امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے نسخہ ظاہریہ کی مکمل سند اور راویوں کی توثیق
تحریر: شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

إن الحمد لله نحمده و نستعينه، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، و أن محمدا عبده و رسوله، أما بعد: فإن خير الحديث كتاب الله، و خير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم و شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة فى النار
دین اسلام میں أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله کے اقرار کے بعد دوسرا رکن صلوٰۃ (نماز) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو تکبیر تحریمہ، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد کندھوں یا کانوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اسے عرف عام میں رفع یدین کہا جاتا ہے۔
درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رفع یدین کی مرفوع روایت بیان کی ہے:
✿ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری و صحیح مسلم و جزء رفع الیدین: 2)
✿ مالک بن الحويرث رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری و مسلم و جزء: 7)
✿ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (مسلم و جزء: 10)
✿ ابوحميد الساعدی رضی اللہ عنہ (صحیح ابن حبان و غیره و جزء: 3)
✿ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ (جزء: 3)
✿ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ (جزء: 5)
✿ ابواسید الساعدی رضی اللہ عنہ (جزء:5)
✿ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (جزء: 5)
✿ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ (السنن الکبریٰ للبیہقی 73/2 و منتقیٰ حدیث العبد وی 316/2: 24)
✿ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (الخلافیات للبیہقی و نورالعینین ص 194-203 طبع دوم)
✿ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (جزء: 1)
✿ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (صحیح ابن خزیمہ: 694-695)
✿ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ (دارقطنی 292/1)
✿ عبداللہ بن الزبير رضی اللہ عنہ (السنن الکبریٰ للبیہقی 73/2)
✿ جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ (سنن ابن ماجہ: 868 و مسند السراج: 92)
✿ انس بن مالک رضی اللہ عنہ (ابویعلی فی مسنده: 3793 و جزء: 8) وغیرہم رضی اللہ عنہم
امام اصطخری، حافظ سیوطی، اشرف علی تھانوی دیوبندی وغیرہم نے اس کی صراحت کی ہے کہ ہر وہ حدیث متواتر ہے جسے کم از کم دس راوی (صحابہ) بیان کریں۔ دیکھیے تدریب الراوی 177/2، قطف الازهار المتناثرہ ص 21، بوادر النوادر ص 136۔ متواتر احادیث پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کو خاص طور پر بطور متواتر ذکر کیا گیا ہے۔ دیکھیے نظم المتناثر من الحدیث المتواتر 96، 97، لقط اللآلیٰ المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ ص 207 ح 62، قطف الازهار المتناثرہ ص 95 ح 33۔
جن علماء نے رفع یدین مذکور کو متواتر قرار دیا ہے ان میں سے چند اہل علم کے نام درج ذیل ہیں:
الکتانی، ابن الجوزی، ابن حجر، زکریا الانصاری، الزبیدی وغیرہم۔
دیکھیے نورالعینین (طبع جدید ص 112-130 و طبع قدیم ص 89-90)
نماز میں رفع الیدین کے مسئلے پر بہت سے علماء نے کتابیں اور رسالے لکھے ہیں مثلاً:
✿ محمد بن نصر المروزی کی ”کتاب رفع الیدین“ (مختصر قیام اللیل للمروزی ص 192)
✿ ابوبکر البزار (الاستذکارا 410/1 تحت ح 139)
✿ ابونعیم الاصبہانی، کتاب رفع الیدین فی الصلوٰۃ (التحبیر للسمعانی 179/1-182)
✿ تقی الدین السبکی، ان کا رسالہ مطبوع ہے۔
✿ ابن القیم (الوافی بالوفیات 2/196)
ان کتابوں میں شہرہ آفاق کتاب امام بخاری کی” جزء رفع الیدین“ ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ استاذ محترم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کے کتب خانے میں جزء رفع الیدین للبخاری کا ایک بہترین (قلمی مصور) نسخہ مل گیا جو کہ نسخہ ظاہریہ کی فوٹوسٹیٹ ہے۔ میں نے اس نسخے کو اصل قرار دے کر اس کی تحقیق و تخریج احادیث اور ترجمہ کیا۔
بعد میں میرے ایک پیارے دوست مجاہد علی مجاہد جھنگوی (سابق دیوبندی و حال اہل حدیث) نے بتایا کہ ان کے پاس ”جزء رفع الیدین “کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔ میرے مطالبے پر انہوں نے اس نسخے کی فوٹوسٹیٹ مجھے دے دی۔ میں نے اسے اصل ثانی قرار دے کر نسخہ ظاہریہ سے اس کا مقارنہ کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بھائی مجاہد علی مجاہد کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔

راویان نسخہ کا تعارف

نسخہ ظاہریہ کی یہ خوبی ہے کہ کاتب سے لے کر امام بخاری تک سند شروع میں لکھی ہوئی ہے۔ کتاب کے آخر کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ” اخبرنا الشیخ الامام العلامہ الحافظ المتقن بقیة السلف زین الدین ابوالفضل عبدالرحیم بن الحسین بن العراق“ لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی ہیں۔ اب اس نسخے کے راویوں کا مختصر اور جامع تذکرہ پیش خدمت ہے:

➊ پہلے راوی:  حافظ ابن حجر العسقلانی

حافظ ابن حجر العسقلانی الشافعي الامام العلامه الحافظ فريد الوقت مفخر الزمان بقية الحفاظ علم الائمه الاعلام، عمدة المحققين، خاتمه الحفاظ المبرزين والقضاة المشهورين (لحظ الالحاظ لابن فہد الہاشمی المکی ص 326)۔ 773ھ کو پیدا ہوئے اور 852ھ کو فوت ہوئے۔ آپ تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب، لسان المیزان، فتح الباری، طبقات المدلسین اور تغلیق التعلیق وغیرہ کتب نافعہ کے مصنف ہیں اور روایت حدیث میں ثقہ و متقن علماء میں سرفہرست ہیں
یہاں پر بطور تنبیہ عرض ہے کہ بعض علماء کے ساتھ شافعی و مالکی و حنبلی وحنفی وغیرہ سابقوں و لاحقوں کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ یہ علما صف مقلدین میں شامل تھے۔ ان جیسے بہت سے شافعی کہلانے والے علماء سے منقول ہے کہ وہ کہتے تھے:
لسنا مقلدين للشافعي بل وافق رأينا رأيه
ہم (امام) شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے سے (اتفاقاً) موافق ہوگئی ہے۔ (تقریرات الرافعی ج 1 ص 11، التحریر والتنویر مرجع 3 ص 453، النافع الکبیر ص 7)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:
إن المذموم من التقليد أخذ قول الغير بغير حجة
غیر (یعنی غیر نبی) کا قول بغیر دلیل کے لینا مذموم تقلید میں سے ہے۔ (فتح الباری 351/13 تحت باب امن کتاب التوحید)
یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ تقلید ہوتی ہی بلا دلیل ہے۔ دیوبندیوں کی مستند کتاب لغت ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہوا ہے کہ:
التقليد: بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی، (2) نقل، (3) سپردگی (ص 1346 ب)
قلّد فلاناً: تقلید کرنا، بلا دلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا، (2) کسی کی نقل اتارنا جیسے قلد القرد الانسان (ایضاً ص 1346 الف )
اشرف علی تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں کہ:
”تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل“۔ (ملفوظات حکیم الامت ج 3 ص 159 ملفوظ 228)
معلوم ہوا کہ یہی تقلید حافظ ابن حجر کے نزدیک مذموم ہے لہذا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد تھے۔ انہوں نے بہت سے مسائل میں امام شافعی کی مخالفت کی ہے مثلاً ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی کو امام شافعی ثقہ (یعنی سچا اور قابل اعتماد) سمجھتے تھے جبکہ حافظ ابن حجر اسے تقریب التہذیب میں ”متروک“ لکھتے ہیں۔ ( ص 23 تحقیق المحقق ارشاد الحق الاثری، کثر اللہ امثالہ)
کتب طبقات مثلاً طبقات الشافعیہ وغیرہ میں کسی شخص کا مذکور ہونا اس کے مقلد ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ امام شافعی کو طبقات مالکیہ (الدیباج المذہب ص 227) اور طبقات حنبلیہ لابی الحسین (ج 1 ص 280) پر، امام احمد کو طبقات شافعیہ للسبکی (ج 1 ص 99) اور داوؤد ظاہری کو طبقات الشافعیہ (ج 2 ص 42) میں ذکر کیا گیا ہے۔ دیکھیے تنقید سدید (ص 36) لشیخنا الامام ابی محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ۔
حالانکہ یہ سب مجتہدین تھے ان میں سے ایک بھی مقلد نہیں تھا۔ یاد رہے کہ ”طبقات المقلدین“ کے نام سے کسی مستند محدث کی کوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس الامام المجتہد الحافظ عالم الاندلس ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم بن محمد بن سیار القرطبی رحمہ اللہ (متوفی 276ھ) کی کتاب” الایضاح فی الرد علی المقلدین“ ضرور لکھی گئی ہے۔ دیکھیے سیر اعلام النبلاء (ج 13 ص 329)

➋ دوسرے راوی: حافظ ابوالفضل العراقی، ولادت 725ھ وفات 806ھ۔

آپ الفیه فی مصطلح الحدیث، التقييد والایضاح شرح مقدمہ ابن الصلاح اور المغنی عن حمل الاسفار فی الاسفار وغیرہ مفید کتابوں کے مصنف ہیں۔ حافظ ابن فہد نے کہا:
الإمام الأوحد العلامة الحجة الحبر الناقد، عمدة الأنام، حافظ الإسلام فريد دهره وحيد عصره، من فاق بالحفظ والإتقان فى زمانه (لحظ الالحاظ ص 220)

➌ تیسرے راوی: حافظ نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ، ولادت 735ھ وفات 807ھ۔

آپ مجمع الزوائد، موارد الظمآن اور کشف الاستار وغیرہ مفید کتابوں کے مصنف ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں فرمایا:
كان خيرا ساكتا صيتا، سليم الفطرة شديد الإنكار للمنكر، لا يترك قيام الليل (ذيل طبقات الحفاظ للذہبی از قلم: السیوطی ص 373)

➍ چوتھی راوی: سیدہ حافظہ ام محمد ست العرب بنت محمد رحمہا اللہ، وفات 677ھ ۔

حافظ ابن حجر نے کہا:
حفيدة الفخر ابن البخاري، أحضرت عليه فكان عندها من حديثه من الكتب الطوال والأجزاء شيء كثير و حدثت و طال عمرها، أخذ عنها شيخنا العراقي (الدرر الكامنہ 2/127)
محدثہ ذات صلاح و عبادہ ( اعلام النساء 2/159)

➎ پانچویں راوی: امام فخر الدین ابن البخاری رحمہ اللہ، ولادت 595ھ وفات 690ھ ۔

حافظ ذہبی نے فرمایا: كان فقيها عالما أديبا فاضلا، كامل العقل، متين الورع مكرما للمحدثين (معجم الشيوخ 2/13 ت 512)

➏ چھٹے راوی: الشیخ عمر بن محمد بن طبرزد رحمہ اللہ، ولادت 516ھ، وفات 607ھ۔

بعض لوگوں نے بعض امور دین میں تہاون (و سستی) کی وجہ سے ان پر کلام کیا ہے مگر حافظ ابن نقطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو مكثر، صحيح السماع، ثقة فى الحديث (التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد،ص 397، ت: 521)

➐ ساتویں راوی: الشیخ احمد بن الحسن بن البناء رحمہ اللہ، ولادت 445ھ وفات 527ھ۔

حافظ ابن الجوزی نے ان کے بارے میں فرمایا:
وكان ثقة (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم 17/278 ت: 3982)

➑ آٹھویں راوی: الشیخ محمد بن احمد بن حسنون النرسی رحمہ اللہ

آپ کی ولادت 367ھ اور وفات 456ھ۔ ہے۔ آپ کے بارے میں حافظ الخطیب البغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
كتبنا عنه وكان صدوقا ثقة، من أهل القرآن، حسن الإعتقاد (تاریخ بغداد، 1/356 ت: 285)

➒ نویں راوی: الشیخ محمد بن احمد بن موسیٰ الملاحمی رحمہ اللہ

آپکی ولادت 312ھ وفات 395ھ۔ ان کے بارے میں حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ:
كان ثقة، يحفظ ويفهم (العبر في خبر من غبر 2/187)

➓ دسویں راوی: محمود بن اسحاق الخزاعی رحمہ اللہ، وفات 332ھ۔

آپ کے تین شاگرد ہیں:
✿ الملاحمی
✿ احمد بن محمد بن الحسین الرازی (تاریخ بغداد 13/438 و تذکرۃ الحفاظ 3/1029)
✿ احمد بن علی بن عمر السلیمانی (دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 3/1036 ت 960)
حافظ ابن حجر نے ان کی بیان کردہ ایک روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (موافقة الخمر الخير في تخريج احادیث المختصر 1/417)
روایت کی تصحیح (وتحسین) اس کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ دیکھیے نصب الرایہ للزیلعی(3/264، 1/149) وغیرہ۔
لہذا محمود بن اسحاق مذکور، حافظ ابن حجر کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث ہے۔ یاد رہے کہ کسی محدث نے محمود کو مجہول نہیں کہا۔ (محمود بن اسحاق کا تذکرہ تاریخ الاسلام للذہبی ( ج 25 ص 83) الارشاد فی معرفتہ علماء الحدیث للخلیلی ( ج 3 ص 968) پر موجود ہے۔ اس کی وفات 332 ھ میں ہوئی ہے ۔ رحمہ اللہ ان کے بارے میں تفصیلی مضمون کے لیے دیکھئے یہی کتاب ص 114 ) بعض کذابین کا چودھویں پندرھویں صدی میں محمود کو مجہول کہنا سرے سے مردود ہے۔ والحمد للہ

⓫ گیارھویں راوی: شیخ الاسلام، الامام الفقيه المجتہد، الحافظ ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ، ولادت 194ھ (صدق) وفات 256ھ (نور)۔

آپ صحیح البخاری، التاریخ الکبیر، کتاب الضعفاء وغیرہ کتب مفیدہ کے مصنف ہیں۔ آپ کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ:
أمير المؤمنين فى الحديث ورأس المحدثين فى القديم والحديث وأستاذ الحفاظ الذى أجمعت الأمة شرقا وغربا على توثيقه وأمانته وضبطه وصيانته
آپ کے تلمیذ التلمیذ حافظ ابن حبان نے گواہی دی کہ:
وكان من خيار الناس ممن جمع وصنف ورحل وحفظ وذاكر وحث عليه وكثرت عنايته بالأخبار وحفظه للآثار مع علمه بالتاريخ ومعرفة أيام الناس ولزوم الورع الخفي والعبادة الدائمة إلى أن مات رحمه الله کتاب الثقات 114,113/9
امام ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ولم أر أحدا بالعراق ولا بخراسان فى معنى العلل والتاريخ ومعرفة الأسانيد (العلل للترمذی ج 1 ص 32، تاریخ بغداد 2/27، وسنده صحیح)
یعنی مثل الامام البخاری رحمہ اللہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے میری کتاب ”الاسانيد الصحيحة في اخبار الامام ابی حنیفہ“، ص 270

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ”جزء رفع الیدین للبخاری“ کی امام بخاری تک سند بالکل صحیح وثابت ہے۔

تحقیق کی تفصیل:

➊ راقم الحروف نے نسخہ ظاہریہ کو اصل اول قرار دیا ہے کیونکہ یہ صحیح وثابت اور صحیح ترین نسخہ ہے۔ ابن الصلاح نے نسخے سے نقل کے لیے یہ شرط لکھی ہے کہ:
و هو أن يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل، بل صحيح النقل قليل السقط
اور یہ کہ اصل (معتمد) کے نسخے کا ناقل، غلط نقل کرنے والا نہ ہو بلکہ صحیح نقل کرنے والا اور( بہت) کم غلطیاں کرنے والا ہو۔ (علوم الحدیث مقدمة ابن الصلاح ص 303 نوع: 25 فرع: العاشر)
➋ برادرم مجاہد علی مجاہد کے نسخے کو اصل ثانی قرار دے کر بعض عبارات کی اصلاح کی ہے۔
➌ احادیث پر صحت وضعف کے لحاظ سے حکم لگا دیا ہے۔
➍ احادیث کی مختصر، جامع اور ضروری تخریج کر دی ہے۔ طوالت سے اس لیے اجتناب کیا ہے کہ اس کا عامتہ المسلمین کو کوئی فائدہ نہیں اور کتاب بھی خوامخواہ طویل بن کر مہنگی ہو جاتی ہے جسے خریدنا عوام کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ مثلاً سنن سعید بن منصور/ تفسیر سعید بن منصور کی 869 احادیث کو ڈاکٹر سعد بن عبداللہ بن عبد العزیز آل حمید نے بہت لمبی تخریج کر کے چار جلدوں + جلد پنجم: الفہارس، سولہ سو اکیاسی (1681) صفحوں میں شائع کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ کتاب ایک جلد میں بھی شائع ہو سکتی تھی۔ امام سعید بن منصور اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کی بیان کردہ حدیث کی تخریج اگر پچاس کتابوں سے نہ کی جائے تو وہ صحیح نہ ہوگی۔ بلکہ عوام کے لیے یہی کافی ہے کہ اصل نص کا ضبط صحیح طریقے سے کر کے مختصر و ضروری تخریج اور اس روایت کا صحیح یا ضعیف درجہ بیان کر دیا جائے۔ بعض جدید متقین محققین کو تطویل و ضخیم کتاب کا خواہ مخواہ خبط ہی رہتا ہے۔
➎ آخر میں راویان حدیث کی فہرست بحوالہ ارقام حدیث لکھ دی ہے تاکہ حدیث تلاش کرنے میں آسانی رہے۔
➏ احادیث کی ترقیم (نمبر لگانا) استاد محترم سید ابومحمد بدیع الدین الراشدی السندھی رحمہ اللہ کے تحقیق شدہ نسخے ”جلاء العینین بتحریج روایات البخاری فی جزء رفع الیدین“ کے مطابق ہے تاکہ بعض شائقین تحقیق دونوں نسخوں سے فائدہ حاصل کر سکیں اور عند الضرورت مقارنہ بھی کرلیں۔
➐ عربی متن میں قلمی نسخے (مخطوطے) کے صفحات کا ذکر [ق: ] کے ساتھ کر دیا ہے۔
➑ اطراف الحدیث وغیرہ کی فہرست آخر میں درج کر دی ہے تاکہ حدیث تلاش کرنے میں مزید آسانی رہے۔
➒ جامع مقدمہ لکھ کر اپنا منہج مع فوائد علمیہ پیش کر دیا ہے۔
➓ منکرین رفع الیدین مثلاً پرائمری ماسٹر محمد امین صفدر اوکاڑوی دیوبندی حیاتی کے شبہات و اعتراضات کے مسکت اور دندان شکن جوابات دے دیے ہیں۔
ماسٹر امین اوکاڑوی:
ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ”جزء رفع الیدین“ کے ترجمہ اور حاشیے کے ساتھ جو نسخہ لکھا ہے وہ اکاذیب وافتراءات، مغالطات اور تلبیسات پر مشتمل ہے۔
ماسٹر امین صاحب نے میرے خلاف ایک مضمون لکھا تھا جس کا جواب میں نے پچاس صفحوں میں ”اوکاڑوی کا تعاقب“ کے نام سے لکھ کر اوکاڑوی صاحب کو ان کی زندگی میں بھیج دیا تھا۔ اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ میرے اس جوابی مضمون کو مکمل نقل کر کے اس کا جواب دیں۔ میں نے لکھا تھا کہ:
اگر وہ اسے متن میں رکھ کر مکمل جواب نہیں دیں گے تو ان کے جواب کو باطل و کالعدم سمجھا جائے گا۔ (اوکاڑوی کا تعاقب، ص 50)
وہ اپنی زندگی میں میری اس شرط کے مطابق جواب نہ دے سکے۔
میں نے ”جزء رفع الیدین“ کے سلسلے میں اوکاڑوی صاحب کے تمام اہم و بنیادی اعتراضات کے جوابات اس کتاب ”تحقیق و تخریج جزء رفع الیدین“ میں دے دیے ہیں۔ والحمد للہ۔
اکاذیب اوکاڑوی:
اوکاڑوی صاحب کے چند صریح جھوٹ درج ذیل ہیں:
➊ امین اوکاڑوی نے کہا:
اس کا راوی احمد بن سعید دارمی مجسمہ فرقہ کا بدعتی ہے۔ (مسعودی فرقہ کے اعتراضات کے جوابات ص 41-42، تجلیات صفدر طبع جمعیتہ اشاعت العلوم الحنفیہ ج 2 ص 348-349)
امام احمد بن سعید الدارمی کے حالات تہذیب التہذیب (1/31,32) وغیرہ میں مذکور ہیں۔ وہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما کے راوی اور بالا اتفاق ثقہ ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی تعریف کی ہے۔ ان پر کسی محدث نے بھی مجسمہ فرقے میں سے ہونے کا الزام نہیں لگایا۔
➋ اوکاڑوی نے کہا:
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لا جمعة الا بخطبة خطبہ کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا۔ (مجموعہ رسائل ج 2 ص 169 طبع جون 1993ء)
ان الفاظ کے ساتھ حدیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ مالکیوں کی غیر مستند کتاب ”المدونہ“ میں ابن شہاب (الزہری) سے منسوب ایک قول لکھا ہوا ہے کہ:
بلغني أنه لا جمعة إلا بخطبة فمن لم يخطب صلى الظهر أربعا (ج 1 ص 147)
اس غیر ثابت قول کو اوکاڑوی صاحب نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً منسوب کر دیا ہے۔
➌ اوکاڑوی نے کہا:
ان ائمہ اربعہ میں سے فارسی النسل بھی صرف امام صاحب (یعنی ابوحنیفہ ناقل) ہی ہیں۔ (مجموعہ رسائل ج 3 ص 33 طبع ستمبر 1994ء)
حالانکہ امام ابوحنیفہ کا فارسی النسل ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے۔ تہذیب التہذیب (10/449) میں و قيل أنه من أبناء فارس مجہول کے صیغے کے ساتھ لکھا گیا ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ امام صاحب کا فارسی ہونا ثابت نہیں ہے۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کے ثقہ شاگرد ابونعیم الفضل بن دکین الکوفی فرماتے ہیں:
ابو حنيفة النعمان بن ثابت بن زوطى، أصله من كابل
یعنی امام صاحب کابلی تھا۔
(تاریخ بغداد 13/324-325 وسنده صحیح، الاسانيد الصحيحة ص 3)
اوکاڑوی نے کابلی کو فارسی بنا دیا ہے۔ سبحان اللہ!
➍ ایک ضعیف روایت میں آیا ہے کہ:
والمرأة تجعل يديها حذاء ثديها
اور عورت اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ رکھے۔
(کنز العمال ج 7 ص 431، ح 19640 والطبرانی فی الکبیر 22/19-20، مجمع الزوائد 9/374-103/2)
اس میں تحریف کرتے ہوئے اوکاڑوی صاحب اسی حدیث میں لکھتے ہیں:
والمرأة ترفع يديها حذاء ثديها
اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے۔
(مجموعہ رسائل ج 1 ص 323 طبع اکتوبر 1993ء، بحوالہ کنز العمال 7/10307)
یہاں پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور اسی کتاب کے ص 346 پر اس کی راویہ پر ”اور ام یحیی مجہولہ ہیں“ لکھ کر جرح کر دی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ اس صفحے پر اس راویہ کی حدیث مرضی کے خلاف تھی اور ص 323 پر مرضی کے مطابق۔ اصل مقصد مرضی کی پیروی ہے۔
➎ اوکاڑوی نے کہا:
برادران اسلام، اللہ تعالیٰ نے جس طرح کافروں کے مقابلہ میں ہمارا نام مسلم رکھا، اسی طرح اہل حدیث کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا نام اہلسنت والجماعت رکھا۔ (مجموعہ رسائل ج 4، ص 36 طبع نومبر 1995ء)
حالانکہ کسی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حدیث کے مقابلے میں دیوبندیوں کا نام اہل سنت والجماعت نہیں رکھا۔ یہ بات عام علماء حق کو معلوم ہے کہ دیوبندی حضرات اہل سنت والجماعت نہیں ہیں بلکہ نرے صوفی وحدت الوجودی اور غالی مقلدین ہیں۔ امام سیوطی نے یہ کہتے ہوئے مقلدین کو اہل سنت والجماعت سے خارج کر دیا ہے کہ:
والذي يجب أن يقال كل من انتسب إلى إمام غير رسول الله صلى الله عليه وسلم يوالي على ذلك ويعادي عليه فهو مبتدع خارج عن السنة والجماعة سواء كان فى الأصول أو الفروع
یہ کہنا واجب ہے کہ ہر شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور امام سے منسوب ہوتا ہے، اس کی محبت اور دشمنی اسی پر ہوتی ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔ چاہے یہ (انتساب و محبت اور دشمنی) اصول میں ہو یا فروع میں۔ (الكنز المدفون والفلك المشحون للسيوطي ص 149)
➏ اوکاڑوی نے کہا:
نماز تراویح کے بارے میں بیس رکعت سے کم کسی امام کا مذہب نہیں۔ (مجموعہ رسائل ج 4، ص 51)
حالانکہ عینی حنفی نے لکھا ہے کہ:
وقيل احدى عشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه واختاره أبو بكر العربي
اور ایک قول گیارہ رکعتوں کا ہے۔ اور اسے (امام) مالک نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔ ابوبکر العربی نے (بھی) اسے ہی اختیار کیا۔
(عمدۃ القاری ج 11ص 127، طبع دار الفکر)
عبد الحق اشبیلی مالکی (متوفی 581ھ) نے بھی امام مالک سے گیارہ رکعات کا قول نقل کیا ہے۔ دیکھیے کتاب التجدید للاشبیلی ص 76 فقرہ: 890
➐ صحاح ستہ کے مرکزی راوی ابن جریج کے بارے میں اوکاڑوی نے کہا:
یہ بھی یاد ہے کہ یہ ابن جریج وہی شخص ہیں جنہوں نے مکہ میں متعہ کا آغاز کیا اور نوے عورتوں سے متعہ کیا۔
(تذکرۃ الحفاظ – مجموعہ رسائل ج 3 ص 164)
تذکرۃ الحفاظ للذہبی (ج 1 ص 169 تاص 171) پر ابن جریج کے حالات مذکور ہیں مگر ”متعہ کا آغاز“ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ خالص اوکاڑوی جھوٹ ہے۔
رہی یہ بات کہ ابن جریج نے نوے عورتوں سے متعہ کیا تھا بحوالہ تذکرۃ الحفاظ (ص 170-171) یہ بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ امام ذہبی نے ابن عبد الحکم تک کوئی سند بیان نہیں کی۔ بے سند اقوال اس وقت تک مردود کے حکم میں ہوتے ہیں جب تک وہ دوسری کتاب میں باسند صحیح یا حسن ثابت نہ ہو جائیں۔
➑ اوکاڑوی نے کہا:
خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو نماز پڑھا کرتے تھے اس میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ (مجموعہ رسائل ج 4، ص 191)
حالانکہ ان الفاظ کے ساتھ ایک روایت بھی ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ہے۔ محمد بن الحسن الشیبانی (کذاب بقول ابن معین) کی موطا امام محمد (ص 90) سے عدم ذکر والی ایک روایت لکھ دینا اس کی دلیل نہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ جزء رفع الیدین (ح 22) میں باسند صحیح موجود ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے (اور بعد) رفع یدین کرتے تھے۔
➒ غیر مستند کتاب المدونہ(ج 1 ص 71) پر ابن وہب وابن القاسم عن مالک عن ابن شہاب عن سالم بن عبد اللہ عن ابیہ کی سند سے ایک مختصر روایت موجود ہے کہ:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح التكبير للصلوة
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں تکبیر افتتاح کہتے (تو) اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
اس کا ترجمہ ماسٹر اوکاڑوی صاحب نے درج ذیل لکھا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں صرف پہلی تکبیر کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے۔ (مجموعہ رسائل ج 4، ص 217)
حالانکہ ”صرف“ اور ”ہی“ کے الفاظ اوکاڑوی صاحب نے خود گھڑ لیے ہیں۔ حدیث مذکور میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔
یاد ہے کہ مدونہ والی روایت موطا ابن القاسم (ح 59) میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین، اور روایت ابن وہب (عند البیہقی 2/69) میں ”واذا كبر للركوع“ والے رفع یدین کے ساتھ موجود ہے۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ابن وہب و ابن القاسم والی روایتیں اثبات رفع یدین کی دلیل ہیں جنہیں ”مدونہ“ کے مجہول راویوں نے مختصر بیان کر دیا ہے۔
➓ امام عطاء بن ابی رباح کے بارے میں اوکاڑوی نے کہا:
میں نے کہا: سرے سے یہ ہی ثابت نہیں کہ عطاء کی ملاقات دو سو صحابہ سے ہوئی ہو اور یہ تو بالکل ہی غلط ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے وقت تک کسی ایک شہر میں دو سو صحابہ موجود ہوں۔ (تحقیق مسئلہ آمین ص 44 و مجموعہ رسائل ج 1 ص 156 طبع اکتوبر 1991ء)
دوسرے مقام پر اوکاڑوی نے اعلان کیا کہ:
مکہ مکرمہ بھی اسلام اور مسلمانوں کا مرکز ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح یہاں کے مفتی ہیں۔ دو سو صحابہ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ (نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی شرعی حیثیت ص 9، و مجموعہ رسائل ج 1 ص 265)
ان دونوں متضاد باتوں میں پہلی بات میں اوکاڑوی صاحب بالکل غلط ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ جزء رفع الیدین کے اس مقدمے میں ان کے تمام جھوٹوں کا احاطہ ناممکن ہے۔ ان کے اکاذیب وافتراءات کے تعارف کے لیے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔

اوکاڑوی صاحب کے چند مغالطات کا جائزہ:

● صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کے مقابلے میں اوکاڑوی صاحب ”مسند امام اعظم“ نامی کتاب کے حوالے بکثرت پیش کرتے رہتے ہیں مثلاً دیکھیے جزء رفع الیدین بتحریفات الاوکاڑوی ص 241 وغیرہ۔
”مسند امام اعظم“ نامی کتاب کے مقدمے میں لکھا ہوا ہے کہ:
اس وقت جس کتاب کا ترجمہ ”مسند امام اعظم“ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے یہ در حقیقت امام عبد اللہ حارثی کی تالیف ہے جس کا اختصار علامہ حصکفی نے کیا ہے۔ (ص 22 طبع ادارہ نشریات اسلام اردو بازار، لاہور)
عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی مشہور کذاب و وضاع تھا۔
(کہا جاتا ہے کہ) ابوسعید الرواس نے کہا:
يتهم بوضع الحديث
یہ شخص وضع حدیث کے ساتھ متہم ہے۔
(مروی ہے کہ) احمد السلیمانی نے کہا:
كان يضع هذا الاسناد على هذا المتن الخ
یہ شخص ایک سند گھڑ کر دوسرے متن پر لگا دیتا تھا۔
البوزرعہ احمد بن الحسین الرازی نے کہا: ضعیف (ہے)۔ اس پر حاکم خلیلی اور خطیب بغدادی نے بھی جرح کی ہے۔ دیکھیے لسان المیزان (ج 3 ص 349 ت: 4816)
امام ابو احمد الحافظ نے کہا:
الأستاذ ينسج الحديث
یہ استاد تھا، حدیثیں بناتا تھا۔ (کتاب القرآن للبیہقی ص 155، ح: 367)
یعنی یہ شخص جھوٹ بولنے اور احادیث گھڑنے میں بڑا استاد تھا۔ بعد والے لوگوں نے یہ استادی کی ہے کہ حارثی کذاب سے لے کر امام ابوحنیفہ صاحب تک جو اسانید تھیں ان کو حذف کر دیا ہے۔ دیکھیے مسند امام اعظم ص 25، تاکہ بعد والے لوگ کسی قسم کی تحقیق نہ کر سکیں۔ اب اس موضوع و من گھڑت کتاب کو ”مسند امام اعظم“ کے نام سے دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اس من گھڑت مسند کے ص 91 پر ایک حدیث لکھی ہوئی ہے کہ:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کے گھورے (کوڑی) پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔
اس مسند حارثی میں بیٹھ کر پیشاب کرنے والی روایت مجھے نہیں ملی!
● اوکاڑوی لکھتا ہے کہ:
موطا میں اذا کبر للرکوع نہیں ہے اور امام بخاری نے یہ اضافہ کر لیا ہے۔ (جزء ص 270)
حالانکہ موطا (روایۃ ابن القاسم الثقہ ص 113، اور روایۃ محمد بن الحسن الشیبانی: کذاب ص 89) پر ”إذا كبر للركوع“ کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری نے اضافہ نہیں کیا بلکہ روایت بیان کر دی ہے۔ معلوم ہوا کہ دیوبندی حضرات محدثین کرام کے بھی گستاخ ہیں۔
● اوکاڑوی صاحب اور ان کی پارٹی کے لوگ رفع یدین کے سلسلے میں عدم ذکر والی روایتوں سے بھی مسئلہ کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ نور العینین میں مستقل باب کے ذریعے اس استدلال کا رد کر دیا گیا ہے۔ (قدیم ص 120، جدید ص 147، نیز دیکھیے الجوہر النقی ج 2 ص 317)
● بعض روایات میں شاگرد اپنے استاد سے مسئلہ یا دلیل پوچھتے ہیں۔ اوکاڑوی صاحب وغیرہ ایسے سوال و جواب سے ترک یا سنت صحیحہ کی مخالفت تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ طواف کعبہ میں دونوں رکنان یمانی کو چھوتے اور دوسرے رکنوں کو نہ چھوتے … الخ تو عبید بن جریج نے سوال کر دیا:
میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا ہے جو آپ کے دوسرے ساتھی نہیں کرتے۔ (صحیح البخاری ج 1 ص 28، ح 166)
تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے احادیث سنا کر مطمئن کر دیا۔ اس سوال و جواب سے یہ مسئلہ نکالنا کہ ارکان یمانی کو چھونا غلط یا متروک ہے۔ اوکاڑوی جیسے لوگوں کا ہی کام ہے۔
چند اہم باتیں:
➊ ایک روایت کی سند یا متن کی تائید اگر دوسری سند و متن سے ہو رہی ہو تو اسے ”شاہد“ کہتے ہیں بشرطیکہ دونوں کا مفہوم تقریباً ایک جیسا ہو۔ مثلاً حدیث: لا تقبل صلوة بغير طهور (مسلم: 224 عن ابن عمر) کا بہترین شاہد، حدیث: لا تقبل صلوة أحدكم إذا أحدث حتى يتوضأ (مسلم: 225 والبخاري: 135 عن ابی ہریرہ ) ہے۔ متقدمین کے نزدیک شاہد اور متابعت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دیکھیے شرح نخبۃ الفکر ص 56 و مجمع مصطلحات الحدیث ولطائف الاسانید محمد ضیاء الرحمن الاعظمی ص 201۔
متابعت: مثلاً سفیان بن عیینہ نے زہری عن سالم عن ابیہ کی سند سے رفع الیدین قبل الركوع وبعدہ والی حدیث بیان کی ہے۔ یہی حدیث امام مالک نے زہری عن سالم عن ابیہ کی سند سے اسی مفہوم کے ساتھ بیان کی ہے۔ محدثین کے نزدیک امام مالک نے سفیان بن عیینہکی اور سفیان نے امام مالک کی متابعت کی ہے۔
➌ سجدہ، سجدتین:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم سجدتين قبل الظهر .إلخ
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو سجدے (یعنی دو رکعتیں) نماز پڑھی۔ (صحیح البخاری ج 1 ص 156 ح 1172 و صحیح مسلم ج 1 ص 252)
یہاں ”سجدتین“ سے مراد ”رکعتین“ ہے جیسا کہ درسی صحیح بخاری کے نسخے پر لکھا ہوا ہے اور ماسٹر امین اوکاڑوی کے حاشیہ کے ساتھ صحیح بخاری کا جو ترجمہ مع التحریفات شائع ہوا ہے اس میں بھی سجدتین کا ترجمہ ”دو رکعت“ ہی کیا گیا ہے۔ (ج 1 ص 555 حدیث: 1103 شائع کردہ مکتبہ مدنیہ لاہور، مترجم: ظہور الباری اعظمی: دیوبندی)
معلوم ہوا کہ سجدہ سے مراد رکعہ اور سجدتین سے مراد رکعتین بھی ہوتی ہیں۔ لہذا جن روایات میں سجدتین کے بعد رفع یدین کا ذکر ہے ان سے مراد رکعتین کے بعد والا رفع یدین ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے۔
➍ اصول حدیث میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ مدلس کی تصریح سماع کے بغیر (مثلاً عن) والی روایت ضعیف ہوتی ہے بشرطیکہ:
الف: راوی کا مدلس ہونا ثابت ہو۔ اگرچہ صرف ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو۔
ب: روایت مذکورہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ ہو۔
دیکھیے مقدمہ ابن الصلاح (ص 161) و تیسیر مصطلح الحديث (ص 83) و کتب اصول الحديث وغیرہ سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع ہو، مگر یہ یاد ہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں، وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔ (خزائن السنن: ج 1 ص 1)
امین اوکاڑوی صاحب نے مدلس کے عنعنہ کی وجہ سے احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیے تجلیات صفدر (ج 3 ص 93، 318) وغیرہ، مطبوعہ جمعیۃ اشاعت العلوم الحنفیہ فیصل آباد۔ انہی مدلس راویوں میں سے امام سفیان ثوری ہیں جو تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں۔
انہیں عبد اللہ بن المبارک، یحییٰ بن سعید القطان، یحییٰ بن معین وغیرہم بے شمار محدثین نے مدلس قرار دیا ہے۔ دیکھیے نور العینین ص 100-101 و طبع جدید ص 124-125 – 126۔ کسی ایک محدث نے سفیان ثوری کے مدلس ہونے کا انکار نہیں کیا۔ لہذا معلوم ہوا کہ ان کے مدلس ہونے پر اجماع ہے۔ حنفی علماء نے بھی سفیان ثوری کے مدلس ہونے کی گواہی دی ہے۔ دیکھیے الجوہر النقی (ج 8 ص 362)، عمدۃ القاری للعینی (ج 3 ص 112)۔ بلکہ دیوبندی علماء نے بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مدلس تسلیم کیا ہے۔ دیکھیے خزائن السنن (ج 2 ص 77)، مجموعہ رسائل (ج 3 ص 331)، آئین تسکین الصدور (ص 92-90)۔
لہذا معلوم ہوا کہ غیر صحیحین میں سفیان ثوری کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ راقم الحروف کی یہی تحقیق ہے جسے نورالعینین وغیرہ میں بار بار لکھا ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ آج سے تقریباً سولہ سال پہلے عبدالرشید انصاری کے نام ایک خط (8/19/1408ھ) میں راقم الحروف نے غلطی سے لکھ دیا کہ:
طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس مضر نہیں ہے۔ (جرابوں پر مسح ص 40)
علم ہونے کے بعد میں نے علانیہ اس سے رجوع کیا اور یہ رجوع ماہنامہ شہادت میں بھی شائع ہوا ہے۔ میں نے لکھا کہ: میری یہ بات غلط ہے۔ میں اس سے رجوع کرتا ہوں۔ لہذا اسے منسوخ و کالعدم سمجھا جائے گا۔ (ماہنامہ شہادت ج 10 نمبر 4 ص 39 ب، مطبوعہ اپریل 2003ء)
نوٹ: یہاں میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میری صرف وہی کتاب مستند و معتبر ہے جس کے ہر ایڈیشن کے آخر میں میرے دستخط مع تاریخ موجود ہیں۔ اس شرط کے بغیر شائع شدہ کتاب کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔
مخطوطہ ظاہریہ کے بیرونی ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے کہ:
كتاب رفع اليدين فى الصلوة تأليف الإمام الحافظ الحجة شيخ الحفاظ علم المحدثين أمير المؤمنين أبى عبدالله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم البخاري الجعفي رحمه الله تعالىٰ ورضي عنه وعنا به آمين
اختتام:
آخر میں عرض ہے کہ رفع الیدین کے اثبات کے دلائل اور مخالفین رفع الیدین کے شبہات کے مفصل جوابات تو میں نے ”نور العینین“ میں دے دیے ہیں۔ تفصیل کے طالب حضرات کے لیے ”نور العینین“ کا مطالعہ ضروری ہے۔ عام لوگوں کے لیے امام بخاری کی جزء رفع الیدین (مع تحقیق) ہی کافی ہے۔ والحمد لله وما توفيقي الا بالله عليه توكلت واليه انيب.

جزء رفع الیدین نسخہ ظاہریہ کے سکین

امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے نسخہ ظاہریہ کی مکمل سند اور راویوں کی توثیق – 01 امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے نسخہ ظاہریہ کی مکمل سند اور راویوں کی توثیق – 02 امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے نسخہ ظاہریہ کی مکمل سند اور راویوں کی توثیق – 03 امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے نسخہ ظاہریہ کی مکمل سند اور راویوں کی توثیق – 04

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے