امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب قائم کیا ہے:” سترة الامام سترة من خلفه“
عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما انه قال اقبلت راكبا على حمار اتان وانا يومئذ قد ناهزت الاحتلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى الى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وارسلت الاتان ترتع ودخلت فى الصف فلم ينكر ذلك على احد
عمدۃ القاری 2/569، بخاری، کتاب الصلاۃ
”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں گدھی پر سوار ہو کر نماز کے لیے آیا اور میں اس وقت تقریباً جوانی کی عمر کو پہنچ چکا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں (دیوار کے علاوہ کسی اور سترے) کی طرف رخ کر کے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نمازیوں کی صف کے ایک حصے کے سامنے سے گزرا اور باہر نکل گیا۔ پھر میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود نماز کی صف میں شامل ہو گیا لیکن کسی نے مجھ پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ کیا۔“
معلوم ہوا کہ اگر امام سترے کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو صف کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نماز میں کھڑے لوگوں کے سامنے سے گزرے تو کسی نے اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ سب امام کے سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے کسی کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نفی جدار کا فائدہ تبھی ہے جب کسی دوسری چیز کا سترہ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر یہ نفی لغو ٹھہرے گی۔ اگر حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ حدیث میں الي غير جدار کے الفاظ ہیں اور لفظ غير ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے اس لیے تقدیری عبارت یوں ہوگی: يصلي بالناس بمنى الى شيء غير جدار یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول بھی یہی تھا کہ آپ جب کھلی فضا میں نماز پڑھاتے تو سترہ قائم فرما لیتے تھے، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ کا معمولات نبوی کے مطابق وہی مفہوم مراد لینا بہتر ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے سمجھا ہے۔
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی دلیل ہے کیونکہ جب سترہ قائم تھا تو کسی کے لیے اعتراض کا موقع ہی نہیں تھا۔ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے الفاظ الي غير جدار سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سترہ تھا کیونکہ غير کا لفظ ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے۔ تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ ’دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف‘ وہ چیز لاٹھی بھی ہو سکتی ہے، نیزہ بھی ہو سکتا ہے، ان کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے۔“
باب سترۃ الامام سترۃ من خلفہ: 495، صحیح مسلم: 503
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق شرح تراجم بخاری میں یوں رقم طراز ہیں: ”اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی امام کے سترے کی موجودگی میں مقتدیوں کے آگے سے گزر جائے تو وہ گناہگار نہیں ہو گا۔“
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت حمل البخاري لفظ الغير على النعت والبيهقي على النفي المحض وما اختاره البخاري هنا اولي فان التعرض لنفي الجدار خاصة يدل على انها كان هناك شتى مغاير للجدار الخ
[مرعاۃ، ج 1، ص: 515]
”خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہاں یہ ہے کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور چیز بطور سترہ تھی۔ حضرت الامام نے لفظ غير کو یہاں بطور صفت سمجھا اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس سے نفی محض مراد لی، اور جو کچھ یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے وہی مناسب اور بہتر ہے۔“