انبیاء علیہم السلام کی حیات برزخی اور روایات کی حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ 234

انبیاء علیہم السلام کی قبروں میں زندگی کا مسئلہ

سوال

کیا انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں؟ اگر زندہ ہیں تو ان کی زندگی کی حقیقت کتبِ شرع میں مذکور ہے یا نہیں؟ نیز حدیث ((الانبياء احياء في قبورهم)) (بیہقی) کا مطلب کیا ہے؟

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ سوال میں مذکورہ حدیث ((الانبياء احياء)) کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی رسالہ حیاۃ الانبیاء میں تین اسناد کے ساتھ مرفوعاً اور ایک سند کے ساتھ موقوفاً ذکر کیا ہے۔
چاروں روایات کا سلسلہ سند آخر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چاروں کی اسناد نہایت ضعیف ہیں اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ بلکہ اگر ان کے موضوع (من گھڑت) ہونے کا کہا جائے تو بھی مبالغہ نہ ہوگا۔

اسی لیے ان اسانید کو تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے اور رواۃ کا حال بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلی روایت

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

((اخبرنا ابوسعيد احمد بن محمد بن الخليل الصوفى احمد الله قال انبآ ابواحمد عبد الله بن عدى الحافظ قال ثنا قسطنطين بن عبد الله الرومى قال ثنا الحسن بن قتيبة المدائنى ثنا المسلم بن سعيد الثقفى عن الحجاج بن الاسود عن ثابت البنانى عن انس رضى الله عنها قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الابنياء احياء فى قبورهم يصلون.))
(حیاۃ الانبیاء للبیہقی)

سند کی کمزوریاں

قسطنطین بن عبداللہ الرومی: یہ مجہول ہے اور مجہول ہونا سخت جرح میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا نام اور نسبت ہی بتاتے ہیں کہ یہ رومی شخص تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی مشہور ہے۔ لہذا اس کے بارے میں بدگمانی کا قوی امکان ہے۔

حسن بن قتیبہ المدائنی: امام دارقطنی فرماتے ہیں: "متروک الحدیث”۔ اصولِ حدیث کے ماہرین کے نزدیک ایسے راوی کی روایت نہ متابعت کے قابل ہے نہ استشہاد کے۔ کیونکہ متروک راوی عام طور پر کذب کے الزام میں ہوتا ہے۔

لہذا یہ روایت ان دو بڑے اسباب کی بنا پر ناقابلِ استشہاد ہے، بلکہ اسے حدیث کہنا بھی درست نہیں۔

دوسری روایت

بیہقی رحمہ اللہ اسی رسالہ میں بیان کرتے ہیں:

((اخبرنا الثقة من أهل العلم قال انبا ابوعمرو بن حمدان قال انبا ابو يعلى الموصلى ثنا ابو الجهم الارزق بن على ثنا يحى بن ابى بكر ثنا المسلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت البنانى عن انس بن مالك رضى الله عنه قال قال رسول الله ﷺ الانبياء احياء فى قبورهم يصلون۔))
(حیاۃ الانبیاء للبیہقی)

سند کی کمزوریاں

بیہقی کا شیخ یہاں مبہم ہے کیونکہ انہوں نے صرف "الثقة من اہل العلم” لکھا ہے۔ کسی شاگرد کا اپنے استاد کو ثقہ سمجھنا کافی نہیں جب تک کہ جرح و تعدیل کے ماہرین بھی اس کی توثیق نہ کریں۔ جب نام ہی ذکر نہ ہو تو یہ ابہام روایت کو ضعیف کر دیتا ہے۔

یحییٰ بن ابی بکر: اس کا ذکر کتب رجال میں سرے سے موجود نہیں۔ اس لیے یہ مجہول اور غیر معروف ہے۔

اس طرح یہ روایت بھی ناقابلِ اعتبار ہے۔

📌 خلاصہ پہلے حصے کا:

امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کے قبروں میں زندہ ہونے کے بارے میں جو پہلی دو روایات ذکر کیں، وہ سخت ضعیف، غیر معتبر اور ناقابلِ احتجاج ہیں۔

تیسری روایت

امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی رسالہ حیاۃ الانبیاء میں ایک اور روایت ذکر کرتے ہیں:

((اخبرنا ابوعبدالله الحافظ ثنا ابوحامد احمد بن على الحسنوى املاء ثنا ابوعبدالله محمد بن عباس الحمصى ثنا ابوالربيع الزهرانى ثنا اسماعيل بن طلحة بن يزيد عن عبدالرحمان بن ابى ليلى عن ثابت عن انس رضى الله عنه عن النبى ﷺ قال: ان الانبياء لا يتركون فى قبورهم بعد اربعين ليلة ولكنهم يصلون بين يدى الله عزوجل حتى ينفخ فى الصور۔))
(حیاۃ الانبیاء للبیہقی)

سند کی کمزوریاں

اس روایت میں کئی بڑی آفات ہیں:

ابوحامد احمد بن علی الحسنوی

یہ مہتم بالکذب ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا:

"هو في الجملة غير محتج بحديث”

(اس کی روایت قابل احتجاج نہیں)۔

خطیب بغدادی نے کہا: "لم يكن بثقة” (یہ ثقہ نہیں تھا)۔

امام محمد بن یوسف جرجانی نے کہا: "هو كذاب” (یہ کذاب ہے یعنی جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا)۔

ابو العباس الاصم نے بھی اسی طرح کے سخت الفاظ استعمال کیے۔
➝ لہذا یہ راوی کذاب اور ساقط الاعتبار ہے۔

ابوعبداللہ محمد بن عباس الحمصی

اس کا کوئی ترجمہ کتب رجال میں موجود نہیں۔

یہ مجہول اور غیر معروف ہے۔

اسماعیل بن طلحہ بن یزید

یہ بھی غیر معروف ہے۔

امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، جزء 3) میں لکھتے ہیں کہ نہ انہیں اس کا حال ملا نہ کسی محدث نے اس کا ذکر کیا۔
➝ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مجہول ہے۔

محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ

اس کے بارے میں رجال کی کتب میں ہے: "سئ الحفظ جدا” (اس کا حافظہ انتہائی ناقص تھا)۔

نتیجہ

یہ چاروں آفات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک بھی کسی روایت کے باطل ہونے کے لیے کافی تھی۔ لیکن یہاں چاروں یکجا ہوگئی ہیں۔ لہذا یہ روایت سخت ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہے۔

چوتھی روایت (موقوف)

بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

((أخبرنا ابوعثمان الإمام رحمه الله أنبا زأهربن احمد أنبا ابو جعفر محمد بن معاذ المالينى ثنا الحسين بن الحسن ثناء مومل ثنا عبد الله بن ابى حميد الهذلى عن ابن المليح عن انس بن مالك الانبياء فى قبورهم احياء يصلون۔))
(حیاۃ الانبیاء للبیہقی)

سند کی کمزوریاں

یہ روایت موقوف ہے اور اس میں تین بڑے ضعف موجود ہیں:

ابو جعفر محمد بن معاذ المالینی: غیر معروف، اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔

مؤمل بن عبدالرحمن الثقفی: حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا: "ضعیف”۔

عبداللہ بن ابی حمید الہذلی: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "متروک الحدیث” (انتہائی ناقابلِ اعتبار)۔

نتیجہ

یہ موقوف روایت بھی سخت ضعیف ہے اور ناقابلِ حجت ہے۔

📌 خلاصہ دوسرے حصے کا:

امام بیہقی رحمہ اللہ کی تیسری اور چوتھی روایت بھی ناقابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے رواۃ کذاب، مجہول، ضعیف اور متروک ہیں۔ اس لیے انبیاء علیہم السلام کی قبور میں زندگی پر کوئی معتبر دلیل ان اسانید سے ثابت نہیں ہوتی۔

انبیاء علیہم السلام کی حیات برزخی

اب سوال یہ ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر بیہقی رحمہ اللہ کی یہ روایات ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں، تو پھر اصل حقیقت کیا ہے؟

قرآن کریم کی روشنی میں

جب قرآن کی نصوص کے مطابق شہداء زندہ ہیں، تو انبیاء علیہم السلام جو شہداء کے بھی سردار ہیں، ان کے زندہ ہونے میں شک کیسا؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾

﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ….﴾
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِي۟ن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ….الاية﴾

ان آیات سے یہ حقیقت واضح ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداء دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور ان پر موت واقع ہوچکی ہے۔ ان کی دنیاوی زندگی ختم ہو گئی ہے۔

اسی لیے ہم رسول اکرم ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کی عمر مبارک 63 سال تھی۔ اگر دنیاوی زندگی ختم نہ ہوئی ہوتی تو آج آپ کی عمر چودہ سو سال سے بھی زیادہ ہوتی۔

برزخی زندگی کی حقیقت

دنیاوی زندگی ختم ہونے کے بعد انبیاء علیہم السلام کو جو زندگی حاصل ہے وہ عالمِ برزخ کی زندگی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

﴿بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ﴾

یعنی وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوسکتا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَ‌بِّهِمْ يُرْ‌زَقُونَ﴾ (آل عمران)

یعنی وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور وہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے، نہ کہ اس دنیا میں۔

خلاصہ

انبیاء علیہم السلام کی دنیاوی زندگی ختم ہوچکی ہے۔

اب انہیں ایک خاص برزخی زندگی حاصل ہے۔

یہ زندگی حقیقی اور کامل ہے لیکن اس دنیا کی زندگی جیسی نہیں۔

اس کا ادراک انسانی عقل و حواس سے ماوراء ہے۔

((وهذا ظاهر وباهر لاينكر مبتدئى فضلا عن عالم.))

یعنی یہ بات اتنی واضح ہے کہ ایک عام فہم آدمی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ کوئی عالم کرے۔

📌 خلاصہ تیسرے حصے کا:

انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں مگر یہ زندگی دنیاوی نہیں بلکہ برزخی ہے۔ اس کا حال ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ہمارے حواس سے ماوراء ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی حقیقت

یہ بات ہرگز نہیں سمجھنی چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام کو اس دنیا جیسی زندگی حاصل ہے جس میں وہ دنیاوی لذتوں اور معمولات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بلکہ ان کی دنیاوی زندگی وفات کے ساتھ ختم ہوچکی ہے۔ اس پر عقل، نقل اور مشاہدہ سب شاہد ہیں۔

ان کے لیے جو زندگی باقی ہے وہ برزخی ہے، جس کے بارے میں قرآن نے بتایا:

﴿بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ﴾
➝ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔

﴿بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَ‌بِّهِمْ يُرْ‌زَقُونَ﴾ (آل عمران)
➝ وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور وہاں رزق پاتے ہیں۔

اہم نکتہ

یہ زندگی دنیاوی نہیں بلکہ برزخی ہے۔

اس کا ادراک ہماری عقل اور حواس سے بالکل باہر ہے۔

بس اتنا ماننا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص اور مکمل زندگی عطا فرمائی ہے جو صرف عالمِ برزخ سے متعلق ہے۔

دعا

اللہ تعالیٰ ہمیں حد سے تجاوز کرنے والی باتوں سے محفوظ رکھے اور حق پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

📌 خلاصہ چوتھے حصے کا:

انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے، دنیاوی نہیں۔ ان کے زندہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا کے معاملات میں شریک ہیں، بلکہ یہ وہ خاص زندگی ہے جس کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔

((ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب))

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے