حنفی مقلدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ الفاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدی کے لیے کافی ہے۔ اپنے اس موقف پر یہ حضرات سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے منسوب بعض آثار پیش کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ہر حال میں فاتحہ خلف الامام کے مخالف تھے۔
زیل میں پہلے ہم وہ بنیادی روایت پیش کرتے ہیں جو احناف اپنے دعویٰ میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں، اور پھر ائمہ سلف کی وضاحت کے ساتھ اس کا اصل مفہوم بیان کرتے ہیں۔
روایتِ ابن عمرؓ
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: «يُنْصَتُ لِلْإِمَامِ فِيمَا يَجْهَرُ بِهِ فِي الصَّلَاةِ وَلَا يَقْرَأُ مَعَهُ»
”سیدنا ابن عمرؓ فرمایا کرتے تھے: جب امام جہری نماز میں قراءت کرے تو مقتدی خاموش رہے اور امام کے ساتھ نہ پڑھے۔“
[المصنف لعبدالرزاق]
یہ اثر صراحتاً جہری نماز میں قراءت کے وقت مقتدی کے خاموش رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے، مگر اس میں سری نماز یا سکتات میں قراءت کی نفی نہیں۔
اس روایت سے متعلق ائمہ و محدثین کی وضاحت
① ابن عبدالبر کی وضاحت (تشریح عبدالحی لکھنوی)
(قوله: لا يقرأ مع الإمام، قال ابن عبد البر: ظاهر هذا أنه كان لا يرى القراءة في سر الإمام ولا جهره، ولكن قيَّده مالك بترجمة الباب أن ذلك في ما جهر به الإمام بما علم من المعنى. ويدل على صحته ما رواه عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن الزهري، عن سالم: أن ابن عمر كان يُنصت للإمام في ما جهر فيه، ولا يقرأ معه، وهو يدل على أنه كان يقرأ معه في ما أسرَّ فيه.)
”ابن عمرؓ کا اثر بظاہر یہ بتاتا ہے کہ وہ جہری اور سری دونوں نمازوں میں قراءت نہیں کرتے تھے، لیکن امام مالک نے باب کے عنوان سے اس کو جہری نماز کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ اس تخصیص کی صحت پر عبدالرزاق کی روایت دلالت کرتی ہے کہ وہ جہری میں خاموش رہتے اور سری میں قراءت کرتے تھے۔“
[التعليق الممجد على موطأ محمد، شرح لموطأ مالك برواية محمد بن الحسن]
② امام ابن المنذر النیسابوریؒ
«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ» عَلَى الْعُمُومِ إِلَّا أَنْ يُصَلِّيَ خَلْفَ فِيمَا يَجْهَرُ فِيهِ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، وَسَمِعَ قِرَاءَتَهُ، فَإِنَّ هَذَا مَوْضِعٌ مَسْتَثْنًى بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
”’جس نے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں‘ یہ حکم عام ہے، مگر اس سے وہ صورت مستثنیٰ ہے جب مقتدی جہری نماز میں امام کی قراءت سن لے۔ یہ استثناء کتاب و سنت سے ثابت ہے۔“
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف]
③ امام بغویؒ
«وَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ يَقْرَأُ فِيمَا أَسَرَّ الإِمَامُ فِيهِ الْقِرَاءَةَ، وَلا يَقْرَأُ فِيمَا جَهَرَ، يُقَالُ: هُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ… وَبِهِ قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وَهُوَ قَوْلٌ لِلشَّافِعِيِّ»
”ایک گروہ کا قول ہے کہ امام جب سری قراءت کرے تو مقتدی پڑھے، اور جب جہری قراءت کرے تو نہ پڑھے۔ یہی قول عبداللہ بن عمرؓ کا ہے، اور اسی پر امام زہری، امام مالک، ابن المبارک، احمد، اسحاق اور امام شافعی کا ایک قول ہے۔“
[شرح السنة للبغوي]
④ علامہ عبدالحی لکھنویؒ
«بعض آثار صرف جہری نمازوں میں فاتحہ کے ترک پر محمول ہیں نہ کہ سری میں، جیسا کہ ابن عمرؓ کا اثر ہے، لہذا یہ احناف کے لیے دلیلِ صحیح نہیں ہے۔»
[غيث الغمام على حواشي إمام الكلام]
📌 ان چاروں ائمہ و محدثین کی وضاحت سے صاف واضح ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ کا قول جہری نماز کے دوران قراءتِ امام کے وقت خاموشی کے بارے میں ہے، نہ کہ ہر حال میں فاتحہ ترک کرنے کے بارے میں۔
ابن عمرؓ سے قراءتِ خلف الامام کا ثبوت
جہاں بعض روایات میں سیدنا ابن عمرؓ جہری نماز میں امام کی قراءت کے دوران خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں، وہیں کئی صحیح آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ سری نمازوں اور جہری نماز کے مخصوص مواقع (سکتات) میں سورۃ الفاتحہ کی قراءت کے قائل اور عامل تھے۔
1 – ابو العالیہؒ کی روایت: ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا
2626 – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: «إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ رَبِّ هَذِهِ الْبَنِيَّةِ أَنْ أُصَلِّيَ صَلَاةً لَا أَقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَشَيْءٍ مَعَهَا»
“میں نے سیدنا ابن عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مجھے اس گھر (کعبہ) کے رب سے حیا آتی ہے کہ میں ایسی نماز پڑھوں جس میں سورۃ الفاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور نہ پڑھوں۔”
[المصنف لعبدالرزاق، إسناده صحيح]
📌 یہ واضح اعلان ہے کہ ابن عمرؓ ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کو لازم سمجھتے تھے۔
سند کے رواۃ:
-
معمر بن أبي عمرو الأزدي – ثقہ، ثبت، فاضل
-
أيوب بن كيسان السختياني – ثقہ، ثبت، حجۃ
-
رفيع بن مهران أبو العالية الرياحي – ثقہ
محدثین کی وضاحت
-
حافظ مزیؒ نے اس روایت کو امام بخاری کی القراءة خلف الإمام میں ذکر کیا اور واضح کیا کہ یہ سوال قراءت خلف الامام کے بارے میں تھا۔
-
امام بیہقیؒ نے بھی صراحت کی کہ یہ کلام قراءت خلف الامام کے سوال کے جواب میں فرمایا گیا تھا۔
[تهذيب الكمال في أسماء الرجال]
2 – یحییٰ البکّاء کی روایت: جہری نماز میں آہستہ قراءت
قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالَ: «مَا كَانُوا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي نَفْسِهِ»
“ابن عمرؓ سے قراءتِ خلف الامام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: لوگ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ مقتدی جہری نماز میں آہستہ سورۃ الفاتحہ پڑھے۔”
[كتاب القراءة خلف الإمام للبيهقي]
📌 اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن عمرؓ جہری نماز میں بھی آہستہ قراءت کو درست سمجھتے تھے، خاص طور پر امام کے سکتات یا مناسب وقفے میں۔
3 – نافعؒ کی روایت: ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا
2625 – عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، «أَنَّ ابْنَ عُمَرَ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ أَنْ يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ»
“نافع کہتے ہیں: سیدنا ابن عمرؓ فرض نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے۔”
[المصنف لعبدالرزاق، إسناده صحيح]
📌 یہ روایت واضح کرتی ہے کہ ابن عمرؓ کے نزدیک جماعت کی نماز ہو یا انفرادی، ہر رکعت میں فاتحہ کی قراءت ضروری تھی۔
4 – صحیح ابن خزیمہ کی روایت: امام کے ساتھ آمین کہنا
«كَانَ إِذَا كَانَ مَعَ الْإِمَامِ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَأَمَّنَ النَّاسُ أَمَّنَ ابْنُ عُمَرَ، وَرَأَى تِلْكَ السُّنَّةَ»
“جب ابن عمرؓ امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو سورۃ الفاتحہ پڑھتے، پھر جب لوگ آمین کہتے تو وہ بھی آمین کہتے، اور اس کو سنت سمجھتے تھے۔”
[صحيح ابن خزيمة، إسناده حسن]
📌 یہ صریح عمل ہے کہ ابن عمرؓ جماعت میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے تھے اور اس کے بعد آمین کہتے تھے۔
خلاصہ
ان تمام صحیح روایات سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمرؓ:
✔ جہری نماز میں قراءتِ امام کے دوران خاموش رہتے تھے۔
✔ سکتات میں یا سری نمازوں میں سورۃ الفاتحہ پڑھتے تھے۔
✔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے پابند تھے، خواہ امام کے پیچھے ہوں یا اکیلے۔
سکتاتِ امام میں قراءت کے دلائل
سیدنا ابن عمرؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ سے یہ بات ثابت ہے کہ جہری نماز میں امام کے دو سکوت (وقفے) ہوتے تھے، اور مقتدی کے لیے ان وقفوں میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا مشروع اور مستحب ہے۔ زیل میں اب ہم اس کے واضح دلائل پیش کرتے ہیں۔
1 – ابو ہریرہؓ کا اثر اور ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ کی وضاحت
239 – … عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ” كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثُمَّ هِيَ خِدَاجٌ ” فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَكَيْفَ إِذَا كَانَ الْإِمَامُ يَقْرَأُ؟ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: ” لِلْإِمَامِ سَكْتَتَانِ فَاغْتَنِمُوهُمَا، سَكْتَةٌ حِينَ يُكَبِّرُ، وَسَكْتَةٌ حِينَ يَقُولُ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} "
”ابو ہریرہؓ نے فرمایا: جس نماز میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے، وہ ناقص ہے۔ لوگوں میں سے ایک نے پوچھا: اگر امام قراءت کر رہا ہو تو کیا کریں؟ ابو سلمہؓ نے کہا: امام کے دو سکتے ہوتے ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ؛ ایک تکبیرِ تحریمہ کے وقت، اور دوسرا جب وہ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} کہے۔”
[كتاب القراءة خلف الإمام للبيهقي، إسناده صحيح]
اس روایت سے متعلق ائمہ کی تصریحات
امام احمد بن حنبلؒ کا قول
ثناء اللہ المظہری حنفی نے نقل کیا:
"وقال احمد: يُسْتَحَبُّ فِي السِّرِّيَّةِ، وَكَذَا فِي الْجَهْرِيَّةِ عِنْدَ سَكْتَاتِ الْإِمَامِ إِنْ سَكَتَ، لَا مَعَ قِرَاءَتِهِ، وَبِهِ قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَيُرْوَى ذَلِكَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ”
”امام احمدؒ فرماتے ہیں: سری نماز میں قراءت مستحب ہے، اور اسی طرح جہری نماز میں امام کے سکتات کے وقت بھی اگر وہ سکتہ کرے، امام کے ساتھ آواز ملا کر نہیں۔ یہی قول امام زہری، امام مالک اور ابن المبارک کا ہے، اور یہ ابن عمرؓ سے بھی مروی ہے۔”
[التفسير المظهري]
امام ابن قدامہ حنبلیؒ
"الِاسْتِحْبَابُ أَنْ يَقْرَأَ فِي سَكَتَاتِ الْإِمَامِ، وَفِيمَا لَا يَجْهَرُ فِيهِ، هَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَابْنُ عُمَرَ، وَهِشَامُ بْنُ عَامِرٍ يَقْرَءُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ فِيمَا أَسَرَّ بِهِ”
”امام کے سکتات میں اور جس نماز میں امام قراءت نہ سنائے اس میں قراءت مستحب ہے۔ یہی اکثر اہلِ علم کا قول ہے۔ ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ اور ہشام بن عامرؓ امام کے پیچھے سری نماز میں قراءت کرتے تھے۔”
[المغني لابن قدامة]
امام مالکؒ اور امام زہریؒ
ان دونوں ائمہ سے بھی یہی موقف منقول ہے کہ مقتدی جہری نماز میں سکتہ کے وقت قراءت کرے، اور سری نماز میں لازمی قراءت کرے۔ امام مالکؒ کا یہ قول اوپر امام احمدؒ کی سند کے ساتھ مذکور ہو چکا ہے۔
خلاصہ
✔ جہری نماز میں امام کے دو سکتات ثابت ہیں، ایک تکبیر تحریمہ کے بعد اور ایک سورۃ الفاتحہ کے بعد۔
✔ ان سکتات میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ کے نزدیک مستحب اور مشروع ہے۔
✔ ابن عمرؓ کے بارے میں بھی یہی ثابت ہوا کہ وہ جہری نماز میں سکتات کے وقت اور سری نماز میں قراءت کرتے تھے۔
احناف کے اکابر علماء سے قراءتِ خلف الامام کا ثبوت
یہ بات صرف محدثین اور فقہائے سلف تک محدود نہیں بلکہ خود احناف کے اکابر ائمہ و مشائخ نے بھی مختلف مقامات پر امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو لازم یا کم از کم مستحسن قرار دیا ہے۔ اس حصے میں ہم وہ اصل عبارات اور حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔
1 – علامہ بدر الدین العینی حنفیؒ (متوفی 855ھ)
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم کے تحت لکھتے ہیں:
"عَلَى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِنَا اسْتَحْسَنُوا ذَلِكَ عَلَى سَبِيلِ الِاحْتِيَاطِ فِي جَمِيعِ الصَّلَوَاتِ، وَمِنْهُمْ مَنْ اسْتَحْسَنَهَا فِي غَيْرِ الْجَهْرِيَّةِ”
”ہمارے بعض فقہائے احناف نے احتیاط کے طور پر ہر نماز میں (امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو) مستحسن کہا ہے، اور بعض نے غیر جہری نماز میں اس کو مستحسن کہا ہے۔”
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري]
2 – علامہ عبدالحی لکھنوی حنفیؒ (متوفی 1304ھ)
"ورُوي عن محمد أنّه استحسنَ قراءة الفاتحةِ للمؤتمّ في السريّة، وروى مثله عن أبي حنيفةَ، صرّح به في ((الهداية)) و((المجتبى شرح مختصر القدوري)) وغيرهما، وهذا هو مختار كثير من مشايخنا”
”امام محمدؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے سری نمازوں میں مقتدی کے لیے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو مستحسن کہا ہے۔ یہی امام ابو حنیفہؒ سے بھی مروی ہے اور ہدایہ، مجتبیٰ شرح قدوری وغیرہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ ہمارے بہت سے مشائخ کا یہی مختار ہے۔”
[عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية]
3 – ملا جیوں حنفیؒ (متوفی 1047ھ)
"فإن رأيت الطائفة الصوفية والمشائخين الحنفية تراهم يستحسنون قراءة الفاتحة للمؤتم، كما استحسنه محمد أيضًا”
”اگر تم صوفیاء اور مشائخ احناف کو دیکھو تو وہ مقتدی کے لیے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو مستحسن سمجھتے ہیں، جیسا کہ امام محمدؒ نے بھی اس کو مستحسن کہا ہے۔”
[التفسيرات الأحمدية في بيان الآيات الشرعية]
4 – شاہ عبدالرحیم دہلویؒ (متوفی 1131ھ)
شاہ ولی اللہ دہلویؒ اپنے والد کے بارے میں انفاس العارفین میں لکھتے ہیں:
”وہ اکثر مسائل میں حنفی مذہب پر عمل کرتے تھے، مگر جہاں حنفی مسلک کے مقابلے میں حدیث یا وجدان سے دوسری رائے راجح نظر آتی تو اسے اختیار کر لیتے۔ مثلاً امام کے پیچھے اور نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھتے تھے، اور حدیث «لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن» پیش کرتے تھے۔”
5 – شاہ ولی اللہ دہلویؒ (متوفی 1176ھ)
"وَإِنْ كَانَ مَأْمُومًا وَجَبَ عَلَيْهِ الِاسْتِمَاعُ وَالْإِنْصَاتُ، فَإِنْ جَهَرَ الْإِمَامُ لَمْ يَقْرَأْ إِلَّا عِنْدَ إِسْكَاتِهِ، وَإِنْ خَافَتَ فَلَهُ الْخِيَرَةُ، فَإِنْ قَرَأَ فَلْيَقْرَأِ الْفَاتِحَةَ قِرَاءَةً لَا يُشَوِّشُ عَلَى الْإِمَامِ، وَهَذَا أَوْلَى الْأَقْوَالِ عِنْدِي”
”اگر مقتدی ہے تو اس پر سننا اور خاموش رہنا واجب ہے، پس اگر امام جہری قراءت کرے تو مقتدی صرف امام کے سکتہ میں پڑھے، اور اگر امام سری قراءت کرے تو مقتدی کو اختیار ہے، اور اگر پڑھے تو سورۃ الفاتحہ اس طرح پڑھے کہ امام پر خلل نہ ڈالے۔ میرے نزدیک یہی سب سے بہتر قول ہے۔”
[حجة الله البالغة]
یہ اقوال واضح کرتے ہیں کہ جمہور احناف کے نزدیک بھی مخصوص مواقع پر (خصوصاً سری نماز اور جہری نماز میں سکتہ کے وقت) امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا مشروع، مستحسن بلکہ بعض کے نزدیک ضروری ہے۔
خلاصہ اور حاصل کلام
اس پوری تحقیق سے درج ذیل نکات واضح ہوئے:
-
ابن عمرؓ کا قول جہری نماز میں امام کی قراءت کے دوران خاموش رہنے کے بارے میں ہے، لیکن اس میں سری نماز یا امام کے سکتات میں قراءت کی نفی نہیں۔
-
متعدد صحیح روایات سے ابن عمرؓ کا ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا ثابت ہے، خواہ وہ امام کے پیچھے ہوں یا اکیلے۔
-
جہری نماز میں امام کے دو سکتات ثابت ہیں، اور ان میں قراءت کرنا صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ کے نزدیک مشروع و مستحب ہے۔
-
خود احناف کے بڑے ائمہ و مشائخ نے بھی سری نماز میں اور جہری نماز کے سکتہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو مستحسن یا ضروری کہا ہے۔
امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کی مشروعیت اور استحباب پر صحابہؓ، محدثین، ائمہ اربعہ اور جمہور احناف کے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ "امام کی قراءت ہی ہر حال میں مقتدی کے لیے کافی ہے” نہ ابن عمرؓ کا عقیدہ ہے اور نہ ہی جمہور اہل علم کا۔