سیرت ابن ہشام میں ہے : ام سعد بنت بن ربیع کہتی ہیں کہ ام عمارہ ہمارے یہاں آئیں۔ میں نے ان سے عرض کیا خالہ ! ہمیں غزوہ احد میں پیش آنے والا واقعہ سناؤ۔ انہوں نے کہا : احد کے دن میں صبح سویرے نکل پڑی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔ میرے پاس ایک مشکیزہ تھا جس کے اندر پانی بھرا ہوا تھا، میں حضور کے قریب پہنچ گئی، آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے، مسلمانوں کو فتح اور غلبہ ہو رہا تھا، مگر تھوڑی دیر میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گئی اور براہ راست جنگ میں کود گئی جو کافر ادھر کا رخ کرتا تھا میں تلوار سے اس کا منہ پھیر دیتی تھی اور تیر چلاتی تھی یہاں تک کہ میرے کئی زخم آئے۔
ام سعد کہتی ہیں : میں نے ان کے مونڈھے پر بہت گہرا زخم دیکھا، میں نے پوچھا یہ کس طرح لگا تھا ؟ یہ زخم ابن قمیہ نے لگایا تھا۔ اللہ اسے غارت کرے!
جب لوگ ادھر ادھر پریشان پھر رہے تھے تو ابن قمیہ یہ کہتا ہوا بڑھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ مجھے کوئی بتا دے کہ کدھر ہیں ؟ آج اگر وہ بچ گئے تو میری نجات نہیں۔ مصعب بن عمیر اور چند آدمی اس کے سامنے آگئے جن میں میں بھی تھی۔ اس نے میرے مونڈھے پر یہ وار کیا۔ میں نے بھی اس پر کئی وار کیے مگر اس اللہ کے دشمن نے دوہری زرہ پہن رکھی تھی۔ اس لیے زرہ سے حملہ رک جاتا تھا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[السيرة النبوية لابن هشام 71/2]
یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔