امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی دو مشہور کتابوں (جزء رفع الیدین اور جزء القراءة) کے راوی ابو اسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی البخاری القواس رحمہ اللہ کا جامع و مفید تذکرہ درج ذیل ہے:
نام و نسب: ابو اسحاق محمود بن اسحاق بن محمود القواس البخاری الخزاعی رحمہ اللہ
اساتذہ: آپ کے اساتذہ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
✿ امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ
✿ محمد بن الحسن بن جعفر البخاری (الارشاد خلیلی 3/967-968 رقم 895)
✿ ابو عصمہ سہل بن المتوکل بن حجر البخاری / ثقہ (الارشاد 3/969 رقم 897)
سہل بن المتوکل کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (8/294) میں ذکر کیا ہے اور حافظ خلیلی نے ثقہ کہا ہے۔
✿ ابو عمر و حریث بن عبد الرحمن البخاری (الارشاد 3/970-971 ت 898)
✿ ابو عبد اللہ محمد بن عبدک البخاری الجدیدی (الانساب للسمعانی 2/31-32)
✿ خلف بن الولید، ابو صالح البخاری (الحلق والمفترق للخطیب 1/32 شاملہ)
✿ احمد بن حاتم بن داود المکی، ابو جعفر اسلمی (بحر الفوائد: 191) وغیرہم رحمہم اللہ
تلامذہ: ہمارے علم کے مطابق آپ کے تلامذہ (شاگردوں) کے نام درج ذیل ہیں:
✿ ابو نصر محمد بن احمد بن موسی بن جعفر الملاحمی البخاری (تاریخ بغداد 6/83 مشینہ البنوسی: 169/165، التحقیق لابن الجوزی 1/274 رقم 463 وسندہ صحیح، السنن الکبری للبیہقی 2/4 وسندہ صحیح)
✿ ابو العباس احمد بن محمد بن الحسین بن اسحاق الرازی الضریر (تاریخ بغداد 13/438 رقم 7297 وسندہ صحیح)
ابو العباس الرازی الصغیر کے بارے میں خطیب بغدادی نے فرمایا: و كان ثقة حافظا (تاریخ بغداد 4/435)
✿ ابو بکر محمد بن ابی اسحاق ابراہیم بن یعقوب الکلابازی البخاری (بحر الفوائد 64، 191-192)
یہ صاحب کتاب ہیں اور ان کا ذکر تاج التراجم (ص 333-335) وغیرہ میں موجود ہے۔
✿ امام ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو بن حمد السلیمانی البیکندی البخاری رحمہ اللہ (تاریخ دمشق لابن عساکرج 26 ص 166-167، تذکرة الحفاظ 3/36 رقم 960)
ان کے حالات کے لیے دیکھیے سیر اعلام النبلاء (17/200-201) وغیرہ۔
✿ ابو الحسین محمد بن عمران بن موسی الجرجانی (الحلق والمفترق للخطیب 33/1 ح 508)
ان کا ذکر تاریخ جرجان للسہمی (ص 423-424 ت 746) میں ہے۔
✿ ابو الحسین احمد بن محمد بن یوسف الازدی البخاری (تاریخ بغداد 10/28 رقم 5147)
✿ ابو نصر احمد بن محمد بن الحسن بن حامد بن ہارون بن المنذر بن عبد الجبار النیازکی الکرمینی۔
سمرقند و بخارا کی کوئی محدثانہ مکمل تاریخ میرے پاس موجود نہیں اور ”القند فی ذکر علماء سمرقند للنسفی“ موجود ہے لیکن شروع اور آخر سے ناقص چھپی ہے، محمود نام کے راویوں والا حصہ شائع ہی نہیں ہوا۔ واللہ اعلم
علمی کارنامہ: آپ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی دو مشہور کتابوں: جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کے بنیادی راوی ہیں۔ (نیز دیکھیے ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ص 492)
علمی مقام: یمن کے مشہور عالم مولانا شیخ عبد الرحمن بن یحی المعلمی رحمہ اللہ نے زاہد بن حسن کوثری (جہمی) کو مخاطب کر کے لکھا ہے:
اذا كان أهـل الـعـلـم قد وثقوهما و ثبتوهما ولم يتكلم أحد منهم فيهما فما ذا ينفعك أن تقول : لا نثق بهما؟
جب اہل علم (محدثین و علماء) نے ان دونوں (محمود بن اسحاق الخزاعی اور احمد بن محمد بن الحسین الرازی) کو ثقہ اور ثبت قرار دیا ہے، کسی ایک نے بھی ان دونوں پر کوئی (جرح والا) کلام نہیں کیا تو تمہارا یہ کہنا: ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے، کیا فائدہ دے گا؟
(التشکیل بمانی تانیب الکوثری من الاباطیل 1/475 ت 242)
اب محمود بن اسحاق رحمہ اللہ کی صریح اور غیر صریح توثیق کے دس سے زیادہ حوالے پیش خدمت ہیں:
➊ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے محمود بن اسحاق کی بیان کردہ ایک روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (دیکھیے موافقة الخمر فی تخریج احادیث المختصر 1/417)
تنبیہ: راوی کی منفرد روایت کو حسن یا صحیح کہنا، اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ (دیکھیے نصب الرایة 3/264 ،149/1 )
➋ علامہ نووی رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بطور جزم نقل کی اور فرمایا:
بإسناده الصحيح عن نافع (المجموع شرح المہذب 3/405)
معلوم ہوا کہ نووی جزء رفع الیدین کو امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح و ثابت کتاب سمجھتے تھے۔
➌ ابن الملقن (صوفی) نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بطور جزم نقل کی اور فرمایا:
بإسناد صحيح عن نافع عن ابن عمر (البدر المنیر 3/478)
➍ زیلعی حنفی نے جزء رفع الیدین سے روایات بطور جزم نقل کیں۔ (دیکھیے نصب الرایة 1/390، 393، 395)
➎ مشہور محدث ابو بکر البیہقی رحمہ اللہ نے محمود بن اسحاق کی روایت کردہ کتاب: جزء القراءة للبخاری کو بطور جزم امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ (مثلاً دیکھیے کتاب القراءة خلف الامام البیہقی ص 23ح 28)
➏ علامہ ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ نے جزء القراءة کو بطور جزم امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ (مثلاً دیکھیے تہذیب الکمال 3/172 سعید بن سنان البرجمی)
➐ عینی حنفی نے جزء رفع الیدین کو امام بخاری رحمہ اللہ سے بطور جزم نقل کیا ہے۔ (دیکھیے عمدة القاری 5/272 تحت ح 735)
نیز شرح سنن ابی داود للعینی (250/3 ح 732) اور معانی الاخبار (476/3)
➑ بدر الدین محمد بن بہادر بن عبد اللہ الزرکشی رحمہ اللہ نے جزء مذکور کو بطور جزم نقل کیا۔ (دیکھیے البحر المحیط فی اصول الفقه 4/449 مکتبہ شاملہ)
➒ محمد الزرقانی نے جزء رفع الیدین کو امام بخاری سے بطور جزم نقل کیا ہے۔ (دیکھیے شرح الزرقانی علی الموطا 1/158 تحت ح 204 باب ما جاء فی افتتاح الصلاة)
➓ سیوطی نے فض الدعاء میں جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا۔ (دیکھیے فض الدعاء فی احادیث رفع الیدین بالدعاء 59/1 قبل ح 18)
⓫ ذہبی (التنقیح لکتاب التحقیق لاحادیث التعلیق 1/249 مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ)
⓬ مغلطائی حنفی (دیکھیے شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائی 1414/1 ، 1466، 8/2 شاملہ)
وغیرہ ذلک مثلاً دیکھیے تنقیح التحقیق (2/218 ح 1758، 378/1 شاملہ)
آل دیوبند و آل بریلی اور آل تقلید کے کئی علماء نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة (کلا للبخاری/ دونوں یا کسی ایک) کو بالجزم امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کر رکھا ہے، جن میں سے بعض حوالے درج ذیل ہیں:
➊ نیموی (آثار السنن: 635 وقال: رواه البخاری فی جزء رفع الیدین واسنادہ صحیح)
➋ سرفراز خان صفدر کڑ منگی گکھڑوی دیوبندی (خزائن السنن ص 416 حصہ دوم ص 166)
➌ صوفی عبد الحمید سواتی دیوبندی (نماز مسنون کلاں ص 646)
➍ فیض احمد ملتانوی دیوبندی (نماز دلیل ص 118 حوالہ نمبر 276)
➎ جمیل احمد نذیری دیوبندی (رسول اکرم ﷺ کا طریقہ نماز ص 262)
➏ علی محمد حقانی دیوبندی (نبوی نماز / سندھی ص 292 حصہ اول)
➐ غلام مصطفی نوری بریلوی (نماز نبویﷺ ص 162)
➑ غلام مرتضی ساقی بریلوی (مسئلہ رفع الیدین پر کا تعاقب ص 26)
➒ ابو یوسف محمد ولی دروایش دیوبندی (پیغمبر خداﷺ مونح / پشتو ص 414)
➓ عبد الشکور قاسمی دیوبندی وغیرہ (کتاب الصلاۃ ص 113 طبع ندوة العلماء کراچی)وغیرہم
ان سب نے جزء القراءة یا جزء رفع الیدین کے حوالے بطور جزم و بطور حجت نقل کیے ہیں اور بعض نے تو رفع الیدین سے مذکور ایک روایت کو صحیح سند قرار دیا ہے۔
ہمارے علم کے مطابق محمود بن اسحاق پر کسی محدث یا مستند عالم نے کوئی جرح نہیں کی اور ان کی بیان کردہ کتابوں اور روایتوں کو صحیح قرار دینا یا بالجزم ذکر کرنا (ان پر جرح نہ ہونے کی حالت میں) اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مذکورہ تمام علماء وغیرہ علماء کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے، لہذا جزء القراءة اور جزء رفع الیدین دونوں کتابیں امام بخاری رحمہ اللہ سے ثابت ہیں اور چودھویں پندرھویں صدی کے بعض الناس کا ان کتابوں پر طعن و اعتراض مردود ہے۔
بعض الناس کی جہالت یا تجاہل کا رد: چودھویں پندرھویں صدی میں بعض الناس (مثلاً امین اوکاڑوی دیوبندی) نے محمود بن اسحاق البخاری کو مجہول کہہ دیا ہے، حالانکہ سات راویوں کی روایت، حافظ ابن حجر اور دیگر علماء وغیرہ علماء کی توثیق کے بعد مجہول کہنا یہاں باطل و مردود ہے۔ ہمارے علم کے مطابق 332ھ میں وفات پانے والے محمود بن اسحاق کو کسی محدث یا مستند عالم نے مجہول العین یا مجہول الحال (مستور) نہیں کہا۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
محمود بن إسحاق البخاري القواس: سمع من محمد بن إسماعيل البخاري و محمد بن الحسن بن جعفر صاحب يزيد بن هارون و حدث و عمر دهرا. أرخه الخليلي و قال: ثنا عنه محمد بن أحمد الملاحمي
محمود بن اسحاق البخاری القواس: انہوں نے محمد بن اسماعیل البخاری اور یزید بن ہارون کے شاگرد محمد بن الحسن بن جعفر سے سنا، حدیثیں بیان کیں اور ایک (طویل) زمانہ زندہ رہے۔ خلیلی نے ان کی تاریخ وفات بیان کی اور فرمایا: ہمیں محمد بن احمد الملاحمی نے ان سے حدیث بیان کی ہے۔ (تاریخ الاسلام ج 25 ص 83)
اصول حدیث کا مشہور مسئلہ ہے کہ جس راوی سے دو یا زیادہ ثقہ راوی حدیث بیان کریں تو وہ مجہول العین (یعنی مجہول) نہیں ہوتا اور اگر ایسے راوی کی توثیق موجود نہ ہو تو مجہول الحال (مستور) ہوتا ہے۔ چند حوالے درج ذیل ہیں:
➊ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: و أقل ما ترتفع به الجهالة أن يروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشهورين بالعلم، كذلك
اور آدمی کی جہالت (مجہول العین ہونا) کم از کم اس سے ختم ہو جاتی ہے کہ اس سے علم کے ساتھ مشہور دو یا زیادہ راوی روایت بیان کریں، اسی طرح ہے۔ (الکفایة فی علم الروایة ص 88 واللفظ له، شرح ملا علی قاری علی نزہتہ انظر شرح نخبة الفکر ص 517)
ابن الصلاح الشہرزوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے: و من روى عنه عدلان و عيناه فقد ارتفعت عنه هذه الجهالة
اور جس سے دو ثقہ روایت کریں اور اس کا( نام لے کر) تعین کر دیں تو اس سے یہ جہالت (مجہول العین ہونا) ختم ہو جاتی ہے۔ (مقدمة ابن الصلاح ص 146 نوع 23، شرح ملا علی قاری ص 517)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسامہ بن حفص کے بارے میں لکھا ہے: ليس بمجهول فقد روى عنه أربعة
وہ مجہول نہیں، کیونکہ اس سے چار راویوں نے روایت بیان کی ہے۔ (ہدی الساری لابن حجر ص 389)
تنبیہ: یہ عبارت اس سیاق کے ساتھ میزان الاعتدال کے مطبوعہ نسخوں سے گر گئی ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مخالف علی بن عبد الکافی السبکی الشافعی نے علانیہ لکھا ہے: و برواية اثنين تنتفى جهالة العين فكيف برواية سبعة؟
دو کی روایت سے جہالت عین مرتفع (یعنی ختم) ہو جاتی ہے، لہذا سات کی روایت سے کس طرح رفع نہ ہوگی؟! (شفاء السقام، الباب الاول الحدیث الاول ص 98)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ایک راوی عبد الرحمن بن یزید بن عقبہ بن کریم الانصاری الصدوق کے بارے میں لکھا ہے: و قد روى عنه ثلاثة، وقد قيل: رجلان فليس بمجهول
اس سے تین یا دو آدمیوں نے روایت بیان کی، لہذا وہ مجہول نہیں ہے۔ (الاستیعاب 1/180 ح 49 باب ترک الوضوء مما مست النار)
ابو جعفر النحاس رحمہ اللہ نے کہا: و من روى عنه اثنان فليس بمجهول
اور جس سے دو روایت کریں تو وہ مجہول نہیں۔ (الناسخ والمنسوخ 1/48، دوسرا نسخہ 1/171، شاملہ)
عینی حنفی رحمہ اللہ نے ایک راوی (ابو زید) کے بارے میں لکھا ہے:
والجهالة عند المحدثين تزول برواية اثنين فصاعدا، فأين الجهالة بعد ذلك؟! إلا أن يراد جهالة الحال
اور محدثین کے نزدیک دو یا زیادہ کی روایت سے جہالت ختم ہو جاتی ہے، لہذا اس کے بعد جہالت کہاں رہی؟! الا یہ کہ اس سے جہالت حال مراد لی جائے. (نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار 2/282 طبع وزارة الاوقاف قطر)
اس طرح کے اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ (مثلاً دیکھیے لسان المیزان 6/226، الولید بن محمد بن صالح، مجمع الزوائد 1/362)
➋ ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے عائشہ بنت عجرد کے بارے میں ایک اصول لکھا ہے: وليس بمجهول من روى عنه اثنان
اور جس سے دو ثقہ راوی روایت بیان کریں تو وہ مجہول نہیں ہوتا۔ (اعلاء السنن 1/207 ح 153)
تنبیہ: اس کے بعد و عرفها يحيى بن معين فقال: لها صحبة والی عبارت علیحدہ ہے اور اس کا اس اصول سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے مزید لکھا ہے: برواية عدلين ترتفع جهالة العين عند الجمهور و لا تثبت به العدالة
جمہور کے نزدیک دو ثقہ راویوں کی روایت سے جہالت عین ختم ہو جاتی ہے اور اس سے عدالت (راوی کی توثیق) ثابت نہیں ہوتی۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص 130، اعلاء السنن 19/213)
➌ عبد القیوم حقانی دیوبندی نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
اس کے جواب میں شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ ان کا نام یزید ہے اور ان سے تین راوی روایت کرتے ہیں اور قاعدے کے مطابق جس شخص سے روایت کرنے والے دو ہوں اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہے۔ (توضیح السنن ج 1 ص 571 تحت ح 345)
نیز دیکھیے توضیح السنن (2/605 تحت ح 995-1000)
➍ محمد تقی عثمانی دیوبندی نے ایک مجہول الحال راوی ابو عائشہ پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا:
اور اصول حدیث میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جس شخص سے دو راوی روایت کریں اس کی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے، لہذا جہالت کا اعتراض درست نہیں اور یہ حدیث حسن سے کم نہیں۔ (درس ترمذی 2/315-316)
➎ عبد الحق حقانی اکوڑوی دیوبندی نے ایک روایت میں مجہول والے اعتراض کے بارے میں کہا: ”تو اس کا جواب یہ ہے کہ مجہول کی دو قسمیں ہیں: (1) مجہول ذات۔ (2) مجہول صفات۔ جب کسی راوی نے روایت میں حدثنی رجل کہہ دیا اور وہ رجل معلوم نہیں تو یہ مجہول ذات ہے۔ اگر ایسے غیر معلوم رجل سے دو شاگرد جو ثقہ عادل اور تام الضبط ہوں اور امت کو ان پر اعتماد ہو روایت نقل کر دیں تو ایسے دو تلامذہ کا ایک استاد سے روایت نقل کرنا گویا استاد (رجل مجہول) کی ثقاہت کی شہادت ہے۔ کیونکہ باکمال تلامذہ بے کمال استاد سے کبھی بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔“ (حقائق السنن شرح جامع الترمذی 1/206)
➏ احمد حسن سنبھلی تقلیدی مظفر نگری نے امام ابن ابی شیبہ کے (اپنے مزعومہ امام پر) پہلے اعتراض کے جواب میں لکھا ہے:
پس دو شخصوں نے جب ان سے روایت کی تو جہالت مرتفع ہو گئی اور وہ معروف شمار ہوں گے جیسا کہ یہ قاعدہ اصول حدیث میں ثابت ہو چکا ہے۔ (اجوبہ اللطیفہ عن بعض رد ابن ابی شیبہ علی ابی حنیفہ ص 18-19، ترجمان احناف 418-419)
یہ کتاب چار اشخاص کی پسندیدہ ہے:
● اشرف علی تھانوی (دیکھیے ترجمان احناف ص 408)
● ماسٹر امین اوکاڑوی (دیکھیے ترجمان احناف ص 7۔3)
● مشتاق علی شاہ دیوبندی (دیکھیے ترجمان احناف کا پہلا صفحہ)
● محمد الیاس گھمن حیاتی دیوبندی (دیکھیے فرقہ اہل حدیث پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ ص 390)
اگر اس حوالے میں مذکورہ اصول حدیث کے مسئلے کا انکار کیا جائے تو آل تقلید کا اپنے مزعومہ امام کا، پہلے ہی مسئلے میں دفاع ختم ہو جاتا ہے اور امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کا یہ اعتراض صحیح ثابت ہو جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ احادیث کی مخالفت کرتے تھے۔
➐ نیموی تقلیدی نے ایک مجہول الحال راوی ابو عائشہ کے بارے میں لکھا ہے: قلت: فارتفعت الجهالة برواية الاثنين عنه
میں نے کہا: پس اس سے دو کی روایت سے جہالت مرتفع (ختم) ہو گئی۔ (دیکھیے آثار السنن ص 397 تحت ح 995)
نیز دیکھیے آثار السنن ص 147 تحت ح 328
➑ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے: ثم من روى عنه عدلان ارتفعت جهالة عينه
پھر جس سے دو ثقہ راوی روایت بیان کریں تو اس کی جہالت عین ختم ہو جاتی ہے۔ (فتح الملہم 1/63، دوسرا نسخہ 1/172)
➒ محمد ارشاد القاسمی بھاگل پوری (دیوبندی) نے لکھا ہے:
”مجہول العین کی روایت دو عادل سے ثابت ہو جائے تو جہالت مرتفع ہو جائے گی۔“ (ارشاد اصول الحدیث طبع زمزم پبلشرز ص 95)
➓ محمد محمود عالم صفدر (ننھے) اوکاڑوی نے لکھا ہے: ”یہ بات یاد رہے کہ راوی کے ایک ہونے پر جہالت کا مدار دوسرے محدثین کے نزدیک ہے، اور ان کے نزدیک اگر دو روایت کرنے والے ہوں تو جہالت عینی مرتفع ہو جائے گی۔ ہمارے نزدیک مجہول العین وہ ہے جس سے ایک یا دو حدیثیں مروی ہوں اور اس کی عدالت بھی معلوم نہ ہو۔ عام ہے کہ اس سے روایت کرنے والے دو یا دو سے زائد ہوں۔ اس قسم کی جہالت اگر صحابی میں ہے تو مضر نہیں اور اگر غیر میں ہے تو پھر اگر اس کی حدیث قرن ثانی یا قرن ثالث میں ظاہر ہو جائے تو اس پر عمل جائز ہوگا اور اگر ظاہر ہو اور سلف اس کی صحت کی گواہی دیں، طعن سے خاموش رہیں تو قبول کر لی جائے گی اور اگر رد کر دیں تو رد کر دی جائے گی اور اگر اختلاف کریں تو اگر موافق قیاس ہوگی تو قبول ورنہ رد کر دی جائے گی۔“ (قطرات المعطر ص 238)
ننھے اوکاڑوی کے اس دیوبندی اصول سے محمود بن اسحاق الخزاعی اور نافع بن محمود المقدسی وغیرہم رحمہم اللہ کی روایات مقبول (صحیح یا حسن) ہو جاتی ہیں۔
اس طرح کے مزید حوالے بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں اور ان سے ثابت ہوا کہ سات شاگردوں والے راوی محمود بن اسحاق رحمہ اللہ کو مطلقاً مجہول یا مجہول العین کہنا بالکل غلط و مردود ہے۔
رہا مجہول الحال یا مستور قرار دینا تو یہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے، جب راوی کی توثیق سرے سے موجود نہ ہو (یا ناقابل اعتماد ہو) جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: و إن روى عنه اثنان فصاعدا ولم يوثق فهو مجهول الحال وهو المستور وقد قبل روايته جماعة بغير قيد و ردها الجمهور
اگر اس سے دو یا دو سے زائد نے روایت کی ہو اور اس کی توثیق نہ ہو تو وہ مجہول الحال ہے اور مستور ہے۔ اسے بغیر کسی قید کے ایک جماعت نے قبول کیا ہے، اور جمہور نے رد کر دیا ہے۔ (نزهة النظر شرح نخبة الفکر مع شرح ملا علی قاری ص 517-518، قطرات العطر شرح اردو شرح نخبة الفکر ص 236)
ایک جماعت نے قبول کیا ہے، کی تشریح میں ملا علی قاری حنفی نے لکھا ہے: منهم أبو حنيفة
ان میں ابو حنیفہ ہیں۔ (شرح شرح نخبة الفکر ص 518)
شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے: و منهم أبو بكر بن فورك و كذا قبله أبو حنيفة خلافا للشافعي، و من عزاه إليه فقد وهم
اور ان (مستور کی روایت قبول کرنے) میں ابو بکر بن فورک اور ان سے پہلے ابو حنیفہ ہیں، (یہ اصول) شافعی کے خلاف ہے اور جس نے اسے ان (شافعی) کی طرف منسوب کیا ہے (کہ مستور کی روایت مقبول ہے) تو اسے غلطی لگی ہے۔ (فتح الملہم 1/170، قدیم نسخہ 1/63)
حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی کی پسندیدہ کتاب علوم الحدیث میں محمد عبید اللہ الاسعدی (دیوبندی) نے لکھا ہے:”امام ابو حنیفہ کے نزدیک مجہول کے احکام کی بابت تفصیل یہ ہے:
(الف) مجہول العین: یہ حال جرح نہیں ہے۔ اس کی حدیث اس صورت میں غیر مقبول ہوگی جبکہ سلف نے اس کو مردود قرار دیا ہو یا یہ کہ اس کا ظہور عہد تبع تابعین کے بعد ہو۔ اور اگر اس سے پہلے ہو خواہ سلف نے اس کی تقویت کی ہو یا بعض نے موافقت کی ہو یا کہ سب نے سکوت کیا ہو، اس پر عمل درست ہے۔
(ب) مجہول الحال: راوی مقبول ہے، خواہ عدل الظاہر خفی الباطن ہو یا دونوں کی رو سے مجہول ہو۔
(ح) مجہول الاسم: بھی مقبول ہے بشرطیکہ قرون ثلاثہ سے تعلق رکھتا ہو۔
اس تفصیل سے یہ بھی ظاہر ہے کہ امام صاحب کے نزدیک بھی مجہول مطلقاً مقبول نہیں، کم از کم قرون ثلاثہ سے تعلق کی قید ضرور ملحوظ ہے جیسا کہ تصریح کی گئی ہے۔ (علوم الحدیث ص 200)
ابو سعد شیرازی (دیوبندی) نے لکھا ہے: ”جو راوی مجہول العین نہ ہو اور اس کی توثیق بھی کسی سے منقول نہ ہو اسے مستور کہتے ہیں۔ اس کی روایت مقبول ہے۔ (الیاس گھمن کا قافلہ حق جلد 3 نمبر 2 ص 29)
شیرازی دیوبندی نے اپنے ”سلطان المحدثین، ملا علی قاری“ سے نقل کیا ہے: ”اور مستور کی روایت کو ایک جماعت نے بغیر زمانہ کی قید کے قبول کیا ہے، ان میں سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ سخاوی نے اس کو ذکر کیا ہے اور اس قول کو امام اعظم رحمہ اللہ کی اتباع کرتے ہوئے ابن حبان نے اختیار کیا ہے۔“ (الیاس گھمن کا قافلہ حق جلد 3 نمبر 2 ص 35)
تنبیہ: یہ دعویٰ کہ اس اصول میں حافظ ابن حبان نے حنفیہ کے امام ابو حنیفہ کی اتباع کی ہے، بے دلیل و بے سند ہے۔
دیوبندی ”مفتی“ شبیر احمد (جدید) نے لکھا ہے: ”تیسرے راوی ہیں امام ابو عصمہ سعد بن معاذ المروزی۔ ان پر علی زئی نے مجہول ہونے کی جرح نقل کی ہے۔ حالانکہ اصول حدیث کی رو سے یہ جرح بھی مردود ہے، کیونکہ مجہول کی دو قسمیں ہیں:
● مجہول الحال
● مجہول العین
مجہول کا مطلب جس کی عدالت ظاہر نہ ہو، مسلمان ہو۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے متبعین کے نزدیک مجہول الحال کی روایت قبول کی جائے گی یعنی راوی کا مسلمان ہونا اور فسق سے بچنا اس کی روایت کی قبولیت کے لیے کافی ہے۔
مجہول العین کا مطلب یہ ہے کہ علماء اس راوی اور اس کی روایت کو نہ پہچانیں۔ اس سے صرف ایک راوی نے نقل کیا ہو بالفاظ دیگر اس سے ایک شاگرد نے روایت نقل کی ہو۔
مجہول کی اقسام میں سے ایک قسم بھی ابو عصمہ پر صادق نہیں آتی نہ مجہول الحال نہ ہی مجہول العین۔ احناف کے اصول کے مطابق تو اس کی روایت قبول ہے ہی دیگر ائمہ کے اصول کے مطابق بھی اس کی روایت قبول ہے کیونکہ ان کے شاگرد کئی ہیں اور یہ ہیں بھی مسلمان۔ لہذا ان کی روایت قبول ہوگی۔ الخ (الیاس گھمن کا قافلہ حق جلد 5 نمبر 2 ص 24)
انصاف پسند قارئین کرام غور کریں کہ ابو عصمہ سے چند راویوں نے روایت بیان کی اور کسی ایک مستند محدث یا عالم نے اس کی صریح یا غیر صریح توثیق نہیں کی، بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صاف لکھا ہے کہ مجهول و حديثه باطل وہ مجہول ہے اور اس کی حدیث باطل ہے۔ (میزان الاعتدال 2/125، دوسرا نسخہ 3/185)
اس ابو عصمہ کو تو ثقہ و صدوق ثابت کیا جا رہا ہے (!) اور محمود بن اسحاق الخزاعی البخاری و نافع بن محمود المقدسی وغیرہما کو مجہول و مستور کہا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ!
خلاصتہ التحقیق: محمود بن اسحاق الخزاعی مذکور، مجہول و مستور نہیں بلکہ ثقہ و صدوق اور صحیح الحدیث وحسن الحدیث تھے، لہذا ان پر ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی اور مقلدین اوکاڑوی کی جرح مردود ہے۔
وفات: 332ھ
(تاریخ نوشت:4 نومبر 2011ء مکتبة الحدیث حضرو، اٹک)
(اس مضمون کے لیے دیکھیے مقالات 5/218)