امام کی بے وضو نماز کا حکم اور مقتدیوں پر اثر
فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1 ص 241۔242

سوال

اگر امام نے جماعت کرائی اور نماز کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس نے بے وضو نماز پڑھائی ہے، تو کیا اس صورت میں مقتدیوں کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ کیا امام دوبارہ نماز پڑھے گا یا مقتدی بھی نماز لوٹائیں گے؟

جواب

اس مسئلے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں:

امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک، مقتدیوں کی نماز درست ہے اور ان کو نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف امام کی نماز باطل ہوئی ہے، اس لیے صرف امام کو اپنی نماز دہرانا ہوگی۔ ان ائمہ کرام نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وہ تمہارے لیے نماز پڑھاتے ہیں، اگر وہ درست پڑھیں تو تمہارے اور ان کے لیے ہے، اور اگر غلطی کریں تو تمہارے لیے (نماز) درست ہے اور ان پر (غلطی کا) بوجھ ہے۔”
(احمد و بخاری)

امام منتقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا کہ انہوں نے ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی تھی اور انہیں اس کا علم نہیں تھا، مگر لوگوں نے نماز نہیں دہرائی، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی یہی واقعہ بیان کیا گیا ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت منقول ہے۔

امام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کا رد کرتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام کی نماز کے فاسد ہونے سے مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک، اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں کی نماز باطل ہو جاتی ہے اور دونوں کو نماز دہرانا ضروری ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:

"امام ضامن ہے اور مؤذن امانت دار۔”
(احمد، ابو داود، ترمذی، ابن حبان، ابن خزیمہ، حاکم)

خلاصہ

میرے نزدیک ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد) کا مسلک زیادہ راجح اور قوی ہے کہ ایسی صورت میں مقتدیوں کی نماز درست ہوتی ہے اور صرف امام کو اپنی نماز دہرانا ہوگی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے