مسلم مفادات کا تحفظ اور خون کی حرمت
یہ انصاف نہیں کہ یہاں کے سرکاری عہدیداروں کو مسلم مفادات اور مسلم خون کی حرمت کے بارے میں خبردار نہ کیا جائے۔ مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے، لیکن حالات اور موجودہ منظرنامے کے پیش نظر ہمیں دعا کے ساتھ ساتھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں اسلام اور کفر کے درمیان جاری جنگ فیصلہ کن مرحلے پر ہے، اور دشمن مختلف چالوں کے ذریعے مسلم امت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے۔
عراق کی مثال: دین کے جانبازوں کا کردار
عراق ایک زندہ مثال ہے، جہاں ماضی میں دین کے لیے کام کرنے والے افراد پر ریاستی ظلم روا رکھا گیا، مگر آج یہی عراق ہے جہاں سابقہ سرکاری فوج اور دین کے سپاہی متحد ہوکر اپنے ملک، امت، اور نسلوں کے دفاع میں مصروف ہیں۔ سابقہ نظریات اور مفادات اب فراموش ہو چکے ہیں، اور ہر کوئی "جہاد”، "اسلام”، "شہادت”، اور "جنت” جیسے شعائر پر متحد ہو گیا ہے۔
غیر متوقع حالات اور قیادت کی تبدیلی کا امکان
- حالات کب کیا موڑ لے سکتے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔
- قومی قیادتوں کے لیے ہدایت کا امکان موجود ہے، اور اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بیشتر مسلم خطوں کے قومی مفادات اسلامی مفادات کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔
- دین کے لیے مر مٹنے والے نوجوانوں نے اس امت کی بقا کو یقینی بنایا ہے، اور دشمن کی سازشوں کے باوجود امتِ مسلمہ اپنی جگہ کھڑی ہے۔
دشمن کے عزائم اور مسلم نسلوں کا خطرہ
اسلام کے دشمنوں کا طویل مدتی منصوبہ
صلیبی طاقتیں صرف "جہادیوں” کو ختم کرنے نہیں بلکہ اسلامی خطرے کو جڑ سے مٹانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کا مقصد مسلم معاشروں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تاکہ آئندہ نسلوں سے اسلام کے پیروکار پیدا نہ ہوں۔
دین گریز طبقے بھی ممکنہ خطرہ
دشمن جانتا ہے کہ کسی سیکولر یا بے دین مسلمان کی پشت سے بھی ایسا نوجوان پیدا ہو سکتا ہے جو قرآن اور سنت سے جُڑا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان دشمن کے لیے ایک ممکنہ خطرہ ہے، چاہے وہ فی الحال خود کتنا ہی دین سے دور کیوں نہ ہو۔
تبدیلی کی امید اور دین کی طرف رجوع
بہت سے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ کی ہدایت کسی بھی وقت کسی کو نصیب ہو سکتی ہے۔ بے دین افراد، سرکاری افسران، شوبز شخصیات اور کھیل کے میدان کے ستارے بھی دین کی طرف پلٹ کر اپنی زندگی کو بدلتے دیکھے گئے ہیں۔
امت مسلمہ کی موجودہ حالت اور دشمن کی سازشیں
بوسنیا اور کوسوو کی مثال
بوسنیا اور کوسوو میں مسلمانوں کا قتلِ عام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دشمن کا ہدف صرف "داڑھی والے” یا "حجاب پہننے والی” خواتین نہیں تھے بلکہ مسلم آباؤ اجداد کی نسبت رکھنے والے تمام افراد تھے، چاہے ان کا موجودہ کردار کچھ بھی ہو۔
صلیبی جنگ کا اصل مقصد
یہ جنگ محض چند جہادیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے خلاف ہے۔ یہ جنگ فیصلہ کن انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوگی، اور اس میں کسی کے لیے غیر جانبدار رہنے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔
مسلم خون کی حرمت اور آخرت کی سزا
مومن کے قتل کی سنگینی
اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کا ناحق قتل دنیا کے خاتمے سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا”
"اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ ہمیشہ اس میں رہے گا، اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا، اس پر لعنت کرے گا، اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرے گا۔”
(النساء: 93)
اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قاتل کے لیے توبہ اور ہدایت ممکن نہیں۔
احادیث کی روشنی میں
عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے:
"پوری دنیا ختم ہوجائے، یہ اللہ کے ہاں (سنگینی میں) اس سے کہیں کم ہے کہ ایک مسلمان آدمی کا خون کردیا جائے”
(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
دشمن کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت
دین اور امت کی بقا
یہ جنگ صرف چند مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے۔ اگر دشمن کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ہر طبقے کی موت ہوگی۔ آج امت کے ہر طبقے کی بقا انہی دین کے محافظوں کے وجود سے مشروط ہے۔
اپنی نسلوں کا تحفظ
اگر ہم خود اپنے دین کے محافظوں کو نقصان پہنچانے میں دشمن کا ساتھ دیں تو یہ ہماری نسلوں کے لیے بدترین نقصان ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوم کے غداروں کو ہمیشہ لعنت ہی ملی ہے۔
آخری پیغام: مسلم خون کی اہمیت کو سمجھیں
قیامت کے دن جواب دہی
اللہ کے سامنے قیامت کے دن کوئی بھی شخص مسلم خون کے جرم کا جواب نہیں دے سکے گا۔ دنیاوی فائدے کے عوض کسی مسلمان کا خون بہانا، اللہ کے غضب اور عذاب کو دعوت دینا ہے۔