نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر ، عمر و عثمان (رضی اللہ عنہم اجمعین) احد کے پہاڑ پر چڑھے تو (زلزلے کی وجہ سے) احد کانپنے لگا۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس پر پاؤں مار کر فرمایا: اُحد رک جا تیرے اوپر (اس وقت) ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید (موجود )ہیں۔ [صحيح البخاري:۳۶۸۶ ]
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: (افتح لہ وبشرہ بالجنۃ، علی بلوی تصیبہ) اس کے لئے دروازہ کھول دو اور جنت کی خوش خبری دے دو اور یہ (بھی بتا دو) کہ انہیں ایک مصیبت (اور آزمائش) پہنچے گی۔تو میں نے انہیں(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ) بتا دیا۔ پھر اللہ کی حمد بیان کی اور کہا: اللہ المستعان،اللہ مددگار ہے۔ [البخاري:۳۶۹۳و مسلم : ۲۸/۲۴۰۳ ]
مشہور حدیث میں آیا ہے کہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وعثمان فى الجنة [الترمزي: ۳۷۴۷و سنده صحيح ]
”اور عثمان جنت میں (یعنی جنتی ) ہیں۔ “
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاد (جیش العسرۃ) کی تیاری کر رہے تھے تو (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی آستین میں ایک ہزار دینا لے آئے اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں ڈال دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ انہیں جھولی میں الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے:
ماضر عثمان ما عمل بعد اليوم [أحمد ۵/۶۳ح۲۰۹۰۶و الترمذي: ۳۷۰۱و قال: حسن غريب و سنده حسن ]
” آج کے بعد عثمان جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہیں ہوگا۔“
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (رقیہ رضی اللہ عنہا) کی شدید بیماری کی وجہ سے غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن لک أجر رجل ممن شھد بدراً وسھمہ) تیرے لئے بدر میں حاضر ہونے والے آدمی کے برابر اجر اور مالِ غنیمت ہے۔ [صحيح البخاري:۳۱۳۰ ]
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا غزوہ بدر کے دوران فوت ہو گئیں۔ [الإصابة ص ۱۶۸۷ت۱۱۸۵۱تراجم النساء ]
ابو حبیبہ رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، آپ محاصرے میں تھے۔ ابو حبیبہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : میرے بعد تم لوگ فتنے اور اختلاف میں مبتلا ہو جاؤگے۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ !پھر ہم کیا کریں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:
عليكم بلأمين (بالأمير) وأصحابه [مسند أحمد۲/۴۳۵و الموسوعة الحديثية ۱۴/۲۱۹ ، ۲۲۰ح ۸۵۴۱و سنده حسن و صححه الحاكم ۳/۹۹ ، ۴/۴۳۳ووافقه الذهبي ]
”تم (اس) امین (امیر) اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑ لینا۔ “
سیدنا مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے بعد کے) فتنوں کا ذکر کیا، اتنے میں ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے وہاں سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اس دن ہدایت پر ہوگا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ [سنن الترمزي: ۳۷۰۴و قال: هذا حديث حسن صحيح و سنده صحيح] بیعتِ رضوان کے موقع پر جب کفارِ مکہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا تھا تو سیدنا و محبوبنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعتِ رضوان لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا: هذا يد عثمان یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ [صحيح البخاري:۳۶۹۹ ]
ابو سہلہ رحمہ اللہ مولی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب (باغیوں کے محاصرے والے دنوں میں) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اپ (ان باغیوں سے )جنگ کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے جواب دیا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا اور میں اس پر صابر (شاکر) ہوں۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۱۲/۴۵ح۳۲۰۲۸و سنده صحيح ، و الترمذي: ۳۷۱۱وقال: هذا حديث حسن صحيح ]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبے کے دوران یہ آیت پڑھی.
﴿إِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰيٓ اُولٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ﴾ [سورة الأنبياء:۱۰۱] [مصنف ابن ابي شيبه ۱۲/۵۲ح۳۲۰۴۳وسنده صحيح ]
”بے شک وہ لوگ جن کے مقدر میں ہماری طرف سے بھلائی ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ (پھر) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان منھم عثمان (رضی اللہ عنہ) انہی میں سے ہیں۔ “
سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے سامنے(سیدنا) عثمان کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ امیر المؤمنین (علی رضی اللہ عنہ) اب آ رہے ہیں وہ تمہیں بتائیں گے۔ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمایا کہ : عثمان ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اٰمَنُوْ وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْ اوَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْ ا وَّاَحْسَنُوْ ط وَاللهُ يُحِبُّ الْمحْسِنِيْنَ﴾ [سورة المائده:۹۳] [مصنف ابن ابي شيبه ۱۲/۵۴ح۳۲۰۵۱و سنده صحيح ]
”وہ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے پھر ایمان کے ساتھ تقوے والا راستہ اختیار کیا، پھر تقوے اور احسان والا راستہ اختیار کیا اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ “
سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں ہاتھ اٹھا کر فرماتے تھے کہ :
اللهم إني أبر أ إليك من دم عثمان [فضائل الصحابة للإمام أحمد ۱/۴۵۲ح ۷۲۷و سنده حسن ]
”اے اللہ میں عثمان(رضی اللہ عنہ) کے خون سے بری ہوں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ :
يا عثمان إن الله عزوجل عسي أ ن يلبسك قميصا، فإن أرادك المنافقون على خلعه فلا تخلعه حتي تلقاني [مسند أحمد ۲/۸۶ ، ۸۷ح۲۵۰۷۳و سنده صحيح، الموسوعة الحديثية ۴۱/۱۱۳ ]
”اے عثمان!عنقریب اللہ عزوجل تجھے ایک قمیص(خلافت کی ) پہنائے گا۔ پس اگر اسے اتارنے کے لئے تیرے پاس منافقین آ جائیں تو میری ملاقات(یعنی وفات و شہادت ) تک اسے نہ اتارنا۔“
جمہور اہلِ سنت کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ زیادہ افضل ہیں۔ اہل سنت کے مشہور ثقہ امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ (متوفی ۱۲۵ھ) سے پوچھا گیا کہ آپ علی سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا عثمان سے؟ انہوں نے جواب دیا: عثمان سے۔ [تاريخ دمشق لإبن عسا كر ۴۱/۳۳۴وسنده صحيح ]
الحمدللہ اہلِ سنت دونوں سے محبت کرتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: بعض لوگ یہ دعوٰ ی کرتے ہیں کہ مؤمن یا مسلم کے دل میں علی اور عثمان دونوں کی محبت اکٹھی نہیں ہو سکتی، سن لو کہ ان دونوں کی محبت میرے دل میں اکٹھی ہے۔ [تاريخ دمشق لإبن عسا كر۴۱/۳۳۲وسنده حسن ]
حافظ ابن عساکر نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حالات سندوں کے ساتھ ایک جلد میں لکھے ہیں۔
اے اللہ !ہمارے دلوں کو سیدنا عثمان و سیدنا علی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔ آمین