امام معمر کے بھتیجے کا قصہ: سند کے لحاظ سے تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 474

امام معمر اور ان کے بھتیجے کے قصے کی تحقیق

سوال:

علماء نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:

"حافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے کہ امام معمر رحمہ اللہ کا بھتیجا رافضی تھا، امام معمر رحمہ اللہ اسے اپنی کتابیں دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ اس بھتیجے نے امام معمر کی کتاب میں ایک حدیث داخل کر دی۔ (التہذیب ص12، ج1) یہ حدیث امام معمر نے امام عبدالرزاق سے روایت کی، اور امام عبدالرزاق نے اسے آگے بیان کیا۔ اس واقعے کی تفصیلات التہذیب وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔”

سوال یہ ہے کہ: کیا یہ قصہ سند کے اعتبار سے صحیح اور ثابت ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

یہ واقعہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (متوفی ۸۵۲ھ) نے ابو حامد بن الشرقی سے بغیر کسی سند اور حوالے کے نقل کیا ہے۔

🔹 ماخذ:
تہذیب التہذیب، جلد 1، صفحہ 12، ترجمہ: احمد بن الازہر

دوسرے محدثین کی نقل کردہ روایات:

یہی قصہ کئی دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے، مگر کسی نے بھی اس کی مکمل اور متصل سند بیان نہیں کی:

نورالدین الہیثمی
مجمع الزوائد (جلد 9، صفحہ 133)

امام سیوطی
تدریب الراوی (جلد 1، صفحہ 286)

ابوالحجاج المزی
تہذیب الکمال (جلد 1، صفحہ 106)

حافظ ذہبی
سیر اعلام النبلاء (جلد 9، صفحہ 575-576، جلد 12، صفحہ 367)

ان سب نے یہ واقعہ ابو حامد بن الشرقی سے بغیر سند نقل کیا ہے۔

سب سے مضبوط سند کی صورت:

اس قصے کو خطیب بغدادی نے کچھ تفصیل سے روایت کیا ہے:

➊ خطیب بغدادی ←

➋ محمد بن احمد بن یعقوب ←

➌ محمد بن نعیم الضبی (مصنف المستدرک اور تاریخ نیسابور) ←

➍ ابواحمد الحافظ ←

➎ ابو حامد بن الشرقی

تاریخ بغداد، جلد 4، صفحہ 42، ترجمہ 1647

یہ امکان بھی ہے کہ یہ واقعہ الحاکم کی کتاب ’’تاریخ نیسابور‘‘ میں مذکور ہو، لیکن یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں واللہ اعلم۔

سند میں موجود راوی کی توثیق:

اس روایت میں موجود محمد بن احمد بن یعقوب کے بارے میں کوئی توثیق نہیں مل سکیواللہ اعلم۔

تاریخی و زمانی تجزیہ:

ابو حامد بن الشرقی رحمہ اللہ
سن 240ھ میں پیدا ہوئے اور 325ھ میں وفات پائی۔
تاریخ الاسلام للذہبی، جلد 24، صفحہ 165-166

امام معمر بن راشد رحمہ اللہ
سن 154ھ میں وفات پائی۔

📌 اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ:
امام معمر کی وفات کے 86 سال بعد ابو حامد بن الشرقی پیدا ہوئے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:

ابو حامد بن الشرقی کو یہ واقعہ کس نے سنایا تھا؟

نتیجہ:

یہ بات واضح ہے کہ:

◈ یہ قصہ منقطع (کٹی ہوئی سند) کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

◈ سند کا تسلسل ثابت نہیں۔

◈ اس وجہ سے یہ قصہ باطل اور مردود ہے۔

حافظ ذہبی کا تبصرہ:

قلت: هذه حکایة منقطعة وما کان معمر شیخا مغفلا بروج هذا علیه، کان حافظا بصیرا بحدیث الزهری
’’میں کہتا ہوں: یہ منقطع حکایت ہے، اور معمر ایسا غافل شیخ نہ تھا کہ اس پر یہ بات خفیہ رہ جاتی۔ وہ حدیثِ زہری کے حافظ اور صاحبِ بصیرت تھے۔‘‘
ماخذ: سیر اعلام النبلاء، جلد 9، صفحہ 576

یہ تنقیدی بیان اس قصے کے باطل اور مردود ہونے کی مزید وضاحت کرتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1