زیرِ نظر تحقیقی مضمون میں ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی الکوفی رحمہ اللہ (متوفی 189ھ)، جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مشہور ترین شاگرد ہیں اور فقہِ حنفی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہیں، درحقیقت وہ خود امام ابو حنیفہ کے مقلد نہیں تھے۔ حنفی مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے پیش کردہ اس شبہے کا علمی جائزہ بھی پیش کیا جائے گا کہ امام محمد صرف چند فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف رکھتے تھے، لیکن اصولی طور پر ان کی تقلید کرتے تھے۔ اس تحقیق میں ہم یہ ثابت کریں گے کہ:
✿ امام محمد بن الحسن الشیبانی نے تقلید کا عمومی رد فرمایا۔
✿ امام محمد اصول اور فروع دونوں میں امام ابو حنیفہ سے کثرت سے اختلاف رکھتے تھے۔
✿ امام محمد بن الحسن مجتہد مطلق تھے، نہ کہ مجتہد فی المذہب۔
اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے امام محمد کی اپنی واضح عبارت پیش کریں گے، پھر تقلیدی حضرات کی جانب سے اٹھائے گئے شبہات کا تحقیقی جواب پیش کریں گے۔
امام محمد بن حسن کا تقلیدِ ابو حنیفہ پر واضح اور صریح موقف:
امام محمد بن الحسن الشیبانی اپنی معروف کتاب ’’الأصل‘‘ میں فرماتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّا قَلَّدْنَا فِي هٰذِهِ الْأَشْيَاءِ أَحَدًا، لَكَانَ مَنْ مَضَى قَبْلَ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلَ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَمَنْ أَشْبَهَهُمْ أَحْرَىٰ أَنْ يُقَلَّدَ، فَلَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يُتَحَكَّمَ عَلَى النَّاسِ۔
(کتاب الأصل لمحمد بن الحسن الشیبانی)
ترجمہ:
"اگر ہم نے ان مسائل میں کسی کی تقلید کرنی ہوتی تو ابو حنیفہ سے پہلے کے بزرگوں، جیسے حسن بصری اور ابراہیم نخعی وغیرہ، کی تقلید زیادہ بہتر ہوتی۔ لوگوں پر (کسی ایک شخص کی رائے کی) تقلید کو لازم ٹھہرانا درست نہیں۔”
اس عبارت سے واضح طور پر درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
-
امام محمد نے ابو حنیفہ کی تقلید کی صریحاً نفی کی ہے۔
-
انہوں نے تقلید کو عمومی طور پر رد کیا ہے، نہ کہ صرف کسی خاص مسئلے تک محدود رکھا ہے۔
-
ان کے نزدیک اگر تقلید کی ضرورت ہوتی تو امام ابو حنیفہ سے پہلے گزرنے والے مجتہدین اس کے زیادہ حقدار تھے۔
تقلیدی حضرات کی جانب سے پہلا اعتراض اور اس کا جواب
تقلیدی حضرات کا دعویٰ:
"امام محمد نے یہاں تقلید کا انکار صرف وقف کے مسئلے میں کیا ہے، اور اس کی وجہ خاص حالات تھے، نہ کہ تقلید کی عمومی نفی۔”
اس تقلیدی دعوے کا تحقیقی جواب:
(1) امام محمد کے اپنے الفاظ کی دلالت:
امام محمد نے اپنی عبارت میں "هٰذِهِ الْأَشْيَاءِ” (یہ مسائل) کی تعبیر استعمال کی ہے جو عمومی نوعیت رکھتی ہے، اور تقلید کی نفی بھی عام انداز سے کی ہے۔ اگر امام محمد صرف ایک خاص مسئلے تک محدود رہنا چاہتے تو واضح طور پر صرف ایک مسئلہ کا نام لیتے۔ لیکن انہوں نے عمومی طور پر یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی ایک عالم کی رائے لوگوں پر لازم کرنا درست نہیں۔
(2) امام ابو حامد الغزالی کی گواہی:
امام ابو حامد الغزالی (متوفی 505ھ) نے بھی واضح طور پر یہ تصریح فرمائی ہے کہ امام محمد نے صرف ایک مسئلے میں نہیں بلکہ کثیر مسائل میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا ہے:
وأبو حنيفة نزف جمام ذهنه في تصوير المسائل… فكثر خبطه… ولذلك استنكف كان أبو يوسف، ومحمد من اتباعه، في ثلثي مذهبه، لما رأوا فيه من كثرة الخبط، والتخليط، والتورط في المناقضات۔
(المنخول من تعليقات الأصول، امام ابو حامد الغزالی)
ترجمہ:
"امام ابو حنیفہ مسائل کی تشکیل میں متعدد غلطیوں کے شکار ہوئے، جس کی وجہ سے ابو یوسف اور محمد نے دو تہائی مسائل میں ان کی اتباع سے گریز کیا، کیونکہ ان کی آراء میں انہیں کثرت سے تضاد، الجھن اور انتشار نظر آیا۔”
یہاں صاف ظاہر ہے کہ امام محمد صرف ایک خاص مسئلے تک محدود نہیں رہے، بلکہ عمومی طور پر تقلید سے انکار کرتے تھے۔
(3) عبد الحئی لکھنوی حنفی کی وضاحت:
علامہ عبد الحئی لکھنوی (متوفی 1304ھ) نے واضح الفاظ میں امام محمد اور قاضی ابو یوسف کے بارے میں لکھا:
فإنّ مخالفتَهما لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الإمامُ الغَزاليُّ في المنخول: إنّهما خالفا أبا حنيفةَ في ثُلُثي مذهبه۔
(عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية)
ترجمہ:
"امام ابو یوسف اور امام محمد نے امام ابو حنیفہ کی صرف فروع میں نہیں بلکہ اصول میں بھی غیر معمولی مخالفت کی ہے۔ حتیٰ کہ امام غزالی نے فرمایا کہ انہوں نے ابو حنیفہ سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا۔”
یہ بات واضح کرتی ہے کہ امام محمد محض مجتہد فی المذہب نہیں بلکہ مجتہد مطلق تھے، کیونکہ اصولی اختلاف ایک مجتہد مطلق ہی کرسکتا ہے۔
تقلیدی حضرات کا دوسرا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب
تقلیدی حضرات نے اس حقیقت سے بچنے کے لیے ایک اور اعتراض پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"امام محمد بن حسن شیبانی اور قاضی ابو یوسف کو مجتہد مطلق نہیں بلکہ مجتہد فی المذہب قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ دونوں اصول میں نہیں، صرف فروع میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف رکھتے تھے۔”
آئیے اس دعوے کا علمی جائزہ لیتے ہیں:
اعتراض کا علمی رد:
(1) ابن عابدین شامی حنفی کی شہادت:
علامہ ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) واضح طور پر فرماتے ہیں:
الأئمة الشافعية كالقفال والشيخ أبي على والقاضى حسين كانوا يقولون: لسنا مقلدين للشافعي، بل وافق رأينا رأيه، يُقال مثله في أصحاب أبي حنيفة مثل أبي يوسف ومحمد بالأولى، وقد خالفوه في كثير من الفروع۔
(عقود رسم المفتی لابن عابدین، ص: 39)
ترجمہ:
"شافعیہ کے کبار ائمہ مثلاً قفال، شیخ ابو علی اور قاضی حسین کہتے تھے کہ ہم شافعی کے مقلد نہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے سے موافق ہوگئی۔ یہی بات ابو حنیفہ کے شاگردوں ابو یوسف اور محمد شیبانی کے بارے میں زیادہ قوی طور پر کہی جائے گی کیونکہ انہوں نے فروع میں اپنے امام ابو حنیفہ کی کثرت سے مخالفت کی ہے۔”
یہاں ابن عابدین شامی جیسے حنفی امام کی گواہی سے ثابت ہے کہ امام محمد بن الحسن کی حیثیت محض مجتہد فی المذہب تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کا طرزِ عمل واضح طور پر مجتہد مطلق کا تھا۔
(2) امام الحرمین الجوینی کی تصریح:
امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (متوفی 478ھ) نے امام مزنی کے بارے میں فرمایا کہ:
إن كل ما اختاره المزني أرى أنه تخريج ملحق بالمذهب، لا كأبي يوسف ومحمد، فإنهما يخالفان أصول صاحبهما۔
(حسن التقاضی للکوثری، ص: 15)
ترجمہ:
"امام مزنی کے اختیارات تو شافعی مذہب کے اندر ہی تخریجات ہیں، لیکن ابو یوسف اور محمد کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان دونوں نے تو اپنے امام ابو حنیفہ کے اصول کی مخالفت کی ہے۔”
امام الحرمین الجوینی کی اس واضح اور قوی تصریح سے بھی معلوم ہوا کہ امام محمد اور ابو یوسف صرف فروع تک محدود نہیں رہے، بلکہ اصول میں بھی ابو حنیفہ کے مقلد نہیں تھے۔
(3) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی گواہی:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1176ھ) امام محمد بن الحسن کے بارے میں لکھتے ہیں:
وإن وجد قياسًا ضعيفًا أو تخريجًا لينًا يخالفه حديث صحيح مما عمل به الفقهاء أو يخالفه عمل أكثر العلماء، تركه إلى مذهب من مذاهب السلف مما يراه أرجح ما هناك۔
(الإنصاف فی بیان أسباب الاختلاف، شاہ ولی اللہ دہلوی)
ترجمہ:
"جب امام محمد کسی مسئلے میں اپنے استاد (ابو حنیفہ) کی رائے کو کمزور یا کسی صحیح حدیث اور جمہور علماء کے عمل کے خلاف پاتے تو اس رائے کو ترک کر کے سلف میں سے کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو اختیار کر لیتے جو ان کے نزدیک زیادہ صحیح ہوتی۔”
یہ عبارت بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ امام محمد تقلید کرنے والے نہیں بلکہ واضح طور پر مجتہد مطلق تھے۔
(4) محمد الدسوقی حنفی کی تحقیق:
مشہور حنفی محقق محمد الدسوقی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"امام محمد مجتہد مطلق تھے۔ جب وہ ابو حنیفہ یا کسی دوسرے فقیہ سے اصول یا فروع میں اتفاق کرتے تو دراصل فہم و ادراک کی بنیاد پر اتفاق کرتے نہ کہ تقلید و اتباع کی بنیاد پر۔ اس بناء پر امام محمد کو مجتہد فی المذہب کہنا درست نہیں۔”
(الإمام محمد بن الحسن الشیبانی وأثره فی الفقہ الإسلامی، محمد الدسوقی)
(5) شاہ ولی اللہ دہلوی کی مزید تصریح:
شاہ ولی اللہ دہلوی امام ابو حنیفہ اور امام محمد و ابو یوسف کے تعلق کو امام احمد بن حنبل اور امام شافعی کے تعلق کے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومنزلة مذهب أحمد من مذهب الشافعي كمنزلة مذهب أبي يوسف ومحمد من مذهب أبي حنيفة، إلا أن مذهبه لم يُجمع في التدوين مع مذهب الشافعي كما دُوِّن مذهبهما مع مذهب أبي حنيفة، فلذلك لم يُعدّا مذهبًا واحدًا فيما ترى۔
(الإنصاف، شاہ ولی اللہ دہلوی)
ترجمہ:
"امام احمد بن حنبل کا تعلق امام شافعی سے وہی ہے جو امام ابو یوسف اور امام محمد کا امام ابو حنیفہ سے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امام احمد کا مذہب شافعی مذہب کے ساتھ یکجا مدون نہیں ہوا جبکہ امام ابو یوسف اور محمد کا مذہب ابو حنیفہ کے ساتھ مدون ہوگیا۔”
اس عبارت سے بھی واضح ہوا کہ امام محمد اصولی طور پر ابو حنیفہ کے مقلد نہیں تھے بلکہ ان کے اصول و فروع میں مستقل اجتہاد کرتے تھے۔
تقلیدی حضرات کا تیسرا اعتراض اور اس کا تحقیقی رد
بعض حنفی حضرات اس بحث میں یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی نے تقلید کو صرف بعض مخصوص مسائل میں ترک کیا ہے، مثلاً وقف کے مسئلہ میں، ورنہ دیگر مسائل میں وہ تقلیدِ ابو حنیفہ کے قائل تھے۔ اسی لیے ان کے نزدیک امام محمد کو مجتہد مطلق کہنا درست نہیں۔
اس دعوے کا علمی جائزہ حسب ذیل ہے:
(1) تقلیدی حضرات کی عبارت کا تجزیہ:
تقلیدیوں نے اس سلسلے میں علامہ زاہد کوثری کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کی ہے:
"امام محمد نے وقف جیسے مسائل میں تقلید نہ کرنے کی بات کی ہے، لیکن مطلقاً ہر مسئلے میں اور ہر شخص کے لیے تقلید کی ممانعت کسی سے بھی منقول نہیں۔”
(حسن التقاضی فی سیرۃ أبی یوسف القاضی، زاہد الکوثری)
یہاں تقلیدی حضرات امام محمد کی تقلید مخالف واضح عبارت کی تخصیص کر رہے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
(2) امام محمد بن الحسن کی صریح اور واضح عبارت:
امام محمد بن الحسن خود اپنی مشہور کتاب "کتاب الاصل” میں واضح طور پر تقلید کے تصور کو ہی رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولو أنا قلدنا [في] هذه الأشياء أحداً لكان من مضى قبل أبي حنيفة مثل الحسن البصري وإبراهيم النخعي ومن أشبههم أحرى أن يقلد، فليس ينبغي أن يتحكم على الناس۔
(کتاب الأصل لمحمد بن الحسن الشیبانی)
ترجمہ:
"اگر ہم ان مسائل میں کسی کی تقلید کو جائز سمجھتے تو ابو حنیفہ سے پہلے والے امام مثلاً حسن بصری اور ابراہیم نخعی تقلید کے زیادہ مستحق ہوتے۔ لہٰذا لوگوں پر تقلید کو لازم قرار دینا درست نہیں۔”
یہاں امام محمد تقلید کی بنیادی نفی کر رہے ہیں، نہ کہ صرف وقف کے مسئلے تک محدود۔
(3) امام غزالی (متوفی 505ھ) کی گواہی:
امام ابو حامد الغزالی نے اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ امام محمد اور قاضی ابو یوسف نے صرف مخصوص مسئلے میں نہیں بلکہ کثیر مسائل میں ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔ ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
وأبو حنيفة نَزَفَ جِمامُ ذهنه في تصوير المسائل، فكثُر خبطُه لذلك. ولذلك استنكف أبو يوسف ومحمد من اتباعه في ثُلُثَيْ مذهبه، لما رأوا فيه من كثرة الخبط والتخليط والتورط في المناقضات۔
(المنخول من تعلیقات الأصول للغزالی)
ترجمہ:
"ابو حنیفہ کا ذہن بعض مسائل میں الجھ گیا تھا، اسی وجہ سے قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے ان کی پیروی سے دو تہائی مسائل میں انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے ابو حنیفہ کے ہاں کثرت سے تضادات اور تخلیط دیکھی تھی۔”
امام غزالی کی اس عبارت سے بھی ثابت ہوا کہ امام محمد صرف وقف میں نہیں بلکہ اکثر مسائل میں تقلیدِ ابو حنیفہ کو رد کرتے تھے۔
(4) علامہ عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304ھ) کی وضاحت:
مشہور حنفی امام علامہ عبدالحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
إنهم أدرجوا أبا يوسف ومحمدًا في طبقة مجتهدي المذهب، وليس كذلك، فإن مخالفتهما لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الإمام الغزالي في كتابه المنخول: إنهما خالفا أبا حنيفة في ثُلُثَيْ مذهبه۔
(عمدۃ الرعایۃ بتحشیۃ شرح الوقایۃ، عبدالحئی لکھنوی)
ترجمہ:
"لوگوں نے ابو یوسف اور محمد کو مجتہد فی المذہب کے درجے میں رکھا، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ ان دونوں نے اصول میں بھی اپنے امام سے کم اختلاف نہیں کیا۔ حتیٰ کہ امام غزالی نے فرمایا کہ انہوں نے ابو حنیفہ سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔”
اس واضح عبارت سے تقلیدیوں کی غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہے۔
(5) شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی 1176ھ) کی شہادت:
شاہ ولی اللہ دہلوی نے امام محمد کے طرزِ اجتہاد کو یوں واضح فرمایا:
إذا وجد (محمد بن الحسن) قياسًا ضعيفًا أو تخريجًا لينًا يخالفه حديث صحيح أو يخالفه عمل أكثر العلماء، تركه إلى مذهب من مذاهب السلف مما يراه أرجح۔
(الإنصاف، شاہ ولی اللہ دہلوی)
ترجمہ:
"جب امام محمد ابو حنیفہ کا کوئی کمزور قیاس یا استنباط دیکھتے جو صحیح حدیث یا جمہور علماء کے خلاف ہوتا تو وہ اسے ترک کرکے سلف کے کسی مجتہد کے مسلک کو ترجیح دے کر اختیار کر لیتے۔”
یہاں شاہ ولی اللہ نے بھی امام محمد کے اجتہاد کو مطلق اور اصولی طور پر ثابت کیا ہے۔
تقلیدی حضرات کا چوتھا اعتراض اور اس کا علمی و تحقیقی رد
تقلیدی حضرات امام محمد بن الحسن الشیبانی کو مجتہد مطلق تسلیم کرنے سے بچنے کے لیے ایک اور اہم اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"امام محمد بن الحسن نے اپنی اجتہادی آراء کے باوجود خود کو ہمیشہ امام ابو حنیفہ سے منسوب رکھا، لہٰذا ان کے اجتہاد کے باوجود وہ حنفی ہی شمار ہوں گے۔”
اس اعتراض کا علمی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں:
(1) امام محمد بن الحسن کا اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ سے منسوب نہ کرنا:
تقلیدیوں کا یہ دعویٰ تاریخی طور پر بے بنیاد ہے کہ امام محمد نے خود کو ابو حنیفہ سے منسوب رکھا۔ اس کے برعکس امام محمد نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ کے فقہی استدلال اور استنباط پر شدید علمی نقد فرمایا ہے۔
مثلاً امام محمد کا درج ذیل مشہور قول ملاحظہ کریں:
ولو أنا قلدنا في هذه الأشياء أحداً لكان من مضى قبل أبي حنيفة مثل الحسن البصري وإبراهيم النخعي ومن أشبههم أحرى أن يقلد۔
(كتاب الأصل لمحمد بن الحسن الشیبانی)
ترجمہ:
"اگر ہم ان مسائل میں کسی کی تقلید کرتے تو ابو حنیفہ سے پہلے والے ائمہ حسن بصری اور ابراہیم نخعی جیسے حضرات اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔”
یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ امام محمد ابو حنیفہ کی تقلید کے قائل ہی نہیں تھے، تو خود کو ان سے منسوب کیسے کر سکتے تھے؟
(2) امام شافعی سے مناظرہ اور امام محمد کی ابو حنیفہ پر شدید جرح:
مشہور محدث امام خطیب بغدادی (متوفی 463ھ) نے امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کے مناظرہ کی روایت نقل کی ہے جو امام محمد کے ابو حنیفہ کے بارے میں موقف کو بالکل واضح کر دیتی ہے:
ناظرت محمد بن الحسن فقلت له: نشدتك بالله هل تعلم أن صاحبي (امام مالک) كان عالما بكتاب الله؟ قال: نعم۔
قلت: فهل كان عالما بحديث رسول الله؟ قال: نعم۔
قلت: فهل كان صاحبك (ابو حنیفہ) جاهلا بكتاب الله؟ قال: نعم۔
قلت: وبما جاء عن رسول الله؟ قال: نعم۔
(تاریخ بغداد، جلد 2، ص: 180)
ترجمہ:
امام شافعی کہتے ہیں کہ میرا امام محمد سے مناظرہ ہوا، میں نے ان سے پوچھا: "کیا تمہیں اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میرے استاد امام مالک کتاب اللہ اور حدیث رسول ﷺ کے عالم تھے؟” انہوں نے جواب دیا: "جی ہاں!”
میں نے پوچھا: "کیا تمہارے استاد ابو حنیفہ کتاب اللہ اور حدیث رسول ﷺ سے جاہل تھے؟” تو انہوں نے جواب دیا: "ہاں (وہ جاہل تھے)۔”
سند کی تحقیق:
یہ روایت امام خطیب بغدادی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کی ہے جس کے راوی ثقہ ہیں۔
یہ تاریخی روایت ثابت کرتی ہے کہ امام محمد ابو حنیفہ کو اصولی علمی معاملات میں اتنا قابلِ اعتماد بھی نہیں سمجھتے تھے کہ خود کو ان سے منسوب کرتے۔
(3) امام محمد کے اجتہاد کی شاہ ولی اللہ دہلوی سے مزید وضاحت:
شاہ ولی اللہ دہلوی نے امام محمد اور امام ابو حنیفہ کے مابین تعلق کو واضح طور پر اجتہادی قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
ومنزلة مذهب أحمد من مذهب الشافعي كمنزلة مذهب أبي يوسف ومحمد من مذهب أبي حنيفة، إلا أن مذهب أحمد لم يُجمع في التدوين مع مذهب الشافعي كما دُوِّن مذهبهما مع مذهب أبي حنيفة، فلذلك لم يُعدّا مذهبًا واحدًا۔
(الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف، شاہ ولی اللہ دہلوی)
ترجمہ:
"امام احمد بن حنبل کا امام شافعی سے تعلق ایسا ہی ہے جیسے امام ابو یوسف اور امام محمد کا ابو حنیفہ سے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ احمد کا مذہب شافعی کے مذہب کے ساتھ مدون نہیں ہوا جبکہ ابو یوسف اور امام محمد کے مذاہب ابو حنیفہ کے ساتھ مدون کر دیے گئے، جس سے غلط فہمی ہوئی۔”
یہاں شاہ ولی اللہ واضح کر رہے ہیں کہ امام محمد کا ابو حنیفہ سے تعلق محض استادی شاگردی کا تھا نہ کہ تقلید کا۔
(4) ابن عابدین شامی حنفی کا واضح موقف:
ابن عابدین شامی حنفی نے بھی امام محمد کو امام ابو حنیفہ کا مقلد نہیں بلکہ مجتہد مطلق کہا ہے:
الأئمة الشافعية كالقفال والشيخ أبي على والقاضى حسين كانوا يقولون: لسنا مقلدين للشافعي، بل وافق رأينا رأيه، يقال مثله في أصحاب أبي حنيفة مثل أبي يوسف ومحمد بالأولى۔
یہ حنفی عالم بھی واضح طور پر امام محمد کو ابو حنیفہ کا مقلد نہیں بلکہ آزاد مجتہد قرار دے رہے ہیں۔
(5) علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی کا اعتراف:
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:
إن مخالفة أبي يوسف ومحمد لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الغزالي في المنخول إنهما خالفاه في ثُلُثَيْ مذهبه۔
(عمدۃ الرعایۃ شرح الوقایۃ)
ترجمہ:
"ابو یوسف اور محمد کا ابو حنیفہ سے اصول میں بھی کافی اختلاف ہے، یہاں تک کہ امام غزالی کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو حنیفہ سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا۔”
خلاصۂ بحث اور نتیجہ
① تقلیدیوں کی بنیادی غلط فہمی:
بعض تقلیدی حضرات کا خیال ہے کہ امام محمد بن الحسن نے صرف چند مسائل (جیسے وقف) میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
-
امام محمد نے خود واضح طور پر ہر طرح کی تقلید کو رد کیا ہے:
"اگر تقلید جائز ہوتی تو ابو حنیفہ سے پہلے کے ائمہ مثلاً حسن بصری اور ابراہیم نخعی تقلید کے زیادہ حقدار ہوتے۔” (کتاب الاصل)
② امام محمد کا کثرتِ مسائل میں ابو حنیفہ سے اختلاف:
امام ابو حامد الغزالی (متوفی 505ھ) نے امام محمد اور ابو یوسف کے اختلافات کی شدت واضح کی ہے:
"ابو یوسف اور محمد نے ابو حنیفہ سے دو تہائی (⅔) مسائل میں اختلاف کیا، کیونکہ انہوں نے ابو حنیفہ کے اجتہادات میں کافی الجھاؤ اور تضادات پائے۔” (المنخول للغزالی)
-
علامہ عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304ھ) نے بھی اسی بات کی تائید فرمائی:
"ابو یوسف اور محمد کا اصولی مسائل میں ابو حنیفہ سے اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ قابلِ ذکر ہے۔” (عمدۃ الرعایۃ)
③ امام محمد کو مجتہد مطلق تسلیم کرنے پر علماءِ امت کا اتفاق:
امام محمد کی علمی حیثیت کے متعلق شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی 1176ھ)، ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) اور دیگر کئی نامور فقہاء نے کھل کر تصریح فرمائی کہ امام محمد بن الحسن محض ابو حنیفہ کے مقلد نہیں بلکہ ایک مجتہد مطلق تھے۔
-
شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں:
"جب امام محمد کو ابو حنیفہ کا کوئی استدلال کمزور لگتا تو وہ اسے ترک کرکے دوسرے سلف صالحین کے اقوال کو اختیار کرلیتے۔” (الانصاف، شاہ ولی اللہ)
-
ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
"امام محمد اور ابو یوسف کو ابو حنیفہ کا مقلد نہیں بلکہ مستقل اجتہاد کرنے والا مجتہد سمجھنا چاہیے۔” (عقود رسم المفتی)
④ امام محمد کا خود کو ابو حنیفہ سے منسوب نہ کرنا:
امام محمد بن الحسن نے کبھی خود کو ابو حنیفہ کا مقلد قرار نہیں دیا۔ امام شافعی کے ساتھ ان کے مشہور مناظرے میں ان کے واضح الفاظ یہ ہیں:
-
امام شافعی نے پوچھا:
"کیا تمہارے استاد ابو حنیفہ کتاب اللہ اور حدیث رسول ﷺ سے جاہل تھے؟”
امام محمد نے واضح طور پر کہا:
"ہاں!” (تاریخ بغداد، سند صحیح)
یہ واضح دلیل ہے کہ امام محمد، ابو حنیفہ سے علمی اور اصولی مسائل میں شدید اختلاف رکھتے تھے۔