دنیا میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور تصادم
دنیا میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور تصادم کا ایک اہم سبب امریکہ کی استعماری پالیسیاں اور اس کا عالمی بالادستی کا خواب ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے یورپی اقوام کے تعاون سے دنیا پر اپنا تسلط جمانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ’نیٹو‘ جیسی مشترکہ فوجی تنظیم قائم کی، جسے دنیا کے کسی بھی حصے میں عسکری کارروائی کا اختیار حاصل تھا۔ اس تنظیم کے ذریعے امریکہ نے اپنے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنایا اور دنیا کو اپنے نظریات کے مطابق چلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
امریکی استعماری عزائم اور نیٹو کا کردار
امریکہ نے 1954ء میں وہائٹ ہاؤس کی ایک خفیہ رپورٹ میں واضح کیا:
"ہمارے دشمنوں کے طریقوں کے مقابلے میں ہمیں زیادہ منظم اور مؤثر انداز میں دشمنوں کو تباہ کرنا سیکھنا ہوگا۔”
(Brave New World Order, p. 43, از جیک نیلسن پالی میر)
سابق امریکی صدر کارٹر کے مشیر برزنسکی نے اپنی کتاب The Great Chessboard میں لکھا:
"امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اکیسویں صدی میں وہ دنیا کی واحد سپر پاور رہے اور یورپ و ایشیا جیسے اہم براعظموں میں اس کی برتری کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔”
امریکی عالمی بالادستی کا مقصد
امریکہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد عالمی حکومت کا قیام ہے، جہاں تمام سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے اس کے زیر اثر ہوں۔ 4 اگست 1999ء کو نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق:
"قومی حکومتوں کی غیر ذمہ دارانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے عالمی حکومت کا قیام ضروری ہے، جو تمام ممالک کو اپنے قوانین کے دائرے میں لائے۔”
(بحوالہ: مغربی میڈیا، ص: 85)
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی
اقوام متحدہ کے چارٹر میں بین الاقوامی امن قائم رکھنے کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، جن میں شامل ہیں:
- دفعہ 33: تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا۔
- دفعہ 36: اگر مسائل حل نہ ہوں تو سلامتی کونسل کا کردار۔
- دفعہ 41 اور 42: سلامتی کونسل کی طرف سے معاشی پابندیاں اور عسکری کارروائی۔
لیکن امریکہ ان قوانین کو اکثر نظرانداز کرتا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے مطابق:
"امریکہ کسی عالمی قانون کا پابند نہیں ہوگا جو اس کی کانگریس کے مفادات کے خلاف ہو۔”
(The Fire of This Time, p. 166)
بیرون ممالک پر امریکی حملے
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے درجنوں ممالک پر حملے کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:
- 1945: جاپان (ہیروشیما اور ناگاساکی)
- 1950: کوریا
- 1960: ویتنام
- 1991: عراق
- 2001: افغانستان
- 2003: عراق
(بحوالہ: عالمی سہارا، 10 دسمبر 2005، ص: 8)
نظریاتی تسلط اور تصادم
امریکہ اور مغربی طاقتیں اپنے نظریات کو دنیا پر بزور طاقت مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ مغربی مفکر سموئیل ہنٹنگٹن اپنی کتاب Clash of Civilizations میں لکھتا ہے:
"تاریخ میں زیادہ تر جنگیں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے تصادم کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔”
اسی طرح فرانس فوکویاما نے اپنی کتاب The End of History میں لکھا:
"مغربی لبرل نظام ہی انسانیت کے لیے واحد طرز زندگی ہے اور بقیہ تمام نظام ناقص ہیں۔”
اسلام دشمنی اور امریکی پالیسیاں
اشتراکیت کے خاتمے کے بعد مغربی طاقتوں نے اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دیا۔ مغربی دانشور گلیڈاسٹون نے کہا:
"جب تک قرآن موجود ہے، مغرب مشرق وسطیٰ پر قابض نہیں ہو سکتا۔”
(فکری یلغار، ص: 12)
فرانسس فوکویاما نے اسلام کو جدید سرمایہ داری کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا:
"اسلامی انقلابی قوتیں جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو خطرہ سمجھتی ہیں۔”
(The End of History, p. 58)
جنگ کے اثرات
- لاکھوں معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
- عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔
- 2008ء میں دنیا بھر میں دفاعی اخراجات 1464 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔
- ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا بڑا حصہ دفاعی بجٹ پر خرچ ہو رہا ہے۔
(SIPRI-Report 2011)
نتیجہ
امریکہ اور مغربی طاقتوں کی عالمی بالادستی کی خواہش، عالمی قوانین کی خلاف ورزی، اور نظریاتی تسلط کے ذریعے جنگی صورت حال پیدا کرنا دنیا میں بدامنی اور تصادم کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جب تک یہ پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی، عالمی امن کا قیام ممکن نہیں۔