امام راتب کی غیرحاضری میں نماز – وقت نکلنے سے پہلے امامت کا جواز
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

نماز کا وقت نکل رہا ہے، امام راتب نہیں آیا، تو کیا کوئی دوسرا شخص امام کی اجازت کے بغیر نماز پڑھا سکتا ہے؟

جواب:

امام راتب کے لیے تھوڑا بہت انتظار کیا جائے گا، البتہ اگر وہ زیادہ لیٹ ہو اور نماز کا مختار وقت نکل رہا ہو، تو کوئی دوسرا امامت کرا سکتا ہے۔
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أقبلت معه حتى نجد الناس قد قدموا عبد الرحمن بن عوف فصلى لهم فأدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى الركعتين فصلى مع الناس الركعة الآخرة، فلما سلم عبد الرحمن بن عوف قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتم صلاته فأفزع ذلك المسلمين فأكثروا التسبيح فلما قضى النبى صلى الله عليه وسلم صلاته أقبل عليهم ثم قال : أحسنتم أو قال : قد أصبتم، يغبطهم أن صلوا الصلاة لوقتها .
” میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹا، تو ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو امام بنایا ہوا تھا، وہ انہیں نماز پڑھا رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کی ایک رکعت پائی، لوگوں کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی ، پھر جب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنی نماز مکمل کی ،اس دوران صحابہ پریشان تھے اور بکثرت تسبیح (سبحان اللہ ) کہہ رہے تھے، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی ، تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: آپ نے بہت اچھا کیا ۔ یا فرمایا: آپ نے صحیح کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ پر رشک کر رہے تھے کہ انہوں نے نماز کو ( اول ) وقت پر ادا کیا۔“
(صحیح مسلم : 274)
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
فيه من الفقه : إذا خيف فوات وقت الصلاة، أو فوات الوقت المختار منها ، لم ينتظر الإمام وإن كان فاضلا خيرا .
”اس حدیث میں یہ فقہی مسئلہ ہے کہ جب نماز کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا مختار وقت گزرنے کا اندیشہ ہو، تو امام ( راتب) کا انتظار نہیں کیا جائے گا،خواہ
وہ بہت زیادہ با فضلیت اور معزز ہو۔“
(المسالك : 142/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1