انبیاء و اولیاء کے وسیلے سے دعا: قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: احکام و مسائل، عقائد کا بیان، جلد 1، صفحہ 49

سوال

کیا انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کے اعمالِ صالحہ اور ان کی حرمت کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو وہ اپنے خالصۃً اللہ کے لیے کیے گئے اعمالِ صالحہ کا ذکر اللہ کے سامنے کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ تین آدمیوں کا واقعہ بیان ہوتا ہے، جو بارش سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لیتے ہیں اور پھر ہر ایک اپنی نیکی کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کرتا ہے۔

✿ یہ واقعہ حدیث میں آیا ہے جس میں تین افراد نے اپنے ذاتی نیک اعمال کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔

تاہم:

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت کسی دوسرے بندے کی ذات، اس کے اقوال، اس کی نیکیوں، یا اس کی حرمت کا وسیلہ دینا قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔

یعنی:

نہ انبیاء علیہم السلام کی ذات کو وسیلہ بنانا ثابت ہے۔
نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باتوں یا ان کے اعمال کو۔
نہ اولیاء کرام رحمہم اللہ کی حرمت یا ان کے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر دعا مانگنا کتاب و سنت سے ثابت ہے۔

یہ چیزیں شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہوتیں۔

حدیث کا حوالہ:

بخاری، کتاب الأدب، باب إجابة دعاء من بر والديه

نتیجہ:

لہٰذا، دعا کرتے وقت اگر کوئی شخص اپنے ذاتی خالص نیک عمل کا ذکر کرے تو یہ جائز ہے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ دوسروں کی ذات یا ان کے اعمال کا وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کرنا قرآن و سنت اور صحابہ کے اقوال سے ثابت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1