھر دیا۔ فرعون نے تو خدائی کا بھی دعوی کیا۔ ان دونوں کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿طسم ﴿١﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٣﴾ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٤﴾ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ﴿٥﴾ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ ﴿٦﴾
(28-القصص:1تا6)
طسم ۔ یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی ، ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔ یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کررکھی تھی ، اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنارکھا تھا، اور ان کے ایک فرقہ کو کمزور بنا رکھا تھا ، اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا، بلاشبہ وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ پھر ہم نے ارادہ کیا کہ ہم ان پر کرم فرما ئیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا ، اور انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہیں وارث بنائیں۔ اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈرتے ہیں۔
ایک جگہ فرعون کے دعوئی خدائی کا ذکر یوں ہے:
﴿فَحَشَرَ فَنَادَىٰ ﴿٢٣﴾ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٤﴾
(79-النازعات:23، 24)
”پھر سب کو جمع کر کے بآواز بلند کہنے لگا کہ تم سب کا رب میں ہی ہوں۔ “
ایک مقام پر فرعون کی سرکشی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
﴿إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴿٤٠﴾ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي ﴿٤١﴾ اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي ﴿٤٢﴾ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ﴿٤٣﴾ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤﴾ قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ ﴿٤٥﴾ قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ﴿٤٦﴾
(20-طه:40تا46)
”(یاد کرو) جب کہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی: کیا میں تمہیں اس کا پتہ بتادوں جو اس کی پرورش کرے، اس تدبیر سے ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمگین نہ ہو ۔ اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، اس پر بھی ہم نے تجھے غم سے بچالیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا۔ پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا، پھر تقدیر الہی کے مطابق اے موسیٰ تو آیا، اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرمالیا، اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لیے ہوئے جا، خبر دار ! میرے ذکر میں سستی نہ کرنا تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس نے بڑی سرکشی کی ہے، اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے ؟ جواب ملا کہ تم خوف نہ کرو میں تم دونوں کے ساتھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔“
ایک جگہ فرمایا:
﴿وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ ﴿٥٦﴾ قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿٥٧﴾ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ﴿٥٨﴾ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴿٥٩﴾
(20-طه:56تا59)
” ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں دکھا دیں لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا کہنے لگا: اے موسیٰ! کیا تو اسی لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے۔ اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں اسی جیسا جادو ضرور لائیں گے۔ پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں اور نہ تو صاف میدان میں مقابلہ ہو ۔ موسیٰ نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے، اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہو جائیں گے۔“
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
﴿وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴿٨٨﴾ قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٨٩﴾
(10-يونس:88تا89)
” اور موسیٰ نے عرض کیا: اے ہمارے رب ! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے۔ اے ہمارے رب (اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں۔ اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے، سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی سو تم ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں ۔“
نیز اس کے متعلق فرمایا:
﴿وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ ﴿٧٧﴾ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ ﴿٧٨﴾ وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَىٰ ﴿٧٩﴾
(20-طه:77تا79)
” ہم نے موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنالے، پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر۔ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا، پھر دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے والا تھا۔ فرعون نے اپنی تمام قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا۔“
قرآن مجید ایک مقام پر اس کے سمندر میں غرق ہونے کا تذکرہ کرتا ہے:
﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ ﴿١٧﴾ أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿١٨﴾ وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٩﴾ وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَن تَرْجُمُونِ ﴿٢٠﴾ وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ ﴿٢١﴾ فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُونَ ﴿٢٢﴾ فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ﴿٢٣﴾ وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ ﴿٢٤﴾
(44-الدخان:17تا24)
” یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو بھی آزما چکے ہیں جن کے پاس اللہ کا باعزت رسول آیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو میرے حوالے کردو، یقین مانو کہ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی نہ کرو، میں تمہارے پاس واضح دلیل لانے والا ہوں اور میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کر دو۔ اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہی رہو۔ پھر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ سب گناہگار لوگ ہیں ہم نے کہہ دیا کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل، یقینا تمہارا پیچھا کیا جائے گا تو دریا کو اپنے حال پر ٹھہرا ہوا چھوڑ کر چلا جا، بلاشبہ اس کا لشکر غرق کر دیا جائے گا۔“
مزید ایک مقام پر فرمایا:
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٩٠﴾ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٩١﴾ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ﴿٩٢﴾
(10-يونس:90تا92)
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا، پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادے سے چلا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں، اس (اللہ) کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ جواب دیا گیا کہ اب ایمان لاتا ہے ؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تا کہ تو ان کے لیے نشانی بنے جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔“
﴿فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ ﴿٨٤﴾ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ﴿٨٥﴾
(40-غافر:84، 85)
” ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے ہیں اور جن کو ہم اس کا شریک بنارہے تھے، ہم نے ان سب سے انکار کیا لیکن ہمارے عذاب کو دیکھنے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔“
3 : قارون
قارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت دولت سے نوازا تھا۔
اس کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں کی جماعت پر اٹھائی جاتیں تھیں ۔ لیکن یہ اللہ کا شکر کرنے کی بجائے سرکشی میں مبتلا ہوکر شیطان کا دوست بن گیا۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے:
﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ﴿٧٦﴾ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧﴾ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ ﴿٧٨﴾ فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٧٩﴾ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ ﴿٨٠﴾ فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ ﴿٨١﴾ وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٢﴾ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٨٣﴾
(28-القصص:76تا83)
” قارون تھا تو قومِ موسیٰ (علیہ السلام ) میں سے، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا، ہم نے اسے اس قدر خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اترا مت اللہ تعالیٰ اِترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ، اور اپنے دنیاوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ قارون نے کہا: یہ سب کچھ مجھے میرے علم کی بناء پر ہی دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے۔ اور گناہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی۔ پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا، تو ان لوگوں نے کہا جو دنیا کی زندگی چاہتے تھے: اے کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیب والا ہے۔ ذی علم لوگ انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ یہ بات ان کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔ ( آخر کار ) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا، پھر اس کے لیے کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی ، اور نہ یہ خود اپنا بچاؤ کرنے والوں میں سے تھا۔ اور جولوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرز و مندیاں کر رہے تھے ، وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی، اگر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی ، آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی، بڑائی اور فخر نہیں کرتے ، نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیز گاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے ۔“
ایک اور مقام پر قرآن سب کا تذکرہ کچھ یوں کرتا ہے:
﴿وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ ﴿٣٩﴾ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٤٠﴾
(29-العنكبوت:39، 40)
” اور قارون، فرعون اور ہامان کو بھی ، ان کے پاس موسیٰ ( علیہ السلام ) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا، لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے، پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔ اور ان میں سے بعض کو زور دارسخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا۔ اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو یاء اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعد ی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
﴿وَمَا كَانُوا سَبقِينَ﴾ ”وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں جا نہ سکے“ اور انہیں اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے سپرد کرنا پڑا۔ ﴿فكلا﴾ ” پس سب کو“ یعنی انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان تمام قوموں کو ﴿اَخَذْنَا بذنبه﴾ ”ہم نے ان کے گناہ کی مقدار اور اس گناہ سے مناسبت والی سزا کے ذریعے سے پکڑ لیا۔“
(تفسیر السعدی)
4 : نمرود
اسے بھی اللہ نے بڑی بادشاہت سے نوازا تھا۔ لیکن یہ بھی سرکشی میں مبتلا ہوکر شیطان کا دوست بن گیا ۔ حتی کہ اس نے بھی خدائی کا دعوی کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا والوں کے لیے عبرت بنا دیا اس طرح کہ اس کو مچھر کے ذریعے ہلاک کیا۔ قرآن میں متعدد مقام پر اس کا ذکر کرتے ہیں۔
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾
(2-البقرة:258)
” کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی، جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی زندگی بخشتا اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ کافر جرت سے لا جواب ہو گیا۔اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ﴾ ” کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سیدنا ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔ یعنی کیا آپ نے اس کی جرات ، تجاہل ، عناد اور ناقابل شک حقیقت کے بارے میں جھگڑے کا مشاہدہ نہیں فرمایا ؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی ﴿أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ﴾ ” کہ اسے اللہ نے حکومت دی تھی“ تو وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا اس نے دیکھا کہ وہ رعیت کا حکمران بن گیا ہے تو اتنی جرات کی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے اللہ کی ربوبیت کے بارے میں بحث کرنے لگا، اور یہ دعوی کیا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کر سکتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ﴿رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” میر ارب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔ یعنی ہر کام کا اختیار اس کو حاصل ہے ، آپ نے زندہ کرنے اور مارنے کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ سب سے عظیم تدبیر ہے ۔ اور اس لیے بھی کہ زندگی بخشنا دنیا کی زندگی کی ابتداء ہے، اور موت دینا آخرت کے معاملات کی ابتداء ہے اس کے جواب میں اس نے کہا ﴿أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ﴾ ”میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ۔“ اس نے یہ نہیں کہا ”میں ہی زندہ کرتا اور مارتا ہوں“ ۔ کیونکہ اس کا دعویٰ مستقل تصرف کا نہیں تھا بلکہ وہ کہتا تھا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کر سکتا ہے اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو گویا اسے موت دے دی اور ایک آدمی کو زندہ رہنے دیتا ہے تو گویا اسے زندگی بخش دی ۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ شخص بحث میں مغالطہ سے کام لیتا ہے۔ اور ایسی باتیں کہتا ہے جو دلیل تو در کنار شبہ بننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں تو ایک دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ﴾ ”اللہ تعالی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے۔“ یہ حقیقت ہر شخص تسلیم کرتا ہے حتی کہ وہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ﴿فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ﴾ ”پس تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔“ یہ الزمی دلیل ہے . اگر وہ اپنے دعوئی میں سچا ہوتا تو یہ اس کے موافق ہو جاتی۔ جب آپ نے ایسی بات فرما دی جس میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی نہ اس کے پاس اس دلیل کا کوئی توڑ موجود تھا۔ ﴿فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾ ” اس لیے وہ کافرحیران رہ گیا۔“ یعنی حیرت زدہ ہو گیا اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس کی دلیل غلط ثابت ہوگئی ، اور اس کا پیش کردہ شبہ کالعدم ہو گیا۔ جو بھی جھوٹ، ضد اور عناد کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنا چاہے وہ اسی طرح مغلوب اور شکست خوردہ ہو جایا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ بلکہ انہیں کفر و ضلالت میں مبتلا رہنے دیتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لیے خود یہ چیز پسند کر لی ہوتی ہے۔ اگر ان کا مقصد ہدایت کا حصول ہوتا تو اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دیتا ، اور ہدایت تک پہنچنے کے اسباب مہیا کر دیتا یہ آیت ایک قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے، اور وہی مختار کل ہے، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت اور ہر حال میں تو کل اسی کا حق ہے ، ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اس مناظرہ میں ایک بار یک نکتہ ہے کہ دنیا میں شرک کا دارو مدار ستاروں اور قبروں کی عبادت پر ہے اور بعد میں انہی کے نام سے بت تراشے گئے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں سب کی الوہیت کی اجمالاً تردید موجود ہے۔ کیونکہ اللہ وحدہ لا شریک ہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ زندہ جو مر جانے والا ہے وہ زندگی میں معبود بننے کی اہلیت رکھتا ہے نہ مرنے کے بعد کیونکہ اس کا ایک رب ہے جو قادر ہے ، زبردست ہے وہ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو ایسا مجبور ہو وہ معبود کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی صورت کا بت بنایا جائے اور اس کی پوجا کی جائے۔ اسی طرح ستاروں کا حال ہے ۔ ان میں سے بڑا نظر آنے والا سورج ہے یہ بھی حکم کا پابند ہے اپنے بارے میں آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کا خالق و مالک ہی اسے مشرق سے لاتا ہے تو وہ اس کے حکم اور مرضی کے مطابق اطاعت کرتا ہے یعنی یہ بھی مربوب اور مسخر یعنی حکم کا پابند غلام ہے معبود نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے ۔“
(مفتاح دار السعاده: 210/3، 211. )