امیر کے کہنے پر جنگ سے غائب ہونے والے کا حکم
اسے بھی مال غنیمت سے حصہ دینا درست ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
لمـا تـغـيـب عثمان عن بدر فإنه كان تحته بنت رسول الله وكانت مريضة فقال له النبى صلى الله عليه وسلم إن لك أجر رجل ممن شهد بدرا و سهمه
”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، جنگ بدر میں حاضر نہ ہوئے کیونکہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں جو کہ بیمار تھیں لٰہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”تیرے لیے بدر میں شریک ہونے والے ایک آدمی کا اجر اور اس کا حصہ ہو گا ۔“
[بخاري: 3130 ، كتاب فرض الخمس: باب إذا بعث الإمام رسول ، ترمذي: 3706 ، احمد: 101/2 – 120]
لیکن اگر کوئی شخص کسی اپنے کام کی وجہ سے جنگ کے خاتمے پر حاضر ہو تو کیا اسے حصہ ملے گا یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے:
(شافعیؒ ، مالکؒ ، اوزاعیؒ ، ثوریؒ ، لیثؒ ) اسے حصہ نہیں دیا جائے گا ۔
(احناف ) اگر وہ شخص مال غنیمت دار الاسلام پہنچائے جانے سے پہلے آ جائے تو اسے دیا جائے گا ۔
[الأم للشافعي: 255/7 ، الاختيار: 126/4 ، المغنى: 104/13 ، نيل الأوطار: 45/5]
(راجح ) یہ حاکم وقت کی رائے پر موقوف ہے وہ امداد کرتے ہوئے مصلحتاَ کسی کو کچھ دے یا نہ دے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ :
وما قسم لأحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا إلا لمن شهد معه إلا لأصحاب سفينتا مع جعفر وأصحابه قسم لهم معهم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کی کوئی چیز کسی ایسے شخص کو نہیں دی جو جنگ میں شریک نہیں تھا مگر صرف اسے دی جو جنگ میں حاضر تھا ہاں البتہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے وہ ساتھی جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر (حبشہ سے ) آئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے ساتھ مال غنیمت کی تقسیم میں شریک فرمایا ۔
[بخاري: 3136 ، كتاب فرض الخمس: باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين ، مسلم: 2502 ، أبو داود: 2725 ، ترمذي: 1559 ، احمد: 394/4]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ :
الغنيمة لمن شهد الوقعة
”غنیمت صرف اسی کو دی جائے گی جو جنگ میں شریک ہو گا ۔“
[عبد الرزاق: 302/5 ِ، 9689 ، ابن ابى شيبة: 494/6 ، 33226 ، مجمع الزوائد: 343/5 ، بيهقي: 50/9]