امیر کی ذمہ داریاں: مشاورت، نرمی اور روک ٹوک
تحریر: عمران ایوب لاہوری

امیر پر لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور انہیں حرام کاموں سے روکے

➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [آل عمران: 159]
”ان سے معاملات میں مشورہ کیجیے ۔“
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا ۔ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے کلام پر آپ نے اعراض کیا ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا شاید آپ ہم سے پوچھنا چاہتے ہیں (پھر کہا ):
والذي نفسي بيده ! لو أمرتنا أن نخيضها البحر لأ خضناها
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم اسے سمندر میں ڈبو دیں تو ہم ایسا بھی کر دیں گے (اور اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کرنے کو تیار ہیں ) ۔
[مسلم: 1779 ، كتاب الجهاد والسير: باب غزوه بدر ، احمد: 220/3]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
ما رأيت أحدا قط كان أكثر مشورة لأصحابه من رسول الله صلى الله عليه وسلم
”میں نے کبھی بھی کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا ۔“
[ترمذى تعليقا: 214/4 ، احمد: 328/4 ، بيهقي: 218/9 ، ترتيب المسند للشافعي: 177/2 ، دلائل النبوة: 101/4]
➍ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يـوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة
”جسے بھی اللہ تعالی کسی رعایا کا نگران بنائے پھر وہ اس حال میں فوت ہو کہ وہ اپنی رعایا سے دھوکا کرنے والا ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے ۔“
[بخارى: 7150 ، كتاب الأحكام: باب من استرعى رعية فلم ينصح ، مسلم: 227]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
اللهـم مـن ولـي من أمر أمتى شيئا فرفق بهم فارفق به
”اے اللہ ! جو بھی میری اُمت میں سے کسی کا والی بنے ۔ وہ اگر ان کے ساتھ نرمی کرے تو ، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کر ۔
[مسلم: 1828 ، كتاب الإمارة: باب فضيلة الإمام العادل ، احمد: 62/6 ، ابن حبان: 553 ، بيهقي: 136/10]
➏ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من أمير يلى أمور المسلمين ثم لا يجتهد لهم ولا ينصح لهم إلا لم يدخل الجنة
”جو بھی مسلمانوں کے معاملات کا والی بنے پھر وہ ان کے لیے کوشش و محنت نہ کرے اور نہ ہی ان کی خیر خواہی کرے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔“
[مسلم: 142 ، كتاب الإيمان: باب استحقاق الوالى الغاش لرعيته النار]
➐ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے رہتے تھے ، کمزور کو چلاتے تھے ، اسے پیچھے سوار بھی کر لیتے تھے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 2298 ، كتاب الجهاد: باب فى لزوم الساقة ، أبو داود: 2639]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے