حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تیرے پاس ابھی اس دروازے سے امیر المومنین، سید المسلمین، قائد الغرالمحجلین اور خاتم الوصیین داخل ہوں گے۔ [ذكره الشوكاني فى الفوائد رقم: 64]
امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں پوری کہانی نقل نہیں فرمائی۔ کاش وہ پورا شہ پارہ پیش فرما دیتے۔ غالباً ان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ نتیجہ انہوں نے روایت کے ابتدائی الفاظ نقل کیے ہم بھی اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ابراہیم بن محمد:
اس کا ایک راوی ابراہیم بن محمد بن میمون ہے۔ میں نہیں جانتاکہ یہ کون ہے۔ اس نے یہ موضوع حدیث روایت کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 191۔ المغني: 25/1۔ الجرح والتعديل: 128/2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس ابراہیم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی فرضی ہیرو ہے۔ جو روایت پیش کرنے کے لیے وضع کر لیا گیا ہے۔
اتفاق سے اس روایت کی سند میں جتنے راوی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا مجہول۔ اور کسی ایک راوی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قابل اعتبار ہے۔
قاسم بن جندب:
اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا قاسم بن جندب ہے۔ جو قطعاً مجہول شخص ہے۔
حارث بن حصیرہ:
قاسم سے یہ کہانی نقل کرنے والا حارث بن حصیرہ ہے۔ جو قبیلہ ازد سے تعلق رکھتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔
یحیی بن معین فرماتے ہیں: خشبی ہے۔
خشبیہ شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو زید بن علی بن حسین کی پھانسی کے بعد لکڑیاں لے کر مرنے کے لیے نکلا تھا اور ناکامی کے بعد اس لکڑی کو پوجنا شروع کر دیا۔ جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گی تھی۔ اس فرقہ کو خشبیہ کہا جاتا ہے۔
ابو احمد الزبیری کا بیان ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل نہیں ہوئے۔ وہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے ہیں۔ بادلوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اور دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اب جب سے ہم پر بادلوں کی حقیقت واضح ہوتی ہے تو ہماری یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ اس گرج اور چک کی حقیقت کیا ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ کیونکہ یہ ضعیف ہے۔ اور کوفہ کے ان لوگوں میں داخل ہے جنہوں نے کوفہ میں تشیع کی وبا پھیلائی ہے۔ زنیج کا بیان ہے کہ میں نے جریر سے سوال کیا۔ کیا تم نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں، میرے زمانہ میں وہ بہت بوڑھا تھا۔ اور ایک بڑی بات پر اصرار کیا کرتا ہے۔ یعنی رجعت پر۔ [ميزان الاعتدال: 432/1]
دارقطني لكهتے ہيں: یہ غالی قسم کا شیعہ ہے۔ [الضعفاء والمتروكين: 76]
اس حارث سے نقل کرنے والا علی بن عابس الازرق الاسدی الکوفی ہے۔
علی بن عابس:
اس کی روایت ترمذی میں پائی جاتی ہیں۔
یحیی بن معین فرماتے ہیں: یہ کچھ نہیں۔
جوزجانی، نسائی اور ازدی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ فحش غلطیاں کرتا ہے۔ اسی باعث اسے ترک کر دیا گیا۔ اس نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ «وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ» تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور انہیں فدک عطا فرمایا۔
ذہبی لکھتے ہیں: یہ باطل ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک عطا فرما دیتے تو پھر وہ کیا شئے طلب کرنے آئی تھیں۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی روایت بطور تحقیق لکھ لی جائے۔ [ميزان الاعتدال: 134/3]
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ:
اس کا آخری راوی جو اسے ابراہیم بن محمد بن میمون سے نقل کر رہا ہے۔ وہ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ہے۔ جو عثمان بن ابی شیبہ کا بیٹا ہے جن کی اور جن کے بھائی کی مصنف محدثین کے یہاں مشہور ہے۔
یہ شخص حافظ الحدیث سمجھا جاتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ لیکن عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ کذاب ہے۔
ابن خراش کا بیان ہے کہ احادیث وضع کیا کرتا تھا۔
مطین کا بیان ہے کہ یہ تو حضرت موسیٰ کی لاٹھی کی طرح ہے جو ہر چیز کو نگل لیتا ہے۔
برقانی کا بیان ہے کہ میں نے محدثین کو ہمیشہ اس پر اعتراض کرتے دیکھا ہے۔
ابن عقدہ کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن اسامہ الکلبی ابراہیم بن اسحاق الصواف اور داؤد بن یحیی کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہ محمد بن عثمان کذاب ہے۔ [ميزان الاعتدال: 642/3]